جماعت اسلامی کا عظیم الشان ”جلسہ اعلانِ کراچی“

کراچی کے عوام نے 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا فیصلہ سنادیا،ہم اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں جماعت اسلامی جیت رہی ہے اسے جیتنے دو شہر کراچی تمام تر تباہ حالی کے باوجود ملک کی معیشت چلا رہا ہے،باغ جناح کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں سراج الحق،حافظ نعیم الرحمٰن و دیگر کا خطاب

ماضی کے روشنیوں کے شہر کراچی میں جماعت اسلامی کی انتخابی مہم عروج پر ہے۔ یہ شہر برسوں سے اپنوں اور غیروں کے ستم کا شکار ہے اور اس کے درد میں ہمیشہ اضافہ ہوا۔ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کی دہشت گردی، ظلم اور لوٹ مار کو بھی دیکھا ہے، پیپلز پارٹی کے ظلم کو بھی سہہ رہے ہیں، اور ماضی میں ان دونوں کو مشترکہ طور پر بھی شہر کے لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی کرتے اور ان کا حق مارتے دیکھا ہے۔ ایک وقت یہ بھی آیا کہ کراچی کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا لیکن وہ بھی کراچی کے لیے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہی، بلکہ بلدیاتی انتخابات میں جو لوگ جیتے، اُن میں سے اکثر نے اپنی پارٹی کو دھوکہ دے دیا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل ہوگئے، اور اب یہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑرہے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ان کو ڈلنے والا ووٹ پیپلز پارٹی کا ہی ہوگا، جب کہ بلاول نے اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ آزاد امیدواروں کے ذریعے حکومت بنائیں گے۔ اصل میں  یہ سارے مختلف عنوانات سے اندر سے ایک ثابت ہوئے ہیں۔ کچھ ہوشیار ہیں اور کچھ کمزور ہیں۔ آج بظاہر پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے کے خلاف لڑتے نظر آرہے ہیں لیکن یہ اصل میں صرف اور صرف انتخابی حکمت عملی ہے اپنے ووٹروں کو لسانی بنیاد پر اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کی۔ لیکن شاید یہ اس میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں، اور ایم کیو ایم کے پھٹے غبارے میں اسٹیبلشمنٹ ہوا بھرنے کی جو کوشش کررہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس سارے کھیل کو بے نقاب کرنے میں جماعت اسلامی کا اہم کردار ہے، اُس نے نہ صرف اس شہر کے لوگوں کی خدمت کی ہے بلکہ وہ ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کو بھی بے نقاب کررہی ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ میدانِ عمل میں ہر ہر ایشو پر کراچی کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اسی پس منظر میں جماعت اسلامی کے تحت عام انتخابات کی تیاریوں اور عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں اتوار کو باغ جناح کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں عظیم الشان اور تاریخی ”جلسہ اعلانِ کراچی“ منعقد کیا گیا جس میں شہر بھر سے بڑی تعداد میں مرد وخواتین، بچے، بزرگ، نوجوان، طلبہ و اساتذہ، علماء کرام، تاجر برادری، مزدور، وکلاء، ڈاکٹرز، انجینئرز، سول سوسائٹی و اقلیتی کمیونٹی کے نمائندے اور جماعت اسلامی کے منتخب بلدیاتی نمائندے و قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران شریک ہوئے۔ اہلِ کراچی کی ”جلسہ اعلانِ کراچی“ میں غیر معمولی تعداد میں شرکت کے پیش نظر باغ جناح میں بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے اور خواتین کے لیے گراؤنڈ میں علیحدہ حصہ مختص کیا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں خواتین کے ہمراہ کم سن بچیاں اور بچے بھی شریک تھے، جلسہ گاہ میں بزرگ اور معمر خواتین نے بھی شرکت کی۔ ایک خوبصورت منظر تھا جس میں نظم و ضبط اور جوش دونوں یکجا تھے۔ عوام کی جانب سے ”جلسہ اعلان کراچی“، جماعت اسلامی کے ”منشور کراچی“ اور ”حقوق کراچی“ کے لیے کی گئی کوششوں و جدوجہد کو بھرپور طریقے سے سراہا گیا۔ باغ جناح کے اطراف جماعت اسلامی کے جھنڈے، بینرز اور پلے کارڈز بھی لگائے گئے تھے، جبکہ قائدین کے خطاب کے لیے کئی کنٹینروں پر مشتمل ایک بڑا اسٹیج تیار کیا گیا تھا جس کے ایک طرف جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو اور دوسری طرف سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمٰن کی تصویر لگائی گئی تھی، جب کہ درمیان میں جلی حروف میں کراچی کا نشان تحریر تھا۔ جلسہ گاہ میں وقفے وقفے سے مختلف ترانے چلائے جاتے رہے: ”آئے گا ترازو، چھائے گا ترازو“،”اس بار ترازو جیتے گا“، ”ہم سب ترازو کے حامی، حل صرف جماعت اسلامی“، ”ترازو والے ہی مل کر بدل سکتے ہیں پاکستان“۔

