ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی عمرِ عزیز کے 84 سال بہت عمدگی اور خوبصورتی سے گزار کر 25 جنوری 2024ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان کی ابتدائی زندگی، علمی و ادبی زندگی اور تصانیف کے بارے میں تو بہت کچھ آچکا ہے اور بہت کچھ آتا رہے گا۔ میں ان سے جڑی کچھ یادوں کا تذکرہ کروں گا۔
ہاشمی صاحب سے ابتدائی تعارف تو اُن کی کتابوں کے ذریعے تھا ہی، لیکن باقاعدہ تعارف غالباً2010ء میں ہوا جب میں نے سوچا کہ ایم اے اردو کیا جائے۔ ہاشمی صاحب سے تعارف عمران ظہور غازی صاحب نے کروایا۔ میں نے بتایا کہ ایم اے اردو کا ارادہ کیا ہے۔ ایم اے کی تیاری کے لیے میں نے ایک گائیڈ بک خریدی۔ ہاشمی صاحب نے اس کو مسترد کردیا کہ یہ تو ٹھیک نہیں، آپ علمی کتب خانہ کی کتابیں لیں۔ میں نے کتابیں خرید کر ان کو دکھائیں اور ان کی راہ نمائی میں تیاری شروع کردی۔ بعض اوقات مجھ سے ٹیسٹ بھی لے لیتے تھے۔ یوں ہاشمی صاحب سے قربت کا آغاز ہوا۔
میں اردو، املا اور لکھائی میں کچھ بہتر تھا، ہاشمی صاحب کو جب کچھ املا کروانا ہوتا، خطوط کے جواب لکھنا ہوتے، یا کوئی مسودہ لکھنا ہوتا تو وہ مجھے بلا لیتے اور مجھ سے املا کرواتے۔ کئی بڑی اور قدآور شخصیات کے خطوط کے جواب، ان پر مضامین، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں پر آراء، کتابوں پر آراء، کتابوں پر تبصرے مجھے املا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ہاشمی صاحب کو مختلف پروگرامات جن میں انہیںٖ جانا ہوتا تھا مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہتے۔ میں اپنی سہولت سے جہاں جانا ممکن ہوتا اُن کے ساتھ جاتا۔ اقبال اکادمی، بزم ِاقبال، دبستانِ اقبال، مجلس ترقی ادب، اورینٹل کالج، پنجاب یونی ورسٹی میں پروگرامات میں ان کے ساتھ شریک ہوتا، اور یوں علمی و ادبی موضوعات پر نامور شخصیات کی گفتگو سنتا اور ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرتا۔
میرے ایک اور استاد پروفیسر محمد اکرم طاہر صاحب اوکاڑہ میں رہتے تھے اور ہاشمی صاحب سے بہت متاثر تھے۔ جب ان کو ہاشمی صاحب سے میری قربت کا پتا چلاتو وہ بھی جب آتے اور ہاشمی صاحب میسر ہوتے تو ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے۔ ہاشمی صاحب بڑے تپاک سے ملتے اور کہتے کہ کبھی اوکاڑہ جاکر ان سے ملیں گے۔ جب میں نے ہاشمی صاحب کی اس خواہش کا اظہار اکرم طاہر صاحب سے کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ان کی میرے گھر آمد میرے لیے بہت بڑی سعادت ہوگی۔
ہاشمی صاحب نے ایک بار یومِ اقبال پر گورنمنٹ کالج ساہیوال جانے کا پروگرام بنایا، مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے اسے اپنے لیے سعادت جانا۔ ساتھ ہی ہاشمی صاحب نے یہ بھی کہا کہ ساہیوال سے واپسی پر اوکاڑہ میں اکرم طاہر صاحب سے بھی ملیں گے۔ جب میں نے اکرم طاہر صاحب سے ذکر کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور منتظر رہنے لگے۔
