غزہ کی مزاحمت:مسئلہ فلسطین اور عالمی عدالت انصاف کے رہنما اصول

(ساتویں قسط)

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ اسرائیل نے غزہ پر جو بمباری کی اور جو جانی و مالی نقصان پہنچایا اُس نے دشمنوں کے دلوں میں ہیبت ضرور بٹھائی تاہم خود اسرائیلیوں میں زیادہ اعتماد پیدا کیا۔ اب اسرائیلیوں کو یقین ہوگیا کہ اُن کی طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے سے قبل سو بار سوچے گا۔ طاقت کے بے محابا استعمال نے یہ تاثر قائم کردیا کہ اسرائیل لینڈ لارڈ ہے اور فلسطینی اُس کے زیرِ نگیں ہیں۔ تباہی کی تصویروں نے اسرائیلیوں کا مورال بلند کردیا۔ مورال کی اس بلندی کی فلسطینیوں نے بہت بھاری قیمت چُکائی۔

ردِّ جارحیت کے حوالے سے اسرائیل کی پوزیشن بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آپریشن کاسٹ لیڈ نے ایک کام اور کیا، اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کی طرف سے نئے حملوں کا جو خطرہ تھا وہ ٹل گیا۔ یہ خطرہ فلسطینیوں میں پیدا ہونے والی حقیقت پسندی کے باعث تھا۔ فلسطینی قیادت عالمی رائے عامہ سے ہم آہنگ تھی جس کے مطابق اسرائیل نے بہت غلط کیا تھا۔ ایک دنیا اس بات کو تسلیم کررہی تھی کہ اسرائیل نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ صرف اپنی سہولت اور سکون کے لیے کیا ہے۔ عالمی برادری چاہتی تھی کہ اسرائیلی قیادت فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے قیام کا حق تسلیم کرے اور 1967ء کی جنگ سے پہلے کی جغرافیائی پوزیشن دوبارہ قبول کرے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے علاقوں میں واپسی کا بنیادی حق تسلیم کیا جانا چاہیے تھا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل دونوں ہی کا مؤقف یہ رہا ہے کہ فلسطینیوں کو اُن کے آبائی علاقوں میں واپسی کا حق دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ غربِ اردن کے علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ختم کیا جائے۔ دونوں ایوانوں میں قراردادوں کے ذریعے اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ اسرائیلی افواج مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے نکل جائیں اور 1967ء سے پہلے کی پوزیشن پر چلی جائیں۔ یہ دونوں ایوان حقِِ خود ارادی سمیت فلسطینیوں کے تمام حقوق کو تسلیم کرنے پر زور دیتے آئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ قرارداد نمبر 194 کی روشنی میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ مستقل بنیاد پر حل کرکے انہیں ان کے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کا حق دینے پر بھی زور دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کا مسئلہ پائیدار بنیاد پر حل کرنے سے متعلق قرارداد پر رائے شماری کا ریکارڈ کچھ یوں ہے:

1997ء میں حق میں 155 ووٹ آئے` 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 1998ء کی رائے شماری میں 154 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 1999ء میں 149 ارکان نے حق میں ووٹ دیا۔ اسرائیل، امریکہ اور مارشل آئی لینڈز نے مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ 2 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ 2000ء میں 149 ارکان نے حق میں ووٹ دیا۔ امریکہ اور اسرائیل نے مخالفت کی، جبکہ 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ 2001ء میں 131 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 20 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا، نورو اور ٹوالو نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 2002ء میں 160 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، مارشل آئی لینڈز اور مائیکرونیشیا نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ 2003ء میں 160 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 5 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، مارشل آئی لینڈز، پالو، مائیکرونیشیا اور یوگینڈا نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 2004ء میں 161 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 10 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، مارشل آئی لینڈز، آسٹریلیا، گرینیڈا، پالو اور مائیکرونیشیا نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ 2005ء میں 157 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 9 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈز، پالو اور مائیکرونیشیا نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ 2006ء میں 157 ارکان نے حمایت میں ووٹ ڈالا، 10 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا، نورو اور پالو نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 2007ء میں 161 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 5 ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل، آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا، پالو اور نورو نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 2008ء میں 164 ارکان نے حق میں ووٹ دیا، 3 ارکان نے رائے شماری میں حصہ لیا جبکہ اسرائیل، امریکہ، آسٹریلیا، مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا، نورو اور پالو نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

علاقائی سطح پر2002ء میں عرب لیگ نے سربراہ کانفرنس میں اقوام متحدہ کے نقوشِِ قدم پر چلتے ہوئے فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر عرب پیس انیشئیٹو کی منظوری دی۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے تمام 57 ارکان نے بھی ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے فلسطین کا مسئلہ مستقل بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلامی دنیا میں یہ بھی طے پایا کہ فلسطین کا مسئلہ حل کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور عالمی برادری کی بھرپور حمایت کا حصول بھی یقینی بنایا جائے گا۔ 2002ء ہی میں اسرائیل نے مقبوضہ غربِِ اردن کی یہودی بستیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک بڑی دیوار کی تعمیر شروع کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (عالمی عدالتِ انصاف) سے استدعا کی کہ وہ اسرائیل کی طرف سے ایک بڑی دیوار تعمیر کیے جانے کے ممکنہ اثرات کی توضیح کرے۔ 2004ء میں عالمی عدالتِ انصاف نے اپنا وہ فیصلہ سنایا جو تاریخ کے ریکارڈ میں سنہرے حروف میں محفوظ کیے جانے کے قابل ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے دیوار کو سراسر غیر قانونی قرار دیتے ہوئے فلسطین کا مسئلہ پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی خاطر چند راہ نما اصول بھی پیش کیے جن کا مقصد علاقائی سلامتی یقینی بنانا تھا۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اس قضیے کے پورے ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہوئے چند ایسے امور کا بھی تعین کیا جو اس سے قبل بھی متعین کیے گئے تھے تاہم ان پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اس قضیے سے متعلق تمام بین الاقوامی قراردادوں کی روشنی میں قرار دیا کہ کسی بھی نوع کی طاقت کے استعمال سے زیرِ تصرف آنے والی زمین کسی بھی حال میں ملکیت تصور نہیں کی جائے گی اور اس پر کوئی بھی مستقل دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی قرار پایا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین اور دیگر عرب زمینوں پر قائم کی جانے والی یہودی بستیاں کسی بھی حیثیت میں قانونی نہیں۔

عالمی عدالتِ انصاف نے مسئلۂ فلسطین کے تمام پہلوؤں کا جامع جائزہ لینے کے بعد اپنی رولنگ میں کہا کہ اسرائیل نے فلسطینی اور دیگر عرب علاقوں میں یہودیوں کی جو بستیاں قائم کی ہیں وہ مکمل طور پر غیر قانونی ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اقوام متحدہ، عرب لیگ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیموں کا مؤقف بالکل درست قرار دیا۔

