پاکستان میں آئین شکنی کی روایت

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس روشنی میں

آئینِ پاکستان کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت 5 سال اور سینیٹ کی 6 سال ہے۔ آئین پابند کرتا ہے کہ پائیدار جمہوریت اور عوام کے حقِ انتخاب و حقِ حکمرانی کی حفاظت کے لیے طے شدہ مدت کے اندر انتخابات کرائے جائیں۔ پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہی بات نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے کہ انتخابات کے لیے ہمیشہ بے یقینی، بے اعتمادی، خوف اور التواء کا ماحول پیدا کرنا اسٹیبلشمنٹ کا ایک معروف حربہ اور اپنی بالادستی قائم رکھنے کا طریقہ واردات ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مقبولیت/عدم مقبولیت کی بنیاد پر نام نہاد الیکٹ ایبلز کی تلاش اور پھر پارٹیوں کے اندر غیر جمہوری روایات اور انتخاب کا غیر مستحکم نظام بجائے خود ملک میں جمہوری اداروں اور جمہوری نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا ایک بنیادی سبب ہے، جس کی بناء پر جمہوری روایات پروان نہیں چڑھ پاتیں اور نتیجتاً آئین و قانون کی بالادستی کا خواب شرمندئہ تعبیر ہونے نہیں پاتا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کے اندر جمہوریت کے پنپنے کی راہ میں روڑے اٹکانے اور شب خون مارنے والے کوئی اور نہیں بلکہ فوج، سول بیوروکریسی، جاگیردار، سرمایہ دار و صنعت کار، نام نہاد الیکٹ ایبلز اور بعض میڈیا گروپس کی شکل میں موجود وہ اشرافیہ ہے جو ملک میں سیاست و جمہوریت کو اُس کے اصل ٹریک پر آنے ہی نہیں دیتی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک میں راتوں رات نت نئی پارٹیاں بنانا اور پھر ”مقصد“ پورا ہونے کے بعد توڑنا مذکورہ اشرافیہ کا پسندیدہ مشغلہ اور بنیادی کام بن کر رہ گیا ہے۔ ہر دفعہ یہ نومولود پارٹیاں ایک نئے انجینئرڈ الیکشن کے ذریعے کسی نئے پُرفریب نعرے کے ساتھ عوام کو سُہانے خواب دکھاکر اگلے پانچ سال کے لیے قوم پر مسلط کردی جاتی ہیں، جو بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت ملک و قوم کو بحران در بحران کی ایک نئی دلدل میں دھکیل کر اور کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوکر ”کام پورا ہونے“ کے بعد نئے سیٹ اَپ اور نئے نام کے ساتھ عوام پر مسلط ہونے کے لیے نئے نام اور ”نئے عزم کے ساتھ“ میدانِ سیاست میں اُترنے کے لیے پَر تولنے لگتی ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے تحت اقتدار میں آنے والی یہ تمام فوجی اور نام نہاد سول حکومتیں نہ تو آئین کو خاطر میں لاتی ہیں اور نہ ہی قانون کی پاسداری کو اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویزمشرف تک تمام فوجی حکمرانوں نے آئین کو پامال کرکے اور جمہوریت کو یرغمال بناکر غیرجمہوری، غیرآئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ جمایا اور طویل عرصے تک حکمرانی کے مزے لوٹنے کے بعد عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بن کر چلتے بنے۔ دستور 1973ء کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو معطل کرنے والا سنگین غداری کا مرتکب قرار پاتا ہے جس کی سزا موت ہے۔ تاہم آئین شکنی کرنے والے یہ جرنیل مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے بھرپور تعاون اور پشت پناہی کے باعث اس جرم کے مرتکب قرار دیے جانے کے باوجود سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں کئی سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرکے اپنے والد گرامی یا کسی اور کی پُرزور سفارش پر 7 اکتوبر 1998ء کو پرویزمشرف کو آرمی چیف مقرر کیا، لیکن ایک سال بعد ہی اُنہیں پرویزمشرف کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوکر ڈیل کے تحت 10 سال کے لیے ملک بدر ہونا پڑا۔ 1999ء میں کارگل جنگ کے معاملے پر میاں نوازشریف اور پرویزمشرف کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے جس کے بعد میاں نوازشریف نے پرویزمشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے ہٹاکر جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کردیا۔ اُس وقت جنرل پرویزمشرف سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھے۔ سری لنکا سے واپسی پر پرویزمشرف کے جہاز کو کراچی ائرپورٹ پر لینڈ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے ردعمل میں فوج نے 12 اکتوبر 1999ء کو پارلیمنٹ پر قبضہ کرکے وزیراعظم میاں نوازشریف کو گرفتار کرلیا، اور یوں آرمی چیف پرویزمشرف اقتدار پر قابض ہوکر ملک کے خودساختہ چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ جون 2001ء میں خودساختہ صدرِ مملکت پرویزمشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ”دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے میں ایگزیکٹوز اور قانون کے برعکس کام کرنے“ کو بنیاد بناکر ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ بعد ازاں 30 اپریل 2002ء کو اپنے حق میں ریفرنڈم بھی کروایا۔ اپنے فوجی عہد کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ پرویزمشرف نے آئین شکنی کا یہ سلسلہ جاری رکھا اور 8 سال بعد 2007ء میں آئین کو بھی معطل کردیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کردی۔ اس سال 3 نومبر سے 15 دسمبر کے مختصر عرصے کے لیے آئین معطل رہا، جبکہ چیف جسٹس سمیت متعدد ججوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ آئین کو معطل کرنے اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ پرویزمشرف دور کے متنازع اقدامات میں سرفہرست پاکستان میں حدود آرڈیننس میں ترمیم، قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے عرفِ عام میں این آر او کہا جاتا ہے، بلوچستان میں فوجی آپریشن کے ذریعے معروف اور بزرگ سیاست دان اکبر بگٹی کا بہیمانہ انداز میں قتل، بے نظیر بھٹو کا قتل، جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ کو حوالگی، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر بے بنیاد الزامات اور نظربندی، اور سانحہ 12 مئی 2007ء کراچی نمایاں ہیں۔ فوجی آمر پرویزمشرف کے 9 سالہ دورِ اقتدار، اقتدار سے محرومی کے بعد خودساختہ جِلاوطنی اور بعد ازاں خصوصی عدالت کی طرف سے آئین شکنی اور سنگین غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت سنائے جانے تک کے اِن تاریخی واقعات کو قدرے تفصیل کے ساتھ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔

پاکستانی سیاست کی امریکی مفادات کے ساتھ وابستگی کی تاریخ بعض دانشوروں کے نزدیک قیامِ پاکستان سے بھی پہلے کی ہے، تاہم مختلف فوجی اور سول حکومتوں میں اُتار چڑھاؤ کے بعد اِن تعلقات میں ڈرامائی تبدیلی اُس وقت آئی جب امریکی شہر نیویارک میں دن کے وقت چار فضائی مسافر طیارے خودکش انداز میں امریکی سرمایہ دارانہ برتری کی علامت ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیے گئے۔ نائن الیون کے نام سے معروف یہ واقعہ 11 ستمبر 2001ء کو پیش آیا۔ اس واقعے کا الزام امریکہ نے اُسامہ بن لادن پر لگادیا، جو اُس وقت افغانستان میں مقیم تھے، اور یوں ایک ماہ بعد امریکہ نے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھائی کردی۔ اس نئی صورتِ حال کو امریکہ نے ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کا نام دے کر پاکستان سے اسٹرے ٹیجک تعاون مانگا۔ اُس وقت کے امریکی وزیرِ دفاع جنرل کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویزمشرف ڈھیر ہوگئے اور پھر امریکہ کی فرماں برداری میں جس انتہا تک گئے اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یوں پاکستان اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔ اس نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے پاکستان کی دہائیوں پر محیط افغان پالیسی تبدیل کرڈالی، افغانستان میں کارروائی کے لیے امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کیے، طویل روسی جارحیت کو شکستِ فاش دینے والے مجاہدین کو ایک ایک کرکے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا اور امریکی ایماء پر پاکستان کے اندر سات مذہبی تنظیموں کو شدت پسند قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کیں۔

نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل کرکے جلاوطنی کی ڈیل کے بعد جنرل پرویزمشرف نے طویل عرصے کے لیے حکومت کرنے کا پلان بنا لیا۔ اس مقصد کے لیے انہیں عدلیہ کے PCO ججوں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ 2001ء میں ظفر علی شاہ کیس میں عدالت نے نہ صرف پرویزمشرف کے 12؍اکتوبر 1999ء کے اقدام کو جائز قرار دے دیا بلکہ انہیں آئین کی چند شقیں چھوڑکر ترمیم کا بھی اختیار دے دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 12 رکنی بینچ سے اقتدار پر قبضے کے فوجی اقدام کی توثیق اور چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کا اختیار ملنے کے بعد پرویزمشرف کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط ہوگئی۔

20 جون 2001ء کو اِسی اختیار کے تحت خودساختہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویزمشرف نے ایک حکم نامے کے تحت صدر رفیق تارڑ کو برطرف کرکے منصبِ صدارت سنبھال لیا۔ ساتھ ہی سینیٹ معطل، قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں۔ صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے 30 اپریل 2002ء کو خودساختہ صدارتی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو دوبارہ صدر ڈیکلیئر کرا دیا۔ 4 جنوری 2004ء کو پہلی بار اور 6 اکتوبر 2007ء کو دوسری مرتبہ پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کیا۔ 21 اگست 2002ء کو جنرل پرویزمشرف نے پارلیمانی توثیق کے بغیر آئین میں ترامیم کا اعلان کیا، جن کے تحت 29 دفعات میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ان میں صدر مملکت کے اسمبلیاں توڑنے کے اختیار کی بحالی، ووٹر کی عمر 18 سال کرنے، قومی اسمبلی اور سینٹ کی نشستوں میں اضافے جیسی ترامیم قابل ذکر ہیں۔

اقتدار پر گرفت کے بعد پرویز مشرف نے اکتوبر 2002ء میں ملک میں عام انتخابات کرائے۔ الیکشن کے نتیجے میں پرویزمشرف کی حمایت یافتہ ق لیگ کو سب سے زیادہ (118) سیٹیں ملیں تاہم وہ اب بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بالآخر پی پی پی پیٹریاٹ اور ایم کیو ایم کی حمایت سے ق لیگ ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور میر ظفر اللہ جمالی نے 23 نومبر 2002ء کو بطور وزیراعظم حلف لیا، جوکہ 26جون 2004ء تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔

دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) نے 2002ء کے انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے نتیجے میں ایم ایم اے قومی اسمبلی کی 72 اور سینیٹ کی 22 نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک بڑی پارلیمانی قوت بن کر سامنے آئی۔ راقم الحروف کو قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کا پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا۔

ایم ایم اے نے جنرل پرویزمشرف کے تمام غیرآئینی، غیرقانونی اقدامات کے خلاف پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے “Go Musharraf Go”اور No LFO No”” تحریک کا آغاز کردیا۔ اس تحریک کی گونج نے پارلیمنٹ کے ایوانوں میں ہلچل برپا کردی۔ ایم ایم اے کے دباؤ کے نتیجے میں دسمبر 2003ء میں حکومت اور ایم ایم اے کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار واپس لینے اور 31 دسمبر 2004ء تک پرویزمشرف کو فوجی عہدہ چھوڑنے اور وردی اُتارنے پر راضی کرلیا گیا، جس کا اعلان پرویزمشرف نے ٹی وی پر آکر قوم سے خطاب میں بھی کیا۔ تاہم بعد ازاں وہ اپنے وعدے سے مُکر گئے اور وردی کو اپنی ”کھال“ قرار دے دیا، اور 2007ء تک صدارت اور آرمی چیف دونوں عہدوں پر براجمان رہے۔

