دوسری قسط
ہمارے دادا جان کا نام فتح علی، بعض روایات کے مطابق ان کے بزرگوں نے سلطان ٹیپو شہید کے نام پر رکھا تھا۔ سلطان ٹیپو کا اصلی نام فتح علی اور ان کے والد کا نام سلطان حیدر علی تھا۔ دادا جان کے دور میں انگریز سرکار نمبرداروں، ذیلداروں اور دیگر اہم لوگوں کو کچھ مراعات بھی دیتی تھی اور ان سے کارِ سرکار میں ہر طرح کا روا و ناروا تعاون بھی مانگتی تھی۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی سامراج نے فوج میں نوجوانوں کی بھرتی کے لیے ان دیہاتی منصب داروں کی ذمہ داریاں لگادیں کہ اپنے گائوں اور علاقے کی عوامی آبادی کے تناسب سے خاص تعداد میں جوانوں کو ساتھ لے کر بھرتی مراکز پر حاضری دیں۔ دادا جان نے اس حکم کو نظرانداز کردیا۔ علاقے کے کئی ’’سرکاری وفادار‘‘ معززین نے کہا کہ اس طرزِعمل کے نتیجے میں آپ پر کوئی افتاد پڑ سکتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے کوئی پروا نہیں، میں انگریزوں کا پٹھو نہیں بن سکتا۔ اللہ نے مرحوم کی ہمیشہ حفاظت فرمائی اور کبھی ان پر سرکار کی طرف سے کوئی افتاد نہ پڑی۔ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَّہُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن۔
دادا جان کے بھائی میاں محمد مرحوم کے بیٹے میاں محمد علی انتہائی سادہ لوح انسان تھے۔ ان کی سادہ لوحی سے کئی مفاد پرست لوگ ناجائز فائدہ اٹھانے کی حرکات بھی کرتے جس کا تدارک ہمیشہ مرحوم کو کرنا پڑا۔ بعد میں ہمارے تایا جان اور والد صاحب کو بھی ان معاملات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب موصوف کے بڑے بیٹے میاں شیر علی جوان ہوگئے تو پھر امن و سکون ہوا۔ اسی موقع پر دادا جان نے نمبرداری بھی حافظ شیر علی صاحب کے سپرد کردی کیوں کہ اصل میں ان کے دادا میاں محمد مرحوم ہی بڑے ہونے کی وجہ سے نمبردار تھے۔ دادا جان نے تو یہ ذمہ داری امانت کے طور پر اٹھائی تھی کیوںکہ میاں محمد علی میں صلاحیت نہیں تھی۔ ان کے تمام ذاتی معاملات کو بھی دادا جان خود دیکھتے اور چلاتے تھے۔ ان کے بچوں سے دادا جان اپنے پوتے پوتیوں ہی کی طرح محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔ میاں محمد کے بڑے پوتے شیر علی بھی آپ کی نگرانی اور سرپرستی میں قرآن پاک حفظ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ایسے عظیم حافظ بنے کہ دور دور تک ان کی شہرت پھیلی۔ حافظ شیر علی ہمارے والد صاحب کے بھتیجے لگتے تھے، مگر دونوں کی عمر میں پانچ چھ سال کا فرق تھا۔
دادا جان اب اپنے پوتوں میں سے سب کو حفظ کرانا چاہتے تھے، مگر اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ ان کے چھ پوتوں (میرے تایا زاد چار بھائی پروفیسر عثمان غنی مرحوم، جو مجھ سے نو دس سال بڑے تھے، پھر میں، اس کے بعد دوسرے تایا زاد برادرم کرنل محی الدین نعمان، مجھ سے چند ماہ چھوٹے اور ان سے دو سال چھوٹے میاں محمد سلیمان مرحوم، پھر ان سے چار سال چھوٹے میرے بھائی میاں محمد یوسف (بی اے)، اور سب سے آخر میں پروفیسر محی الدین ابوبکر، جو یوسف میاں سے چند سال چھوٹے ہیں،) میں سے یہ شرف صرف مجھے حاصل ہوا۔ اس میں میری کوئی خوبی یا قابلیت نہیں۔ یہ محض اللہ کا خصوصی احسان اور بزرگوں کی مخلصانہ دعائوں کا انعام ہے۔
قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دو سال مسلسل رمضان المبارک میں اپنی مسجد میں تراویح پڑھانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس کے بعد کچھ سالوں کے وقفے رہے۔ پھر جب کالج اور یونیورسٹی میں پہنچا تو تراویح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ زندگی میں تقریباً پینتالیس مرتبہ اللہ نے یہ توفیق دی۔ اس میں ایک سال ساہیوال جیل میں بھی تراویح میں قرآن مکمل کیا۔ یہ 1970ء کی بات ہے۔ اس سے قبل پہلی مرتبہ 1966ء میں اعلانِ تاشقند پر احتجاجی مظاہرے کے دوران گرفتاری ہوئی تو یہ بھی ماہ جنوری میں رمضان المبارک تھا۔کیمپ جیل لاہور میں تقریباً بارہ دن گزرے جس کے بعد عید سے ایک روز قبل ہماری ضمانتیں ہوگئیںاور جیل سے باہر آگئے۔ بارہ دنوں میں قرآن پاک کا کچھ حصہ تراویح میں تلاوت کرنے کا موقع ملا۔ سب دوستوں نے بہت پسند کیا۔ تراویح کے بعد قرآن کے تلاوت شدہ حصوں کا خلاصہ پیش کرنے کا عمل بھی سالہاسال جاری رہا۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے کہیں آجائے گی۔
میرے والد صاحب بہت ذہین طالب علم اور اس کے ساتھ بہترین گھڑسوار تھے۔ آپ کی اولاد میں ذہانت تو بہت منتقل ہوئی مگر کوئی معروف گھڑ سوار نہ ہوسکا۔ والد صاحب کی طبیعت عجیب و غریب تھی۔ غربا و مساکین، حاجت مندوں اور مستحقین کے ساتھ حد سے زیادہ شفیق اور ان کے ہر سوال پر ہمیشہ مدد کے لیے تیار، مگر گائوں یا اردگرد میں کبھی کوئی بدمعاشی کرنے والا نظر آتا تو سراپا قہر بن جاتے، یوں لگتا جیسے یہ کوئی اور شخصیت ہے۔ گھر میں ہمارے لیے کھانے پینے کی ہر چیز کھلی مقدار میں میسر ہوتی تھی۔ دودھ، مکھن، لسّی اور گھی اتنے وافر ہوتے تھے کہ جی بھر کر کھاتے پیتے تھے۔ دودھ اور لسّی تو گائوں کے کئی محتاج لوگ بھی ہمارے گھر سے مفت لے جایا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں دودھ بیچنے کا تصور تک ہمارے خاندان میں نہ تھا۔ البتہ دودھ سے تیار ہونے والا گھی بیچا جاتا تھا۔ خاص بیوپاری قریبی شہروں سے آتے اور ہمارے کئی گھروں سے ٹینوں کے ٹین خرید کر لے جاتے۔
عجیب بات یہ تھی کہ بچپن کے اس دور میں والد صاحب ہم سے بے تکلف نہیں ہوتے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کے نزدیک بچوں کی تربیت کا یہ بھی ایک انداز ہے۔ جوں جوں ہم بڑے ہوتے گئے، والد صاحب کے رویّے میں تبدیلی آتی گئی۔ بعد میں تو آپ بے تکلفی اور دوستی کا مجسمہ بن گئے۔ مرحوم والد صاحب ہم میں سے بچپن میں چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف سے کسی حد تک نرمی اور دوستی کا رویہ رکھتے تھے۔ ہم کُل آٹھ بہن بھائی تھے۔ سب سے بڑی ہمشیرہ تھیں جن کا انتقال 2019ء میں ہوا (مرحومہ کے حالات میری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ہشتم میں شامل ہیں)، ان کے بعد ایک بھائی تھا (سلمان) جو بچپن میں فوت ہوگیا، پھر ہمشیرہ (زبیدہ اُولیٰ) تھیں، وہ بھی بچپن میں فوت ہوگئیں۔ ان کی وفات کے بعد اللہ نے مجھے دنیا میں بھیجا۔ دو بہن بھائیوں کی بچپن میں یکے بعد دیگرے وفات کے سبب میرے بارے میں والدین اور بزرگان بڑے فکرمند رہتے تھے۔ بہرحال فیصلے تو اللہ کے ہوتے ہیں۔ بچپن کی بیماریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے صحت اور طویل عمر سے نوازا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس کی توفیق سے جو نیک کام کرسکا انھیں قبول فرمائے اور اپنی کمزوریوں کی وجہ سے جو لاتعداد گناہ سرزد ہوئے انھیں معاف فرما دے۔ میرے بعد دو بہنیں (ام وقاص، زبیدہ ثانیہ اور ام مصعب، فاطمہ مرحومہ جن کے حالات ابھی لکھنے ہیں) تھیں۔ ان کے بعد برادر عزیز میاں محمد یوسف اور آخر میں عزیزہ بہن (ام ذوالنون، زہرہ مرحومہ جن کے حالات ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد نہم میں شامل ہوں گے)۔ میرے سب بہن بھائی اللہ کی خصوصی رحمت سے انتہائی نیک دل، باہمی محبت کرنے والے اور دین اسلام کے سچے پیروکار، تحریکِ اسلامی کے ساتھ بدن و جان وابستہ تھے اور ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ سب کی اولادیں بلااستثنا تحریکِ اسلامی کی امانت اور اس کا سرمایہ ہیں۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
(سورۃ الجمعۃ آیت:4)
بچپن کے واقعات یاد آتے ہیں تو ایک خوب صورت باغ و بہار جیسا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ میری پیدائش کے وقت میری صحت اچھی تھی، مگر چند ماہ کے بعد طبیعت بگڑ گئی۔ مختلف حکما و معالجین سے علاج اور دوا دارو کا سلسلہ جاری رہا۔ پانچ چھ سال کی عمر تک ایسے ہی معاملہ چلتا رہا۔ کبھی صحت، کبھی بیماری۔ اس عرصے میں مجھے جن دوائوں سے پالا پڑا، آج بھی ان کی بدمزگی کا تصور کرکے کانپ اٹھتا ہوں اور ابکائی آنے لگتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کی پھکیاں، گولیاں اور مشروبات! توبہ توبہ! والدہ محترمہ گھریلو ذمہ داریوں، مہمان نوازی اور بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے بہت مصروف رہتی تھیں، چناں چہ اس سارے عرصے میں والدہ محترمہ کی محبت و پیار تو ہر قدم پر شاملِ حال رہا، مگر آپ سے زیادہ میری پھوپھی جان نے میری دیکھ بھال اور تیمارداری کی ذمہ داری نبھائی۔ ان کی اپنی اولاد نہیں تھی اور انھوں نے میری پیدائش کے وقت ہی سے مجھے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ دو سال کی عمر سے میں انھی کے پاس سوتا تھا اور شب و روز انھی کے کمرے میںگزارتا تھا۔
پھوپھی جان کی شادی جوانی میں ہوئی تھی۔ اللہ نے ان کو کوئی اولاد نہیں دی تھی۔ ان کے میاں حافظ جان محمد جو میرے حفظِ قرآن کے استاد بھی تھے، دادا جان کے ماں جائے بھائی حافظ غلام علی مرحوم کے بیٹے تھے، یعنی آپ کے بھتیجے لگتے تھے۔ انھوں نے دوسری اور پھر تیسری شادی کرلی۔ دوسری بیوی سے ان کا ایک بیٹا حافظ عبدالمجید مرحوم تھا اور تیسری سے ماشاء اللہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ تیسرے نکاح کے چند دن بعد موصوف نے دوسری بیوی کو طلاق دے دی اور ہماری پھوپھی جان سے بااصرار کہا وہ انھی کے گھر میں الگ کمرے میں رہائش اختیار کرلیں، مگر انھوں نے نئے حالات دیکھ کر اپنے والدین کے گھر کو ترجیح دی۔ یوں ان کا نکاح تو قائم رہا مگر پھر دوبارہ وہ میاں کے گھر نہیں گئی تھیں۔
دادا جان اپنی اس بیٹی سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ میں حضرت سراقہ بن جعشم بن مالکؓ کے متعلق حضرت علی بن رباح کی روایت کردہ حدیث پڑھتا ہوں، تو دادا جان کا طرزِعمل اس حدیث کی عملی تشریح لگتا ہے۔ حدیث کا متن یوں ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سراقہ بن جعشم ؓ سے فرمایا ’’کیا میں تمھیں سب سے عظیم صدقے کی خبر نہ دوں؟‘‘ انھوں نے کہا ’’کیوں نہیں، اے اللہ کے رسولؐ!‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’تیری وہ بیٹی (جو طلاق کے بعد یا شوہر کی وفات کے بعد یا کسی وجہ سے) واپس آجائے، جس کے لیے تیرے سوا کوئی کمانے والا نہ ہو، جب تُو اس پر خرچ کرے گا تو یہ بہت بڑا صدقہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد، ابن ماجہ)
جب ان کو بلاتے ’’زینب بی بی‘‘ تو آواز میں انتہائی محبت اور شیرینی کا احساس ہوتا تھا۔ گھر کے بیشتر معاملات بالخصوص روپے پیسے کا حساب اور اخراجات انھی کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی خاتون تھیں، مگر اللہ نے ان کو فطری طور پر عقل و دانش سے خوب نوازا تھا۔ دادا ابو اپنے دور میں خوشحال زمیندار تھے۔ گھر میں روپے پیسے کا حساب کتاب اچھی خاصی ذمہ داری تھی۔ پھوپھی جان کا حافظہ بلا کا تھا۔ غلہ کتنا بکا ہے، درخت کتنے فروخت ہوئے ہیں، مال مویشی کتنے بکے اور کتنے خریدے گئے، کس کو کیا دیا ہے، کسی سے کیا لینا ہے اور کیا دینا ہے؟ یہ عجیب اور حیران کن بات ہے کہ بغیر لکھے سب کچھ ذہن میں محفوظ ہوتا تھا۔ گھر میں مرحومہ کی ایک مخصوص الماری تھی جس میں کئی رخنوں میں الگ الگ رقم رکھی جاتی اور وہیں سے خرچ کی جاتی۔
پھوپھی جان کا ایک خاص حلقۂ خواتین تھا۔ اس میں گائوں کی صاحبِ فراست خواتین ہوتی تھیں جن میں سے کئی بیوہ اور مالی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہوتی تھیں۔ آپ ان سب کی ضروریات کے مطابق ان سے مالی تعاون کرتیں۔ ہمارے بزرگ زکوٰۃ اور عشر کا باقاعدہ حساب رکھتے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ میرا خیال ہے کہ پھوپھی جان زکوٰۃ کے مال میں سے ایسا کرتی ہوں گی۔ کئی سوالی خواتین بار بار بھی آتیں تو ان کی مدد کردیتیں۔ اسی طرح کئی خواتین قرض لے جاتیں اور پھر حسبِ وعدہ واپس کرتیں۔ میں چوںکہ پھوپھی جان کے بہت قریب رہتا تھا اس لیے ان سب بزرگ خواتین سے میرے بھی بڑے نیازمندانہ تعلقات تھے اور وہ سب بھی مجھ سے انتہائی شفقت و محبت سے پیش آتی تھیں۔ ان سب کے نام میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ کسی کو پھوپھی، کسی کو خالہ، کسی کو چچی یا ممانی، کسی کو دادی یا نانی کہہ کر ہم بلاتے تھے۔ میرے دادا جان مہینے میں ایک دو مرتبہ اپنی بیوہ بیٹی (نیک بی بی) کے پاس گائوں گکھڑ جایا کرتے تھے۔ مرحوم بہت عظیم شخصیت کے مالک تھے، وہ اپنی بیوہ بیٹی اور تین یتیم نواسیوںکی خبرگیری، ضروریات اور مسائل سے واقفیت اور ان کے حل کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ میں مرحوم کی ایک اور خوبی کا ذیل میں ذکر کررہا ہوں۔
(جاری ہے)