ہم تو چلے سسرال

آج کی بات شروع کرنے سے پہلے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے چلیں۔ اپنے پچھلے کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ ’نو‘ فارسی کا ہے۔ کالم پڑھ کر نَوی ممبئی (بھارت) سے تعلق رکھنے والے مشہور ماہر لسانیات محترم نادر خان سرگروہ نے اپنے ایک صوتی پیغام کے ذریعے سے مطلع کیا:

’’لفظ ’نو‘ اصلاً سنسکرت ہے اور یہ فارسی اور سنسکرت دونوں میں مشترک ہے، جیسے بیشتر الفاظ مشترک ہیں۔ نو کے معنیٰ ہیں نیا، نُتن۔ اسی سے ’نوورش‘ نیا سال اور ’نوبھارت‘ نیا بھارت وغیرہ بنے ہیں۔ ایسی کئی تراکیب ملتی ہیں ہندی میں، جو ہم نے پڑھی ہیں اور برتی ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ نے اسے فارسی اور سنسکرت دونوں لکھا ہے، نوراللغات نے دونوں ’نو‘ درج کیے ہیں، نمبر’ نو‘ اور’نو‘۔ نیا، نُتن، نویں اور کئی مرادفات یا مترادفات ہیں ’نو‘ کے۔ اس کے معنیٰ ہیں نیا۔ ’نو‘ کا سنسکرت میں تلفظ ہے نَوَ (نَ وَ)اسے ہم اُردو میں لکھ نہیں سکتے۔ اگر لکھنا ہو تو الف لگانا ہوگا۔ لیکن پڑھنے میں لوگ غلطی کرسکتے ہیں، اسے ’نوا‘ پڑھ سکتے ہیں‘‘۔

گویا ’نوبیاہتا‘ بھی خالص ہندی ترکیب ہے۔ نئے یا نیا کے لیے ہندی میں ’نوا‘ کا تلفظ بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ ’نوا کُرتا‘ یا ’نوی قمیص‘ کی ترکیب کہانیوں اور افسانوں میں بکثرت ملتی ہے۔ ہم اب تک ’نیا‘ اور ’نوا‘ کو ہندی میں فارسی ’نو‘ کا متبادل سمجھتے رہے۔ اب معلوم ہوا کہ بنیادی لفظ نَوَ ہے، جو سنسکرت سے آیا ہے اور یہیں سے فارسی میں گیا ہے۔ پنجابی زبان میں بھی ’نوا‘ یا ’نواں‘ کہنا عام ہے۔ مثلاً لسانیات کے اس طالب علم سے جب بھی لاعلمی کی کوئی حرکت سرزد ہو تو برادر نادر خان سرگروہ ہم سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ

’’نواں آیا اے سوہنیا؟‘‘

جناب نادر خان سرگروہ نے مزید بتایا ’’مراٹھی زبان میں سنسکرت کا ’نو‘ مستعمل ہے۔ جیسے ’نونِرمان‘ یعنی نئی تعمیر۔ اسی نو سے مشتق ’نوا‘ (مذکر) اور ’نوی‘ (مؤنث) ہیں، مزید مشتقات نَوین، نُتَن اور نویَہ ہیں۔ نوا گھر، نوین گھر (نیا گھر)، نوی ممبئی (New Mumbai)‘‘

نوی ممبئی کی طرح ہمارے کراچی کا بھی ایک بہت وسیع علاقہ ’نئی کراچی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو کراچی کے پرانے محلّوں کے ناموں سے بھی تعمیرِنو ہورہی ہے۔ چناں چہ ناظم آباد اور شمالی ناظم آباد کے خوب اچھی طرح آباد ہوجانے کے بعد، کراچی والوں نے بلوچستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ’نیا ناظم آباد‘ بھی آباد کرنا شروع کردیا ہے۔

کراچی اپنی سرحدیں پار کرتا جا رہا ہے۔ سنسکرت سے فارسی میں جانے والا ’نَوَ‘ بھی شاید ایران توران کی سرحدیں پار کرکے یورپ کی حدود میں جا پہنچا۔ عین ممکن ہے کہ کسی روز محققین ہمیں مطلع کریں کہ ‘New’ یا ‘Neo’ اور ‘Novus’بھی سنسکرت ہی کے نَوَ کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ ایسی کئی صورتیں دیگریورپی زبانوں میں بھی نظر آتی ہیں مثلاً روسی زبان اور مثلاً جرمن زبان میں۔

بہرحال ہم برادرنادر خان سرگروہ کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری لاعلمی سے فائدہ اُٹھاکر ہمیں فائدہ پہنچایا اور ’نُتن‘ معلومات فراہم کیں۔ امید ہے کہ وہ آیندہ بھی ہماری نت نئی غلطیوں سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی نوا سبق سکھاتے رہیں گے۔

آئیے اب کچھ آج کی بات ہوجائے۔آج کی بات یہ کہ لیاری کراچی کے محترم عدنان کریمی صاحب اچھی خاصی بیاہتا زندگی گزار دینے کے بعد بھی اب تک اسی دھن میں سرگشتہ و درماندہ پھر رہے ہیں کہ

