نگراں حکومت، الیکشن کمیشن اور ملک کے طاقت ور حلقے شفاف انتخابات کا وعدہ کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب نظر آئے یہ فیصلہ بھی اب سب کے سامنے ہے، اور دوسرا سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ آزاد امیدواروں کی اگلی منزل کیا ہوگی؟
عام انتخابات2024ء کے نتائج اور فرائیڈے اسپیشل کا تازہ شمارہ رواں ہفتے ایک ساتھ ہی طلوع ہوں گے۔ یہ جو کہا جارہا تھا کہ اس بار کچھ نیا ہی ہوگا، سچ ثابت ہوا۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں رائے دہندگان کا فیصلہ آئندہ پانچ سال کے لیے اس قوم کے لیے خوشحالی کا پیغام ہوگا یا اہلِ وطن کے گلے کا طوق بنا رہے گا۔
حالیہ انتخابات کئی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ سابق حکمران جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر جمہوری عمل سے ہی باہر ہوگئی، اور سابق وزیراعظم عمران خان متعدد مقدمات میں سزا پانے کے باعث جیل میں ہیں، ان کے وکلاء اور بھٹو صاحب کے وکیل نے جس طرح مقدمہ لڑا تھا، دونوں کا نتیجہ ایک جیسا ہی نکلا۔ پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر انٹرا پارٹی انتخابات کی طرف جارہی ہے۔ یہ بے کار ثابت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ہاں 2029ء کے انتخابات تک کچھ بچا، تو کام آجائے گا، بصورتِ دیگر اقتدار کی چکا چوند اور طاقت اور پھر اس کا استعمال پوری انسانی شخصیت کو تہہ و بالا کردیتا ہے۔ مزاج بدل جاتے ہیں، طور طریقے اپنا رنگ چھوڑ دیتے ہیں۔ طاقت کا نشہ کسی بھی نشے سے بڑھ کر ہوا کرتا ہے۔ ایوانِ اقتدار کے اپنے انداز اور بھول بھلیاں ہوا کرتی ہیں۔ اکثر ان راہوں میں گم ہوجاتے ہیں اور سیاسی وارث تلاشِ گمشدہ کے اشتہار لگاتے رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی تنظیم تو بکھر چکی ہے، ووٹر باقی ہے، مگر ووٹر پارٹی کارکن نہیں ہوتا۔ انٹرا پارٹی انتخابات ہو ہی نہ سکیں گے، اور اگر رسمی کارروائی کر بھی لی جائے تو بہت سے اعتراضات پھر قابلِ سماعت ہوں گے۔ فیصلہ ووٹر کو کرنا ہے، تاہم حکومت پی ٹی آئی کی ابھی بنتی نظر نہیں آرہی تو لڑائی کس بات کی ہے؟
انتخابی تاریخ گواہ ہے کہ 1970ء سے 2018ء تک ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدوار انتخابی معرکہ ازخود جیت لیتے تھے۔ 1988ء کے انتخابات نہایت کشیدگی، تناؤ اور سیاسی کشمکش میں ہوئے تھے، پورا ملک سیاسی تفریق کا شکار تھا، مگر کئی جماعتوں کے ارکان سے زائد قومی اسمبلی کی 40 نشستیں آزاد امیدوار جیت گئے تھے۔1970ء میں بھی ایسا تھا، 2008ء میں 29 آزاد ارکان تھے، 2013ء میں 27 آزاد ارکان تھے اور 2018ء میں 12 ایسے منتخب ارکان تھے۔ اب تو لگ بھگ 200 آزاد امیدوار خود کو سیاسی جماعت کا امیدوار کہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی 2018ء میں 118 جنرل نشستیں جیتی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جب دوتہائی اکثریت حاصل کی تو 135 نشستوں پر جیتی تھی اور 2013 میں اس نے 129 نشستوں کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ پیپلزپارٹی نے صرف 91 جنرل نشستوں پر جیت کر 2008ء میں حکومت بنالی تھی۔
فروری ہی میں صدرِ مملکت کے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوجائے گا، غالباً مارچ کے پہلے ہفتے میں نئے صدر منتخب ہوں گے۔ اسی طرح چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے بھی مارچ کی دس گیارہ تاریخ کو خالی ہوں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی نئے منتخب ہوں گے۔ پی ٹی آئی اپنی غیر دانش مندانہ روش کی بنا پر ان میں کسی پر بھی اپنے نمائندے منتخب نہ کروا سکے گی کیونکہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر اس کا حصہ نہ ہوگا، اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے نہ ہونے کی بنا پر سینیٹرز کا انتخاب بھی پی ٹی آئی کے لیے آسان نہ ہوگا۔ صدر تو یقیناً پی ٹی آئی سے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے اب موقع ہے کہ وہ اپنا محاسبہ خود بھی کرے۔