حافظ نعیم الرحمٰن کی تقریر سے قبل ڈاکٹر اسامہ رضی نے شرکاء سے سوال کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کی آواز کا کیا نام ہے؟ شرکاء نے یک زبان اور پُرجوش آواز میں حافظ کے نعرے لگائے۔ ڈاکٹر اسامہ رضی نے حافظ نعیم الرحمٰن کو دعوتِ خطاب دینے سے قبل ”فتح کی سمت متحد بڑھے چلو بڑھے چلو، خدا تمہارے ساتھ ہے بڑھے چلو، گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو“ کے نعرے لگائے، جس کا شرکاء نے بھرپور جواب دیا۔ سراج الحق نے اپنے خطاب کے دوران جماعت اسلامی اقلیتی ونگ کے صدر یونس سوہن ایڈووکیٹ کو اپنے قریب بلایا اور واضح طور پر اعلان کیا کہ ہمارے منشور میں ان کو تمام حقوق اور تحفظ حاصل ہوں گے اور ہم انہیں اقلیت نہیں بلکہ پاکستانی بھائی کہتے ہیں۔

جلسے کا باقاعدہ آغاز نعمان شاہ کی تلاوت سے ہوا، محمد طلحہ منان نے نعتِ رسول مقبول ؐ پیش کی۔ نعمان شاہ نے ”اللہ کی رحمت کا سایہ تحریک کے سر پر ہے چھایا“ ترانہ پڑھا، جب کہ محمدشاکر نے نیا ترانہ ”اب کی بار ترازو آئے گا ان شاء اللہ، کراچی کی خوشحالی کی خاطر ووٹ دو ترازو کو“ سنایا۔ ترانے کے دوران شرکاء نے جھنڈے لہرائے اور جلسہ گاہ میں سماں بندھ گیا۔

باغِ جناح کے وسیع و عریض گراؤنڈ میں عظیم الشان اور تاریخی ”جلسہ اعلانِ کراچی“ میں شہر بھر سے لاکھوں شہریوں سے اپنے کلیدی خطاب میں سراج الحق نے کہا کہ ”آج باغ جناح گراؤنڈ میں ریفرنڈم ہوگیا اور کراچی کے عوام نے 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا فیصلہ سنادیا۔ کراچی کے عوام نے فیصلہ سنادیا کہ 8 فروری کراچی سے ڈاکو راج کے خاتمے کا دن ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں شریک ہوکر ثابت کردیا کہ جس طرح 2023ء واپس نہیں آسکتا اسی طرح ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا دور واپس نہیں آئے گا۔ جماعت اسلامی نے ماضی میں کراچی کو تعمیرو ترقی کا شہر بنایا تھا اور آئندہ بھی بنائیں گے۔ پیپلزپارٹی نے 300یونٹ بجلی فری دینے کا وعدہ کیا ہے، یہ وعدہ بالکل اسی طرح ہے جیسے 1970ء میں روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ کیا تھا۔ پیپلزپارٹی پہلے تھر کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دے اور ان کے مسائل حل کرے۔ جماعت اسلامی صرف شہروں کی نمائندہ نہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کے دیہاتوں کی بھی نمائندہ ہے۔ 8فروری کے دن ترقی کے نشان ترازو پر مہر لگائیں، ہم تمام اسٹیک ہولڈرز کو مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کے خلاف متحد کریں گے۔ سراج الحق نے مزید کہا کہ ہم آئی پی پیز کے معاہدے کو عوام دوست بنائیں گے یا ختم کردیں گے۔ پاکستان آئی پی پپز کا نہیں بلکہ25کروڑ عوام کا ہے۔ ملک میں 5ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن کی جارہی ہے، کوئی اس پر کنٹرول نہیں کرسکا اور نہ کرپٹ لوگوں کا احتساب کرسکا۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر کرپٹ لوگوں کا احتساب کرے گی۔ آٹا مافیا، شوگر مافیا، بجلی مافیا کا احتساب کرے گی۔ پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیوں نے وہی پرانہ منشور پیش کیا۔ ان میں سے ایک پارٹی نے منشور پیش کیا کہ پاکستان کو ”نواز“ دو۔ پاکستان کو نواز کی ضرورت نہیں بلکہ امن، روزگار، صحت و صفائی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ان لوگوں کی ضرورت نہیں جنہوں نے باری باری ملک اور قوم کو لوٹا ہے۔ نوازشریف اپنے بیانیے سے توبہ کرگئے ہیں اور ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بھول گئے ہیں۔ پاکستان میں پانچ دریا، 25کھرب ڈالرکا کوئلہ موجود، تیز ہوائیں موجود… اس کے باوجود بجلی اور توانائی کے لیے بیرونِ ملک سے معاہدے کیے گئے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا کہ ”اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار معدنیات اور وسائل سے نوازا ہے لیکن پاکستان کا ہر بچہ پونے تین لاکھ کا مقروض ہے۔ غربت، مہنگائی، بدامنی، کرپشن، افراتفری کی ذمہ دار 76سال حکومت کرنے والی جماعتیں ہیں۔ ملک میں قیادت کی باری لاڈلوں اور شہزادوں کی نہیں بلکہ کسانوں اور مزدوروں کی ہے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا مقرو ض ہے۔ پاکستان کے نوجوانوں کے راستے میں یہی حکمران رکاوٹ ہیں۔ حکمران اور ان کے وزراء اربوں روپے کا مفت پیٹرول استعمال کرتے ہیں اور سبز نمبر پلیٹوں کی 90گاڑیوں کا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ حکمران پارٹیاں قومی ادارہ اسٹیل مل ٹھیک نہیں کرسکیں تو پاکستان کیسے ٹھیک کریں گی! قوم کے پاس جماعت اسلامی کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے، ہمارے پاس ہر شعبے کے ماہرین کی ٹیم موجود ہے۔ بجلی اور گیس نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی ادارے بند ہورہے ہیں، بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس بجلی اور گیس کے متبادل موجود ہیں، جماعت اسلامی بجلی اور گیس کی فراہمی ممکن بنائے گی اور ایک دن کے لیے بھی صنعتوں کو بند نہیں ہونے دے گی۔ فلسطین پر حملے پر پوری دنیا کے عوام سراپا احتجاج ہیں، سب نے اسرائیل کی مذمت کی لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے امریکہ کے خوف سے فلسطین اور حماس کی حمایت نہیں کی اور نہ امریکہ و اسرائیل کی مذمت کی۔ ڈاکٹر عافیہ کراچی کی رہائشی اور پوری قوم کی بیٹی ہے، کسی بھی حکومت اور حکمران نے ان کی رہائی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ جماعت اسلامی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی اور انہیں آزاد کروائے گی۔ جماعت اسلامی نے اپنے منشور میں اقلیتی برادری کو پاکستانی برادری قرار دیا ہے۔ یہ ہمارے بھائی ہیں اور پاکستانی ہیں۔ جماعت اسلامی کے منشور میں خواتین کے حقوق، تعلیم، ٹرانسپورٹ، وراثت سمیت تمام حقوق شامل کیے ہیں۔“

