7 اکتوبر ایک استعارہ ہے جب پوری دنیا نے عالمی نظام کے جبر کے آگے ہتھیار ڈال دیئے تھے ، چند کمزور لوگوں نے پورے بنے بنائے کھیل کو بگاڑ ڈالا
کیا دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے؟ یہ سوال اب تواتر سے کیا جارہا ہے۔ اس کی وجوہات میں جانے سے قبل ہم کو جدید دنیا کے نظریات اور اس کے دعووں کی حقیقت پر نظر ڈالنا ضروری ہے، اور اس کے بعد کائنات کے تغیر و تبدل اور شکست و ریخت کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
دنیا کی معلوم تاریخ میں تغیر و تبدل کوئی انہونی بات نہیں، ہر مذہب کے ماننے والے حتیٰ کہ کسی مذہب کے نہ ماننے والے بھی اس بات پر متفق ہیں کہ آج سے قبل بھی ایسے جدید تعلیم و تہذیب یافتہ معاشرے موجود تھے جن کی شکست اور ان کے مٹ جانے پر شاید کلام بھی نہ کیا جاتا تھا، لیکن وقت نے ان کو ایسے مٹا دیا کہ ان کے آثار شاید آثارِ قدیمہ میں بھی عرصے بعد مل پائے۔ لہٰذا کائنات شکست و ریخت کا ایک ایسا کھیل ہے جو ازل سے ابد تک جاری رہے گا، لہٰذا اس پر یہ کلام کرنا کہ فلاں قوم و معاشرت کو ایسا ملکہ حاصل ہے، وہ علم و فن میں یکتا ہیں لہٰذا ان کا وجود مٹنا ممکن نہیں، یہ دعویٰ علمی و عقلی طور پر بھی قابلِ التفات نہیں، کجا کہ اس بنیاد پر معاشروں اور تہذیبوں کو الٰہ کا درجہ دے کر پوجا جائے۔ اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جدید دنیا کے تصوراتِ علم و فن و نظریات کے آگے بظاہر سپر ڈالتی دنیا نے خود کو اسی حال پر استوار کرنا اور استوار کروانا شروع کردیا ہے جس کو ہم جدید دور کی اصطلاح میں نیچرلائیزیشن (Naturalization) کہتے ہیں، یعنی عام فہم انداز میں ان کے انداز میں ڈھل جانا یا ڈھال دیا جانا۔ اس ڈھال دیے جانے کی ماضیِ قریب کی سب سے بڑی علامت کے طور پر دنیا نے نیو ورلڈ آرڈر کا نام سنا اور اس کا اعلان سرد جنگ کے خاتمے یا سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد امریکی صدر نے کیا۔ یعنی اب تصادم ختم اور دنیا ہمارے نظریات، نظامِ معاشرت اور تعلیم و تہذیب کے تحت چلے گی۔
سرد جنگ کے اختتام کے بعد سے بظاہر کوئی ایسی قوتِ محرکہ نظر نہیں آتی تھی جو اس نظام کو جسے اب نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا گیا ہے، چیلنج کرسکے۔ دو دہائی قبل اس ورلڈ آرڈر کو افغانستان میں نافذ کرنے کے لیے جس طرح کی قوت استعمال کی گئی اور اس میں پوری دنیا کو ملایا گیا اُس کے بعد اس نظام کو چیلنج کرنے والوں کی رہی سہی ہمت بھی بظاہر جواب دے گئی۔ عراق، شام، لیبیا، مصر، الجزائر، پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں جس طرح اس نظام کو چیلنج کرنے والی قوتوں کو اندر سے یا باہر سے سبوتاژ کردیا گیا اس کے بعد کوئی یہ تصور نہیں کرسکتا تھا کہ دنیا میں کوئی جنگ یا عالمی جنگ ہوسکے گی۔ جب کوئی متصادم قوت موجود نہ ہو تواس جنگ کا کیا سوال؟ سوچ و فکر، معاشرت و تہذیب، حتیٰ کہ جب مذہب کو بھی اس ڈھانچے میں ڈھال دیا گیا ہوتو فکر کیسی؟
لیکن آج 2024ء میں دنیا تیسری عالمی جنگ کی گونج صاف سن رہی ہے۔ یہ شاید عالمی بساط پر ایک ایسی جنگ شروع ہونے کی بازگشت ہے جس میں بظاہر ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں بلکہ دنیا کے کمزور ترین، مفلوک الحال، فاقہ کش و ستم رسیدہ بغیر کسی ریاستی طاقت کے اس نظام کو چیلنج کرتے اور اسے نظامِ جبر کہتے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء دنیا کا دوسرا’نائن الیون‘ ہے کہ جس نے دنیا کو تبدیل کردیا، جس نے طاقت، قوت، ہیبت و سفاکی کا بت پاش پاش کردیا۔ یہ محض اس وجہ سے دنیا میں معروف نہیں ہوا کہ چند لوگوں نے سرحد پار کرکے چند لوگوں کو اغوا و قتل کردیا، بلکہ یہ اس وجہ سے ایک استعارہ ہے کہ جب پوری دنیا نے عالمی نظام کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے تو کس طرح چند لوگوں نے اس پورے بنے بنائے کھیل کو بگاڑ ڈالا۔ مغرب ان کو دہشت گرد کہتا ہے، انہیں درندے اور جنونی کے القابات سے نوازتا ہے۔ مجھ سے بار بار ٹی وی پروگراموں میں سوال کیا گیا کہ آپ 7 اکتوبر کے اس اقدام کو کیا احمقانہ اور خودکش نہیں سمجھتے؟ میرا جواب تھا: اس کو احمقانہ یا خودکش اقدام قرار دینے کا اختیار صرف اور صرف اہلِ فلسطین کو حاصل ہے۔ آج جبکہ جنگ کو، بلکہ اس ننگی جارحیت کو ساڑھے تین ماہ ہوچکے ہیں کیا فلسطین کے کسی کوچے سے حماس کے خلاف کوئی آواز بلند ہوئی؟ وہ لوگ جن کے پیاروں کو ان کے مکانات میں ہی ابدی نیند سلادیا گیا، ان کی زبانوں پر حماس سے تو کیا اپنے رب سے بھی کوئی شکوہ نہیں سنا گیا۔ اس عزم و ہمت نے دنیا کو ششدر کردیا ہے۔ عالمی ضمیر اس پر آج مغرب کی سڑکوں پر نکل کر عوامی انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں سے سوال کررہا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف اس اقدام کو نسل کُشی قرار دے چکی ہے۔ اس پورے تناظر میں دنیا میں تہذیب و معاشرت، قانون و انصاف پر نظر رکھنے والے خود کہہ رہے ہیں کہ مغرب اپنے بنائے گئے اصولوں کو خود پامال کررہا ہے… یہ اصول چاہے غزہ پر گرائے جانے والے مغربی بموں کی صورت میں ہوں یا پھر یمن پر حوثیوں کی سرکوبی کے لیے کیے جانے والے آپریشن کی صورت میں، ایوانوں میں جنگ بندی کا سوال کرنے والوں پر اسلام پسند کا لیبل لگانے کی صورت میں ہوں یا پھر مغرب کی درس گاہوں سے آزادیِ اظہارِ رائے کا قلع قمع کرنے کے حوالے سے ہوں۔
عسکری طور پر صورتِ حال اس سے بھی مخدوش ہے۔ دنیا بھر کی عسکری طاقت رکھنے والا اسرائیل ساڑھے تین ماہ میں پورے غزہ کو تباہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے کے باوجود کسی ایک مغوی کو بھی بازیاب نہیں کروا سکا ہے۔ حماس کو ختم کرنے کا اعلان کرنے والی اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت خود اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن ہے۔ حماس کو تو کیا ختم کیا جاتا صرف ایک دن میں 24 اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت نے اسرائیل کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حماس کے ہاتھوں اغوا و گرفتار کیے جانے والوں کے اہلِ خانہ اب اسرائیل کی پارلیمان پر دھاوے بول رہے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے اسرائیل کی بندرگاہیں بحر احمر (Red Sea) پر حوثیوں کے حملے کی وجہ سے ویران ہیں۔ اسرائیل کو اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے، اور اب تازہ ترین برطانوی و امریکی حملوں کے بعد حوثیوں نے افواج کے بحری بیڑوں کو بحیرہ احمر میں نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ لبنان میں 3 امریکی فوجیوں کو ہلاک اور 25 سے زائد کو ڈرون حملے میں زخمی کردیا گیا۔ اس پوری صورتِ حال پر نظر رکھنے والے اب سرگوشیاں کررہے ہیں کہ کیا ہم جلد تیسری عالمی جنگ کو دیکھیں گے؟ شاید کہ اسٹیج تیار ہوچکا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی طرح شاید یہ جنگ مختلف ہو۔ اس کی کیا ہیئت ہوگی یہ کہنا بظاہر مشکل ہے، لیکن ایک بات شاید واضح ہے کہ اس عالمی جنگ میں شاید کوئی بڑا ملک دوسری جانب سے قیادت نہ کرے۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ نے دنیا میں صرف عسکری قوت کو شکست نہیں دی بلکہ شکست خوردہ اقوام کے نظریات کو بھی ناقابلِ عمل بنادیا۔ اب اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو اس میں بھی یہی صورت نظر آئے گی۔ دوسری عالمی جنگ میں خود مسلمان ان عالمی قوتوں کا حصہ بنے کہ جنہوں نے مسلمانوں کی رہی سہی قوت و علامتی خلافت، خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا۔ اب کیا صورتِ حال ہوگی یہ کہنا مشکل ہے، لیکن اس وقت عالمِ اسلام کے حکمرانوں اور خود عقل و خرد رکھنے والوں کو اس بات کا ابھی سے ادراک رکھنا ضروری ہے کہ عالمی حالات کس طرف جارہے ہیں۔ دنیا میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی عمر پوری کرکے اب خود اپنی جنم بھومی میں مسائل کا شکار ہے۔ وہ اقوام جو خود اب عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے متاثر ہوکر اس کی راہ پر گامزن ہوا چاہتی ہیں اُن کے لیے بھی دعوتِ فکر ہے کہ وہ نظام جو خود اپنے بنائے گئے معاشرے میں کامیاب نہ ہوسکا وہ کسی دوسرے معاشرے میں کیسے کامیاب ہوسکتا ہے!
