اسپین۔ اقبال کا دوسرا خواب

حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے 1932ء میں لندن گئے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے اسپین کے شہر قرطبہ میں قیام کیا۔ ویسے تو مسجدِ قرطبہ میں اذان اور نماز پر پابندی تھی لیکن اقبالؒ نے اسپین کی حکومتِ وقت سے اجازت لے کر مسجد میں اذان دی اور نماز بھی ادا کی۔ قرطبہ میں قیام کے دوران ہی اقبال نے اپنی شاہکار نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ لکھی۔

علامہ محمد اقبالؒ کی ایسی بہت سی مشہور نظمیں ہیں جن میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کا موازنہ عصرِ حاضر کی زبوں حالی سے کیا گیا ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا شمار بھی ایسی ہی موضوعاتی نظموں میں ہوتا ہے، جس کے بارے میں ماہرینِ اقبالیات کا یہ کہنا ہے کہ اگر اقبال کچھ اور نہ لکھتے اور صرف یہی ایک نظم لکھتے، تب بھی وہ اردو کے اتنے ہی بڑے شاعر ہوتے۔

اسپین میں مسلمانوں کے شاندار ماضی کو چشمِ تصور سے دیکھ کر اور یہاں مسجدِ قرطبہ کی ویرانی کے حالیہ منظر سے اقبال رنجیدہ خاطر ہوئے، لیکن ان مسلمانوں کے اعلیٰ کردار اور جذبۂ جہاد کی دل کھول کر داد دی جنھوں نے انتہائی قربانیاں دے کر اس سرزمین پرخلافتِ اسلامی کے قیام کو ممکن بنایا۔ اقبال نے مسجدِ قرطبہ کو دیکھ کر عالمِ اسلام کو اس کے پُرشکوہ اور شاندار ماضی کی یاد دلائی۔ اس نظم میں اقبال نے یورپی اقوام کو عام طور پر اور اندلسیوں کو خاص طور پر مخاطب کیا۔ جبرو استبدادکے مذہبی اور سیاسی نظاموں کے خلاف بے ثمر انقلابات، تحاریک اور طویل جنگوں سے تنگ اقوام کو اسلام کے مکمل اور ہمہ گیر نظام کو قبول کرنے کی ترغیب دی۔

اقبال شناس ڈاکٹر عابد شیروانی کی پیش نظر یہ کتاب علامہ اقبال کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ کی ایک مفصل علمی اور تحقیقی نوعیت کی شرح ہے۔ اس شرح میں ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آمد تا سقوطِ غرناطہ (1492ء) کی ایک مختصر تاریخ بھی ملتی ہے۔ فاضل شارح نے اقبال کے اس تخلیقی تجربے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جو مسجدِ قرطبہ کی نظم کی صورت میں منتج ہوا۔ انھوں نے اس تجربے کے جمالیاتی، تہذیبی، ادبی، روحانی، لسانی، سیاسی اور شاعرانہ پہلوئوں پر بھی بات کی ہے۔ شیروانی صاحب کی وقیع تحقیق اور دقیق مطالعۂ تاریخ نے نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کی تشریح اور تفہیم کو آسان اور بامقصد بنادیا ہے۔ مزید برآں صاحبِ کتاب نے ہر اُس مشکل لفظ، تلمیح اور پس منظر کو بہت مفصل لیکن جامع انداز میں موجودہ عصری تقاضوں کے مطابق اپنے قاری کو سمجھایا ہے جو کہ اقبال کی اس بظاہر مشکل نظم کے لیے ضروری تھا۔