گورنمنٹ کالج ساہیوال میں پروگرام کے بعد ملاقاتیں، لائبریری کا وزٹ اور بعدازاں پرنسپل کے گھر ظہرانہ تھا۔ اس دوران میں اکرم طاہر صاحب مسلسل رابطے میں رہے اور بار بار پوچھتے کہ کہاں پہنچے اور کب تک آجائیں گے؟ جب ہم اوکاڑہ ان کے گھر پہنچے تو اکرم طاہر صاحب نے بہت تکلف کیا اور انواع و اقسام کی اشیاء چائے کے ساتھ پیش کیں، حالانکہ ہم نے بتایا ہوا تھا کہ ہم کھانا کھا کر آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود انھوں نے بہت سے لوازمات سے تواضع کی۔ میرا خاص طور پر شکریہ ادا کیا کہ میں ہاشمی صاحب کو لے کر ان کے گھر آیا۔
بعض اوقات ہاشمی صاحب نماز کے لیے مسجد جانے کا بھی کہہ دیتے کہ مجھے موٹر سائیکل پر مسجد لے چلیں۔ پہلی بار وہ موٹر سائیکل کے ایک طرف بیٹھے تو میں نے شرارت کے انداز میں پوچھا ’’سر! آپ لڑکیوں کی طرح کیوں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘ مسکرا کر جواب دیا کہ یہ سوال تو لڑکیوں سے پوچھا جائے کہ وہ ایسے کیوں بیٹھتی ہیں۔
ہاشمی صاحب نے آخری کچھ سالوں میں نماز کے لیے مسجد گاڑی پر آنا شروع کردیا تھا۔ اکثر مجھے بھی ساتھ بٹھا لیتے اور دفتر اتار دیتے۔ ایک دن مسجد کے باہر بھیڑ بہت تھی اور ایک فارچونر گاڑی کھڑی تھی۔ گاڑی بیک کرتے ہوئے فارچونر کو لگ گئی لیکن نقصان کوئی نہ ہوا۔ میں نیچے اترا تو کہا کہ کچھ بھی نہیںہوا۔ گھر کو روانہ ہونے لگے تو لوگوں نے گاڑی کو راستہ دینا شروع کردیا، ہاشمی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لوگ خود ہی راستہ دے رہے ہیں کہ اس بابے کو اتنی بڑی گاڑی نظر نہیں آئی ہم کہاں نظر آئیں گے!
ہاشمی صاحب کے ساتھ میں نے کئی کتابوں کی پروف ریڈنگ بھی کی جن میں زیادہ تر اُن کی اپنی کتابیں ہوتیں جن کے دوبارہ ایڈیشن آنے ہوتے۔ جب وہ کتاب چھپ جاتی تو سب سے پہلے مجھے بلا کر دیتے اور ساتھ ہی تبصرہ لکھنے کو بھی کہتے۔ میں نے آج تک جتنے بھی تبصرے لکھے ان کی راہنمائی ہاشمی صاحب کی ہی تھی۔ یوں ہا شمی صاحب نے مجھے کتابوں پر تبصرہ کرنا سکھا دیا۔
مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ ’’سیرتِ سرورِ عالمﷺ‘‘ کی تیسری جلد کی ساری پروف ریڈنگ میں ہاشمی صاحب کے ساتھ رہا۔ کتاب میں شامل اقتباسات کا تفہیم القرآن، اور سیرت کی مختلف کتابوں سے تقابل کیا۔ ہاشمی صاحب پڑھتے، میں سنتا، پھر میں پڑھتا اور وہ سنتے۔
کتابیں خریدنا اور پڑھنا میرا محبوب مشغلہ ہے، ہاشمی صاحب نے میرے اس مشغلے کو مزید تقویت بخشی۔ اچھی اور معیاری کتابوں کی طرف راہنمائی بھی کی اور کئی کتابیں تحفتاً بھی دیں۔ میں جب سے لاہور آیا ہوں، کتاب میلے میں نہ صرف جاتا ہوں بلکہ کتابیں خریدتا بھی ہوں۔ ہاشمی صاحب نے بھی ساتھ لے جانا شروع کردیا۔ وہاں مختلف اسٹالوں پر کتابیں دیکھنا، خریدنا اور لوگوں سے ملاقاتیں کرنا اہم ہوتا۔ ہاشمی صاحب کے کئی شاگرد ملتے، حال احوال معلوم کرتے اور ساتھ تصویریں بنواتے۔ کسی کتاب میلے میں ہم اکٹھے نہ جا پاتے تو ہاشمی صاحب میری خریدی ہوئی کتابیں باقاعدہ منگوا کر دیکھتے اور حوصلہ افزائی فرماتے۔