عالمی عدالتِ انصاف کے 15 میں سے صرف ایک جج نے عالمی برادری، اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور عرب لیگ کے مؤقف سے مکمل اتفاق نہ کرتے ہوئے خلاف ووٹ دیا۔14 ججوں کا یوں متفقہ رائے دینا کسی حد تک اسرائیل کے معاملے میں تعصب بھی قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ دیا گیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ایلن ڈرشووِز نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اسرائیل سے امتیازی سلوک کہا جائے گا۔ ایک کے سوا کسی بھی جج نے مجموعی طور پر فلسطینیوں کے خلاف جانے کی کوشش نہیں کہ، تاہم چند ججوں نے اپنی نجی رائے میں اسرائیل کو درپیش مسائل بھی تسلیم کیے اور اُس سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ اگر عالمی عدالتِ انصاف کے ججوں نے مل کر تمام حقائق کا جائزہ لیا اور اتفاقِ رائے سے فیصلہ سنایا تو یہ کسی بھی درجے کے امتیاز یا جانب داری کا نتیجہ نہ تھا بلکہ اُنہوں نے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی صورتِ حال کے حوالے سے موجود قوانین اور زمینی حقیقتوں کا پوری غیر جانب داری سے جائزہ لیا اور جو کچھ بھی اسرائیل نے کیا تھا اس کے تجزیے کی بنیاد پر اُن کی کوئی اور رائے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اختلافی نوٹ لکھنے والے واحد جج (امریکہ کے ٹامس بوئرجینتھل) نے بھی خاصی تکلیف محسوس کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اکثریت نے جو کچھ بھی پایا اُس سے مکمل اختلاف کرنا میرے لیے کسی بھی طور ممکن نہ تھا کیونکہ معاملات تھے ہی کچھ ایسے کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انہوں نے جنیوا کنونشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جارح یا متصرف قوت کے لیے جائزنہیں کہ اپنے زیرِ نگیں آنے والے علاقوں کو اپنا حصہ قرار دے، یا وہاں خصوصی بستیاں قائم کرکے اُن میں اپنے باشندوں کو بسائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ غربِ اردن میں یہودیوں کی بستیاں قائم کرنا جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 49 کے چھٹے پیراگراف کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطینیوں کے اُن کے اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کے حق کو تسلیم کرنے کے معاملے میں عالمی برادری اتفاقِ رائے کی منزل میں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 کے تحت اپنے علاقوں سے بے دخل کیے جانے والے تمام فلسطینیوں کو اُن کے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کا حق دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ سلامتی کونسل میں یہ بھی کہا گیا کہ جو فلسطینی اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوکر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مکمل امن کی حالت میں جینا چاہتے ہیں اُنہیں جلد از جلد ان کے گھروں میں دوبارہ آباد کیا جائے، اور جو لوگ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد نہیں ہونا چاہتے اُنہیں اُن کی زمین کا معقول، حقیقی معاوضہ دیا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی حدود میں شامل عرب علاقوں سے نکل جانے والے فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کا حق دے اور جو ایسا نہ کرنا چاہیں انہیں معاوضہ دیا جائے۔ یہ حق اُن فلسطینیوں کی اولاد کے لیے بھی تسلیم کیا جانا چاہیے جو دنیا سے جاچکے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فلسطینی سرزمین اور اسرائیل میں شامل علاقوں سے نکل جانے والے تمام فلسطینیوں اور اُن کی اولادوں پر زور دیا کہ وہ اپنی زمینوں پر واپس آئیں اور آباد ہوں۔

فلسطینیوں کی مشکلات اور اُن کے تمام بنیادی مسائل کے حوالے سے ایک طرف تو عالمی برادری کا مؤقف مکمل اتفاقِ رائے کا حامل رہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے مؤقف کو عالمی برادری کے وقیع اور نمائندہ ترین ادارے کے علاوہ عدالتی امور اور انسانی حقوق کے سب سے بڑے تسلیم شدہ اداروں نے بھی مکمل طور پر غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا معاملہ تو پہلے ہی تسلیم و رضا کا تھا۔ وہ مکمل طور پر عالمی برادری کے ساتھ چل رہی تھی۔ دوسری طرف حماس تھی جس کی منتخب حکومت قبولیت کے چیلنج کا سامنا کررہی تھی۔ 2009ء میں امریکہ نے بھی تسلیم کیا کہ حماس اصلاحات کی طرف مرحلہ وار بڑھ رہی ہے اور اُس نے ایسے واضح اشارے دیے ہیں کہ وہ اسرائیل سے محض بات چیت ہی کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اسرائیلیوں کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی بسر کرنے کو بھی تیار ہے۔ آپریشن کاسٹ لیڈ سے چند ماہ قبل حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بیشتر فلسطینی قوتیں 1967ء کی جغرافیائی حدود کی حامل سرحدوں کی بنیاد پر ریاست کو تسلیم کرتی ہیں۔ اسرائیلی جنگی کارروائی اور اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی تباہی کے بعد بھی حماس نے کہا کہ وہ چاہتی ہے کہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کو دارالحکومت قرار دے کر فلسطینی ریاست قائم کی جائے، اسرائیل 1967ء کی پوزیشن پر واپس جائے اور فلسطینیوں کو اپنی زمینوں پر واپس جانے کا حق دیا جائے۔
(جاری ہے)