7 اکتوبر سے پہلے اور بعد کی دنیا میں ایک واضح فرق ہے، وہ یہ کہ کیسے دنیا کا زاویۂ نگاہ تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ زاویۂ نگاہ اس لیے اہم ترین ہے کہ اس کی وجہ سے چیزوں اور واقعات کی تفہیم بدل جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے قدر کے پیمانے تبدیل ہوتے ہیں۔ اس کی بدولت انسانی بصارت و بصیرت پر پڑا پردہ ہٹ جاتا ہے۔ یہ وہ مہارت ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے مغرب کی درسگاہوں میں تحقیق ہوتی ہے،تجربات کیے جاتے ہیں اور ان کو بروئے کار لایا جاتا ہے، اور اس پورے عمل پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، پھر انسانوں کی عقل و خرد کے پیمانوں کو ان ہی اصولوں پر استور کیا جاتا ہے۔ یعنی پہلے ذہن کو غلام بنایا جاتا ہے، پھر پورے معاشرے غلاموں میں تبدیل ہوجاتے ہیں کہ جہاں اس فکر سے اختلاف رکھنے والوں کو جاہل، اجڈ، گنوار اور غیر مہذب سے لے کر اب جدید دور میں Unnatural کہا جاتا ہے۔ فلسطینیوں نے صرف یہ کیا ہے کہ اس جدید مادی نظام اور اس کے اصولوں پر مبنی ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سے بنائے گئے بت کو پاش پاش کردیا۔ اس کے لیے نہ تو عسکری طور پر کسی ایٹم بم کی ضرورت پڑی اور نہ ہی ابلاغی طور پر ڈزنی لینڈ، ہالی ووڈ، سی این این اور بی بی سی جیسے ابلاغی اداروں کی۔ دیسی ساختہ راکٹ و مارٹر، اور ٹوٹے پھوٹے موبائل کیمرے رکھنے والوں نے دنیا کی جدید ترین ابلاغی و عسکری قوت کو شکست ِفاش دی ہے۔ اب دنیا چاہے کوئی بھی نتیجہ نکالے لیکن مغرب کی انسانی اخلاقیات کا سوال خود مغرب کی سڑکوں پر کیا جارہا ہے۔ یہی کسی نظام کی شکست کی ابتدا ہے۔ عالمی جنگ کس سطح پر ہوگی، اس کے اثرات کیا ہوں گے، یہ سوال اب گردش کررہا ہے۔ یہ دراصل مغرب کی بالادستی کے خاتمے کا آغاز ہے۔ اختتام کب ہوگا؟ یہ حتمی طور پر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا، لیکن سوویت یونین کے انہدام سے قبل بھی اس کے انہدام کی کوئی ٹائم لائن متعین نہیں تھی بلکہ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ افغانستان کی جنگ سوویت یونین کے انہدام کا باعث بن جائے گی۔ شاید آج بھی یہی کچھ ہے۔ مغرب کا نیو ورلڈ آرڈر اب غیر مؤثر ہورہا ہے۔ مغرب کا بنایا گیا بت پاش پاش ہونے کو ہے۔ تیسری عالمی جنگ شاید کسی اور نظام کی جانب دنیا کو لے کر چلی جائے۔ یہ کب ہوگا اور نظام کون سا ہوگا، اس کا واضح جواب ابھی ممکن نہیں، لیکن فلسطین کا معرکہ نظاموں کی تبدیلی کا باعث بنے گا، اب یہ طے شدہ امر ہے۔