آئین پاکستان کے مطابق ملک کی کوئی بھی اسمبلی ایسا کوئی قانون پاس نہیں کرسکتی جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ اگرچہ قرآن و سنت کے منافی قوانین کا آغاز جنرل ایوب کے دور میں ہوا، تاہم جنرل پرویزمشرف نے اِسے دوام بخشا۔ جون 2004ء میں اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب میں پرویزمشرف نے کہا کہ وہ حدود آرڈیننس اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون پر نظرثانی کے حق میں ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ پیش ہوا، جس میں حدود سے متعلق قوانین کو بطورِ خاص نشانہ بنایا گیا اور ایسی قانونی موشگافیاں پیش کی گئیں جن کے ذریعے زنا بالجبر کے جرم کو حدود شرعیہ کے دائرے سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنادیا گیا۔ زنا بالرضا کی ایک شق کے ذریعے شرعی حد (سنگسار یا سو کوڑوں) کو باقی رکھتے ہوئے اس کے ساتھ جو تعزیری قوانین حدود آرڈیننس میں شامل کیے گئے تھے، انہیں بالکل ختم کردیا گیا۔ جس کا عملی نتیجہ یہ ہوا کہ زنا بالرضا کی صورت میں اگر چار گواہوں کی عینی شہادت شرعی قوانین کے مطابق میسر نہ آسکے تو زنا سے کم درجے کے وہ جرائم جو زنا کا سبب بنتے ہیں (دواعی زنا وغیرہ) جو اسی کیس میں ریکارڈ پر آچکے ہیں، ان پر مجرموں کو کوئی سزا نہیں دی جا سکے گی اور وہ بالکل بری ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ حدود شرعیہ کے قوانین کے دیگر قوانین پر بالاتر ہونے کی دفعہ بھی حذف کردی گئی اور بہت سی دیگر ایسی ترامیم بھی نئے مسودے میں شامل کی گئیں جن سے حدود آرڈیننس کو کلیتاً غیر موثر بنادیا گیا۔

2 جنوری 2005ء کو بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر شازیہ خالد کا مبینہ ریپ ہوا۔ بگٹی قبیلے کے سردار اور قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی نے اپنے علاقے میں اس اقدام کو بلوچ قوم کی عزت و ناموس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے انتقام کا اعلان کردیا۔ اس کیس میں مبینہ طور پر پی پی ایل حکام کے علاوہ پاک فوج کے ایک کیپٹن کے ملوث ہونے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس نے صورتِ حال کو مزید کشیدہ کردیا۔ یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد بگٹی قبیلے کے افراد نے گیس فیلڈ پر حملہ کردیا، جس کے جواب میں صدر پرویزمشرف نے ساڑھے چارہزار فوجی، مزید ٹینک اور ہیلی کاپٹر ڈیرہ بگٹی روانہ کردیے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس دوران 14 دسمبر 2005ء کو کوہلو کے دورے کے موقع پر پرویزمشرف کے قافلے پر حملہ ہوا جس سے کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ سن 2006ء کے اوائل میں پاک فوج کی طرف سے ڈیرہ بگٹی پر بمباری کی گئی۔ اس کارروائی کے بعد نواب اکبر بگٹی ڈیرہ بگٹی کی پہاڑیوں میں روپوش ہوگئے اور وہیں 26 اگست 2006ء کو ہونے والے ایک فوجی آپریشن کے نتیجے پُراسرار طور پر ان کی موت واقع ہوئی۔ (جاری ہے)