’’لفظ سسرال مذکر ہے یا مؤنث؟ نوراللغات لکھنؤ کی نمائندہ ہے، اس میں مؤنث اور فرہنگِ آصفیہ دہلی کی نمائندہ ہے، اس میں مذکر ہے۔ حضرت دریا بادیؒ نے اپنی آپ بیتی میں سسرال کو مؤنث استعمال کیا ہے‘‘۔

حضرت عبدالماجد دریابادیؒ بھی تو لکھنؤ ہی کے تھے۔ اُن کی سسرال کیسے مذکر ہوسکتی ہے؟ مؤنث ہی ہوگی۔ اب رہا یہ معاملہ کہ دلی والوں کا سسرال مذکر ہوتا ہے، تو اس قضیے کا حل مرزا اسد اللہ خان غالبؔ دہلوی سے معلوم کیے لیتے ہیں۔ دہلی میں رتھ کو بعض لوگ مؤنث اور بعض مذکر بولتے تھے۔ کسی نے مرزا سے پوچھا:

’’حضرت رتھ مؤنث ہے یا مذکر؟‘‘

حضرت نے جواب دیا:

’’بھیا! جب رتھ میں عورتیں بیٹھی ہوں تو مؤنث کہو اور جب مرد بیٹھے ہوں تو مذکر سمجھو‘‘۔

مگر یہاں قاعدہ اُلٹ جائے گا۔ عورتوں کا سسرال مذکر ہوگا اور مردوں کی سسرال مؤنث۔ خیر، سسرال کو آپ مؤنث قرار دیں یا مذکر گردانیں… یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کہہ… مگر عورتوں کا میکا لکھنؤ اور دلی دونوں جگہ مذکر ہے، مذکر تھا اور مذکر رہے گا۔ شاید ایسے ہی موقعے پر کہا جاتا ہے کہ ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔

اردو میں بہت سے ایسے الفاظ ہیں جن کی تذکیر اور تانیث میں اہلِ زبان کے اندر اختلاف پایا جاتا ہے۔ سسرال کو ہمارے تمدن میں ویسے بھی اختلافات کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر سسرال کی تذکیر و تانیث میں اختلاف پایا جاتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

سسرال یوں تو خاوند یا بیوی کے گھر اور خاندان کو کہتے ہیں، مگر مجازاً یا کنایتاً جیل اور قید خانے کو بھی سسرال کہا جاتا ہے۔کوئی کسی وجہ سے اندر ہوجائے تو اشارتاً بتایا جاتا ہے کہ’’سسرال گئے ہیں‘‘۔

اگر کوئی شخص مفرور ہو یا غائب ہوجائے تب بھی یہی کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ سیاسی رہنما بھی ایسے گزرے ہیں جو اپنی حقیقی سسرال کے سبب مجازی سسرال جا پہنچے، یہ کہتے ہوئے کہ

’’ہم تو چلے سسرال!‘‘

برصغیر میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اگر کوئی داماد اپنی سسرال میں ڈیرے ڈال دے اور سسر کی روٹیوں پر پلتا رہے۔ ایسے شخص کے لیے اُردو میں بہت برا محاورہ ہے۔ اسے ’’سسرال کا کتا‘‘ کہا جاتا ہے۔ جانؔ صاحب کہتے ہیں:

برفی خانم بھونک کر خالی نہ کر اپنا دماغ
بے ادب لڑکا تھا کتا بن گیا سسرال کا

سسرال ساس یا سسر سے بنتی (یا بنتا) ہے۔ جب تک ساس ہے تب تک آس ہے۔محاورہ پوچھتا ہے: ’’ساس بِن کیسی سسرال؟‘‘ ساس کو ’خوش دامن‘ بھی کہا جاتا ہے، نہ جانے کس خوشی میں یا کس خوش فہمی میں۔مگر سسر بے چارا خسرکے سوا کوئی خوش کن نام نہ پا سکا۔ ایران کے جو بادشاہ ’خسرو‘ کہلاتے تھے، وہ خسرو کیوں کہلاتے تھے، یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ دیکھیے خسروانِ لسان کیا فیصلہ کرتے ہیں۔البتہ ’سالا‘ جو ہمارے ہاں گالی بلکہ ’گالا‘ بن گیا ہے، ایران میں ’خسر پورہ‘ کہلاتا ہے یعنی خسر کا پوت۔مراد یہ کہ ’ایں ہم بچۂ شتر است‘ (یہ بھی اونٹ کا بچہ ہے)۔ قصہ مشہور ہے کہ ایک جنگل میں اونٹ پکڑے جا رہے تھے۔ایک لومڑی نے یہ ماجرا سنا تو بد حواس ہو کر بھاگنے لگی۔ اُسے بھاگتے دیکھ کر ایک بندر نے پوچھا :

’’خالہ! تم کیوں بھاگ رہی ہو؟ ‘‘

لومڑی بولی : ’’میرے بھانجے! مجھے ڈر ہے کہ کہیں اونٹ پکڑنے والے مجھے بھی یہ کہہ کر نہ پکڑ لیں کہ ایں ہم بچۂ شتر است‘‘۔
گویا اہلِ فارس بھی ’سالے‘ کو یہ کہہ کر دوڑاتے پھرتے ہیں کہ’ ایں ہم بچۂ خسر است‘۔