جہاں تک انتخابات کرائے جانے کا سوال ہے نگراں حکومت، الیکشن کمیشن اور ملک کے طاقت ور حلقے شفاف انتخابات کا وعدہ کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب نظر آئے یہ فیصلہ بھی اب سب کے سامنے ہے، اور دوسرا سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ آزاد امیدواروں کی اگلی منزل کیا ہوگی؟ انتخابات کے بعد اہم ترین مرحلہ حکومت سازی کا ہے، اس مرحلے پر ایک نیا جوڑ توڑ ہوگا، کسی کا بازو کسی کی ٹانگ جوڑ کر ایک نیا دھڑ بنایا جائے گا، اور یہی ڈھانچہ حکمران کہلائے گا۔ حالیہ انتخابات کے لیے کوشش یہی رہی کہ سب کو راضی رکھا جائے، کیا اس میں فیصلہ ساز کامیاب ہوئے؟ یا کتنے کامیاب ہوں گے؟ یہ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتا چل جائے گا۔ بلاشبہ تحریک انصاف جیسی بڑی سیاسی جماعت کی اپنے انتخابی نشان سے محرومی اور دیگر مسائل کا سامنا ہونا افسوسناک ہے، پارٹی کی قیادت نے اپنے لیے خود ہی مشکلات کے پہاڑ کھڑے کرلیے۔ جماعت کے داخلی انتخابات آئین و قانون کے مطابق نہ کرانے کا کوئی جواز اس کے وکلا کھلی عدالتی کارروائی میں پیش نہیں کرسکے جس کا نتیجہ انتخابی نشان سے محرومی کی شکل میں نکلا۔ تاہم تحریک انصاف بڑی عوامی حمایت رکھنے کے باعث اپنے غلط رویوں کی اصلاح کرکے مستقبل میں قومی تعمیر وترقی میں اہم کردار کرسکتی ہے اور آئین و قانون کے مطابق اس کا موقع اُسے دیا جانا چاہیے، اور خود اُسے بھی اپنا کردار جمہوری روایات اور رویوں کے پاسداری کرتے ہوئے انجام دینا چاہیے۔
اب نئی حکومت جو بھی بنے، اُسے ملکی معیشت مستحکم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، اس حکومت کے سامنے بے شمار معاشی مسائل ہیں، اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا عالم یہ ہے کہ پاکستان میں 60 فیصد شہری اسٹریٹ لائٹس سے محروم ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، ملک پر قرضوں کا عالم یہ ہے کہ اگلے مالی سال کے دوران پاکستان کو 25 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کا پروگرام مارچ میں ختم ہورہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے معاہدے کے لیے ایک نئی حکومت کا انتظار کررہے ہیں۔ نئی حکومت آئی ایم ایف سے جاری معاہدہ ختم ہونے کے بعد نیا معاہدہ کرسکتی ہے۔ تاہم معاہدہ ہو نہ ہو، اگلے مالی سال کے دوران پاکستان کو 25 بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ یہ قرض پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔ اگلے مالی سال کے دوران ادائیگیوں کا اثر زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑے گا، پاکستان کی معیشت نئے بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر گرجائے گی۔ نگران حکومت بھی جاتے جاتے کچھ ایسے فیصلے کرجائے گی جنہیں نئی حکومت بھی ختم نہیں کرسکے گی۔ ان فیصلوں میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا کردار اہمیت کا حامل ہے، مستقبل میں معیشت اسی کے فیصلوں کے گرد گھومے گی۔