میری بیٹی عائشہ کی پیدائش ہوئی تو میرے ذہن میں آیا کہ کیوں نا گھٹی اور اذان ہاشمی صاحب سے دلوائی جائے۔ میں نے اُن سے اس خواہش کا اظہار کیا تو ہاشمی صاحب ثریا عظیم اسپتال میں آئے اور میری بیٹی کو گھٹی دی اور اس کے کان میں اذان بھی پڑھی۔ میری بیٹی اس پر جتنا بھی ناز کر ے، کم ہے۔
ایم فل کے مقالے کا سوچا تو میرے ذہن میں آیاکہ ہاشمی صاحب پر ہی مقالہ لکھنا چاہیے۔ ان پر بہت سے مقالات لکھے جا چکے ہیں، صرف مکتوب نویسی ہی ایسا شعبہ ہے جس پر ابھی تک کام نہیں ہوا۔ میں نے ان سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا ہاں اس پر کام نہیں ہوا، آپ کام کریں اور ’’مشفق خواجہ… احوال و آثار‘‘ میں ان کی خطوط نویسی والا باب پڑھیں۔ پھر اسی وقت اپنی شاگرد ڈاکٹر زیب النسا کو فون کیا اور خطوط کا پوچھا کہ آپ کے پاس ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس بارہ سو خطوط موجود ہیں۔ پھر مجھ سے پوچھاکہ آپ نے یونی ورسٹی میں بھی بتا دیا ہے؟ تو میں نے کہا جی سر! بتا دیا ہے۔ ابھی یہ مرحلہ باقی تھا کہ ہاشمی صاحب اس فانی دنیا کو چھوڑ کر ابدی دنیا کی طرف چل دیے۔ ہاشمی صاحب وقت کا بہت خوب استعمال کرتے تھے۔ ایک ایک منٹ کو استعمال کرتے اور خوب کام کرتے، اور اس میںکسی قسم کی بیماری کو خاطر میں نہ لاتے، جو ہم جیسوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
ہاشمی صاحب کے ساتھ آخری پروگرام میں دبستانِ اقبال جانا ہواجس میں علامہ اقبال اسٹیمپ سوسائٹی نے ان کی کتاب’’کتابیاتِ اقبال‘‘ پر ایوارڈ دیا۔ یہ میرا اُن کے ساتھ آخری سفر ثابت ہوا۔ وفات سے دوروز قبل اُن سے منصورہ اسپتال میں ملاقات کے لیے گیا جو اُن سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ہاشمی صاحب مجھ سے کم ازکم دس منٹ بات کرتے رہے۔ جب میں نے پوچھا کہ ہوا کیا؟ تو انھوں نے پوری تفصیل بتائی کہ پیٹ میں درد ہوا جو ناقابلِ برداشت تھا۔ پہلے تو برداشت کرتا رہا لیکن جب حد سے بڑھا تو عمیر(بیٹا) اور اہلیہ کو بلایا اور اسپتال آگئے۔ ڈاکٹروں نے ڈرپس لگائیں جن سے کچھ افاقہ ہوا، ٹیسٹ وغیرہ بھی کیے ہیں، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بے شک گھر چلے جائیں، لیکن میں نے کہا کہ مکمل تسلی کرلیں۔ پھر خود ہی کہا کہ اب آپ جائیں، دعائیں کریں اور منصورہ کے دوستوں کو بھی دعا کا کہیں۔ میں تو دعائیں کررہا تھا اور اس امید میں تھا کہ ابھی ہاشمی صاحب کی کال آئے گی کہ میں گھر آگیا ہوں۔ لیکن ان کی وفات کی خبر ملی تو یقین ہی نہ آیا۔ ہر طرف سے یہی خبر سننے کو ملی تو مانے بغیر چارہ نہ تھا۔
ہاشمی صاحب کی نمازِ جنازہ منصورہ میں نمازِ جمعہ کے بعد مولانا عبدالمالک صاحب نے پڑھائی۔ ہاشمی صاحب کے شاگرد، ان کے رفقاء اور کئی نامور لوگ ان کے جنازے میں آئے۔ منصورہ میں آج تک جو بڑے جنازے ہوئے ہیں ہاشمی صاحب کا جنازہ بھی ان میں شامل ہے۔
دوسری نمازِ جنازہ پنجاب یونی ورسٹی میں ادا کی گئی جو ان کے شاگرد ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے پڑھائی، اور ان کو پنجاب یونی ورسٹی کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہاشمی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں