وطنِ عزیز پر فی الوقت نگران حکمران ہیں، جن کی بنیادی اور اوّلین ذمہ داریوں میں انتخابات کا انعقاد اور ایک منتخب حکومت کے معاملات کی باگ ڈور سنبھالنے تک مملکت کے روزمرہ امور کی نگرانی کرنا اور صاف، شفاف، آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور سب کے لیے قابلِ اعتماد انتخابات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے، مگر افسوس کہ موجودہ نگران حکمران اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے اوّل روز سے نہ صرف متنازع چلے آرہے ہیں بلکہ ان کا عملی کردار بھی آئینی دائرۂ کار سے ماورا ہے اور یہ خود کو اپنے آئینی و قانونی دائرۂ کار تک محدود رکھنے کے بجائے اپنی حدود سے تجاوز کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ ابھی چند روز قبل نگران وفاقی کابینہ کا اجلاس نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں دیگر بہت سے معاملات کے علاوہ وزارتِ قومی صحت کی سفارش پر ایک دو نہیں بلکہ 146 ادویہ کی قیمتیں بڑھانے کی منظوری دی گئی۔ ان ادویہ سے متعلق بتایا گیا ہے کہ یہ مریضوں کے لیے ناگزیر ہیں اور ان کا شمار جان بچانے والی ادویہ میں ہوتا ہے۔ عوام کے لیے اس جان لیوا اقدام کی منظوری کے ساتھ ہی جناب نگران وزیراعظم کا یہ مضحکہ خیز ارشاد بھی سامنے آیا ہے کہ ہم عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ اس مرحلے پر جنابِ وزیراعظم سے اس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ ؎
’’ہم پہ یہ احساں جو نہ کرتے تو احساں ہوتا‘‘
نگران حکومت کا یہ پہلا عوام دشمن اقدام نہیں ہے بلکہ جب سے اس کا ورودِ مسعود ہوا ہے اسی قسم کے کام اس سے سرزد ہورہے ہیں، جن کی توقع بہرحال ایک نگران حکومت سے نہیں کی جاتی۔ جان بچانے والی ناگزیر ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے اس ظالمانہ اقدام سے محض دو روز قبل وفاقی وزارتِ خزانہ نے یکم فروری سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کرتے ہوئے پیٹرول کی قیمت میں یک مشت 13 روپے 55 پیسے فی لیٹر، جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں 2 روپے 75 پیسے فی لیٹر اضافہ کردیا ہے۔ ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کے لیے تو عالمی منڈی میں دوائوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی مہنگائی کا بہانہ تراشا گیا ہے مگر پیٹرولیم مصنوعات کے معاملے میں ایسی صورتِ حال بھی درپیش نہیں تھی، اس لیے پیٹرولیم مصنوعات کی گرانی کو حکومتی سطح پر ناجائز منافع خوری کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا، مگر نگران وزیراعظم اس کے باوجود عوام کو سہولت دینے کے دعوے کررہے ہیں جن کی منظق سمجھ سے بالاتر ہے۔ ادھر نیپرا نے بھی ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق عوام کو کند چھری سے ذبح کرنے کا حکم سنایا ہے اور بجلی کے نرخوں میں 5 روپے 62 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری دے دی ہے جس کے نتیجے میں عوام پر 49 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ عملی صورتِ حال اس ضمن میں نہایت تکلیف دہ ہے کہ اس قدر گراں ہونے کے باوجود عام آدمی کو بجلی تو دستیاب نہیں ہوتی اور سردی کے کم ترین استعمال کے حالیہ دنوں میں بھی لوگوں کو گھنٹوں لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتنا پڑتا ہے مگر بھاری بل ہر ماہ بھجوا دیے جاتے ہیں۔ ان ناقابلِ برداشت بلوں کے خلاف چند ماہ قبل شدید عوامی احتجاج بھی دیکھنے میں آیا اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی اپیل پر عوام نے ملک بھر میں مکمل اور فقیدالمثال ہڑتال کرکے حکومتی پالیسیوں کے خلاف اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا، جس کے بعد نگران وزیراعظم نے بلوں میں کمی اور سہولت کے وعدے بھی کیے، مگر جونہی عوام کا احتجاج سرد ہوا، یہ تمام وعدے اور ارادے نگران حکمرانوں نے فراموش کردیے۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوگئی بلکہ ایک اور حکومتی ادارے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے عوام دشمنی میں دیگر حکومتی اداروں سے پیچھے رہنے سے انکار کرتے ہوئے ایل پی جی کی قیمت میں اضافے کا حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ حکومتی پالیسی کا معاملہ ’’کچھ نہ سمجھے، خدا کرے کوئی‘‘ سے مختلف نہیں۔ نگران حکمران بغل میں چھری چھپائے، منہ سے رام رام کرتے سنائی دیتے ہیں۔ حکومتی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی طرف سے توانائی کے شعبے کے ایک کھرب 27 ارب روپے کے غیر ادا شدہ قرض کی ادائیگی کا ایک منصوبہ عالمی ساہوکار بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ ماہرین کی رائے میں اس گردشی قرض کا بوجھ اگر عوام کو منتقل کیا گیا تو بجلی کی قیمت 24 روپے فی یونٹ کی موجودہ قیمت سے بڑھ کر 66 روپے فی یونٹ تک پہنچ جائے گی، جب کہ بجلی بلوں پر وصول کیے جانے والے ٹیکسوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوجائے گا۔ اسی طرح گیس کی قیمت بھی 5800 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو بڑھانا پڑے گی جو گیس کی موجودہ قیمتوں سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی غلام موجودہ نگران حکومت کے اقدامات عوام کو مہنگائی کی کس گہری کھائی میں گرا دیں گے، جب کہ غربت اور بے روزگاری کے ستائے لوگ پہلے ہی زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگے ہیں اور مہنگائی سے تنگ لوگوں کی بیوی بچوں سمیت خودکشی کی خبریں آئے روز ذرائع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں۔ ان حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ حکومت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو اوپر سے نیچے تک فعال کرے، ناجائز منافع خوری کی روش خود بھی ترک کرے اور نجی شعبے میں بھی اس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات بروئے کار لائے۔ اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائیاں تیز اور نتیجہ خیز بنائی جائیں، حکومتی سطح پر سادگی اور بچت کو رواج دیا جائے، اشرافیہ کی مراعات ختم کرکے انہیں اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے اور دستیاب ملکی وسائل کے اندر گزر بسر پر آمادہ کیا جائے۔ عوام اور ملکی صنعتوں کو سستی توانائی فراہم کی جائے تاکہ عوام کو روزگار بھی ملے، ملکی برآمدات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ممکن ہوسکے۔ اگرنگران حکومت عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تو بہتر ہے کہ انہیں ایسی اذیت ناک صورتِ حال سے بھی دوچار نہ کرے کہ وہ حکومت اور اشرافیہ کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور ریاست سے بھی بیزار اور ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)