تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کردیا ہے، مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو، تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پائو گے جو کسی اصول اور کسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو، کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو، اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کردینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اور بڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جائو گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا، ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جائو گے، اور تم سے کسی مقصد اور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے، اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اور کسی سختی، کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔
(ترجمان القرآن، صفر 1355ھ۔ اپریل 1936ء)