نگران حکومت نے اسی کونسل کی سفارش پر پی آئی اے سے متعلق کچھ اہم فیصلے کیے ہیں جن پر نئی حکومت عمل درآمد کی پابند ہوگی۔ اس کونسل نے اسٹرے ٹیجک کنالز وژن 2030ء اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات کی بھی منظوری دے دی ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایف آئی ایف سی) کی ایپکس کمیٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات پلان کے ساتھ ساتھ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کو دو اداروں میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ نگران حکومت معاشی حالات بہتر کرنے کے لیے مسلسل اقدامات کررہی ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کے نویں اجلاس میں زور دیا کہ آئندہ آنے والی منتخب حکومت کو چاہیے کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں معاشی پالیسیوں کے تسلسل اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے قائم کردہ معاشی اقدامات کی رفتار سے استفادہ کرے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پی آئی اے کو دو اداروں میں تقسیم کرنے کے بعد ادارے کے ذمے 830 ارب روپے کے واجبات نئی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کردیے جائیں گے تاکہ اِس کی نجکاری کی جا سکے۔ نگران وفاقی کابینہ انتخابات سے قبل پی آئی اے کے کلیدی آپریشنز کی فروخت کے لیے لین دین کے حقیقی ماڈل کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے جو آئندہ ہفتے دی جا سکتی ہے۔ چند تجارتی بینکوں نے اتفاق کرلیا ہے کہ وہ اربوں روپے کے قرض کی ری پروفائلنگ 10 برس کے لیے 12 فیصد شرح سود سے روایتی اور اسلامی فنڈنگ کے ذریعے کریں گے جبکہ باقی ماندہ واجبات کا مسئلہ پی آئی اے کی نجکاری اور بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم کے ذریعے حل کیا جائے گا، تاہم اِس حوالے سے بینکوں نے تاحال تحریری رضامندی نہیں دی ہے۔ نجکاری کمیشن کے نگران وزیر نے دریافت کیے جانے پر بتایا کہ اِس کی تجویز مالیاتی مشیر نے دی تھی۔ ایس آئی ایف سی نے پی آئی اے کی مالیت کے تعین کے لیے ’’موزوں اوسط‘‘ کے طریقہ کار کی منظوری بھی دے دی ہے تاکہ اِس کی مالیت طے کی جا سکے۔ قومی ائرلائن کی نج کاری کے مذکورہ منصوبے کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری بھی حاصل کی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت تمام واجبات اپنے کھاتوں میں شامل نہیں کرے گی بلکہ ایک کمپنی کو منتقل کردیے جائیں گے جو اثاثوں کی فروخت کے ساتھ ساتھ ادا کیے جائیں گے۔ بیرون ملک اثاثے بشمول روزویلٹ اور پیرس کے ہوٹل کو فروخت نہیں کیا جائے گا بلکہ اِنہیں بہتر کیا جائے گا، انہیں اِس مذکورہ منصوبے کے تحت واجبات منتقل کیے جانے والی کمپنی کو دے دیا جائے گا۔ نجکاری کمیشن 55 فیصد شیئر فروخت کرنے کی تجویز دے رہا ہے جبکہ باقی شیئرز اپنے پاس رکھے جائیں گے جنہیں ادارہ بہتر ہونے کے بعد بیچا جائے گا۔ دوسری جانب نجکاری کمیشن نے بین الاقوامی شہرت کی حامل سرمایہ کاری مینجمنٹ کمپنی (جے ایل ایل) کی سربراہی میں قائم کنسورشیم کے ساتھ روزویلٹ ہوٹل کی مشترکہ ڈویلپمنٹ کے حوالے سے مالیاتی مشاورتی خدمات کے ایک معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں جس کے تحت دنیا کے مالیاتی دارالحکومت کے مرکز میں واقع تاریخی روز ویلٹ ہوٹل کو جدید ترین ترقیاتی خصوصیات اور معیارات کے ساتھ تیار کیا جائے گا۔
ایک اور خبر کے مطابق نگران حکومت نے لاکھوںخوردہ فروشوں کو ٹیکس دائرے میں لانے کے لیے ایک آسان اسکیم کو حتمی شکل دے دی ہے جس کا اعلان کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے۔ ایف بی آر کے ذیلی ادارے پاکستان ریونیو اتھارٹی لمیٹڈ نے ایک موبائل ایپ ’’تاجر دوست‘‘ تیار کی ہے جس میں ایف بی آر سے رجسٹرڈ تاجر پہلے سے موجود ہوں گے جبکہ باقیوں کے لیے رجسٹر کرانا لازم ہوگا۔ یہ ایپ خودبخود ماہانہ ٹیکس کی ادائیگی کا حساب لگائے گی، ریکارڈ رکھے گی اور دکاندار کو ادائیگی کرنے میں سہولت فراہم کرے گی۔ اِس ایپ میں اُن تمام دکانداروں کو شامل کیا جائے گا جو خدمات یا سامان وغیرہ فراہم کرتے ہیں۔ ایف بی آر آن لائن ریٹیلرز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے پر غور کررہا ہے۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تمام تر کوششیں ناکام رہی ہیں۔ ریٹیل سیکٹر ملک کی مجموعی معاشی آمدنی (جی ڈی پی) میں تقریباً 20 فی صد کا حصہ ڈالتا ہے لیکن اِس شعبے سے ٹیکس جمع کرنے کی شرح تاریخی طور پر انتہائی کم رہی ہے، یہ ملک میں معیشت کا تیسرا بڑا شعبہ ہے جہاں افرادی قوت کے تقریباً 15 فیصد افراد کو روزگار ملا ہوا ہے لیکن حکومت کوئی بھی ہو، اِس شعبے سے وابستہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ہمیشہ ناکام ہی رہی ہے۔ ملک میں اِس وقت زیادہ ترغیر رجسٹر تاجر ہیں جو براہِ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 22-2021ء میں ریٹیل سیکٹر سے صرف 6 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا تھا، جبکہ 2022ء میں لگ بھگ 42 ارب روپے کی آمدن اکٹھی کرنے کے لیے جب حکومت نے ریٹیل سیکٹر کے طاقتور تاجروں پر فکس ٹیکس عائد کیا تو اسے تسلیم نہیں کیا گیا، بالآخر شدید احتجاج اور ہڑتالوں کی دھمکیوں کے بعد اِسے واپس لینے کا اعلان کردیا گیا۔ دوسری جانب یہ ٹیکس بجلی کے بلوں میں شامل کرکے وصول کرنے کی کوشش کی گئی تو بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ نگران حکومت ایپ تو بنا جائے گی لیکن اِسے استعمال کرنا آنے والی حکومت کے اختیار میں ہوگا۔ نگران حکومت تو ایف بی آر کی تشکیلِ نو اور اس میں اصلاحات بھی کرنا چاہتی تھی اور نگران کابینہ نے اِس کی منظوری بھی دے دی تھی لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگران وفاقی حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا تھا کیونکہ اُس کے نزدیک ایف بی آر میں اصلاحات نگران حکومت کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کہ اِن اصلاحات پر آنے والی حکومت غور کرے اور اُن سے مستفید ہو۔
ملک میں عام انتخابات کے لیے عبوری نگران سیٹ اپ تشکیل پایا تو اسے بروقت آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے علاوہ ملک کی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے چیلنج کا بھی سامنا کرنا پڑا، چونکہ سبک دوش ہونے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ تین ارب ڈالر کے عبوری بیل آئوٹ پیکیج کا معاہدہ کرتے وقت اس کی لاگو کردہ تمام شرائط من و عن پوری کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا جو پورا کرنے کی ذمہ داری بہرحال عبوری حکومت کے کندھے پر آئی۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر سر جھکا کر عمل درآمد کرتے ہوئے اتحادیوں کی حکومت نے تو عوام پر آئے روز مہنگائی کے جھکڑ چلا کر اور بجلی، تیل، گیس اور ادویہ کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کردیا تھا جس کے باعث حکمران اتحادی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کو عوامی غیظ و غضب کا بھی سامنا تھا، اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط کی موجودگی میں عوام کو مہنگائی میں ریلیف دینا عبوری نگران حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ اب یہ نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا، آئی ایم ایف کی شرائط کا ڈنڈا بھی سر پر رہے گا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ایک جانب تو حکمرانوں کو مختلف مدات میں عوام کو ریلیف دینے کی تلقین کی جاتی ہے اور دوسری جانب انہیں ٹیکسز بڑھانے، نئے ٹیکس لگانے اور ریونیو کے اہداف ہر صورت پورا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع بے چارے عوام ہی مسلسل رگڑے کھا رہے ہیں اور انہیں اس معاملے میں نئے حکمرانوں کی جانب سے بھی اپنے اچھے مستقبل کے لیے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی، کیونکہ نومنتخب حکومت بھی آئی ایم ایف کی لاگو کردہ شرائط پر من و عن عمل درآمد کی پہلے ہی پابند بنائی جا چکی ہے۔