سراج الحق نے تقریر کے اختتام پر جلسے کے لاکھوں شرکاء سے کھڑے ہوکر عہد لیا کہ 8فروری تک ترازو کی کامیابی کے لیے جدوجہد کریں گے۔ 8فروری کو ظلم و جہالت،بدامنی، بے روزگاری کے خلاف اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ترقی کے نشان ترازو پر مہر لگائیں گے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے منفرد انداز اور دلائل کے ساتھ گفتگو میں کہاکہ ”آراوز اور ڈی آراوز سن لیں کہ آج کراچی کے عوام نے جماعت اسلامی کو فتح دے دی ہے۔ 8فروری کے دن نتائج تبدیل کیے تو آراوز اور ڈی آر اوز کے دفتر کا گھیراؤ کریں گے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں سب مل کر 25لاکھ فون کال کریں اور اپنے رشتہ داروں، عزیز و اقارب، دوست احباب اور دفتر میں کام کرنے والوں کو ترازو پر مہر لگانے کا پیغام دیں۔ وزیراعلیٰ نے انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات کا 2دن میں مسئلہ حل نہیں کیا تو وزیراعلیٰ ہاؤس پر احتجاج کریں گے۔“

حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ ”کراچی کو اس کا مالیاتی حق دے دو، یہاں کے بچوں کو تعلیم دے دو تو حکمرانوں کو دنیا بھر میں کشکول لے کر نہیں پھرنا پڑے گا۔ کراچی والے 96 نشستوں کی طاقت جماعت اسلامی کو دے دیں، ہم 312ارب روپے کا تعلیم کا بجٹ کراچی پر خرچ کریں گے۔ کراچی کے عوام کے لیے ہیلتھ کارڈ بھی لگائیں گے، اسپتالوں کو بھی ٹھیک کریں گے، ماڈل اسکولز بھی بنائیں گے۔“ حافظ نعیم نے تین تلوار پر پی ٹی آئی کے جلسے پر شیلنگ کی شدید مذمت بھی کی اور اپنی گفتگو میں مزید کہا کہ ”ہم اپنی انتخابی مہم میں اہلِ غزہ و فلسطین کو نہیں بھولیں گے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، اسرائیل ناجائز ریاست ہے، دو ریاستی حل کی بات کرنے والوں اور امریکہ و اسرائیل کی مذمت اور حماس کی حمایت نہ کرنے والوں کو عوام مسترد کردیں گے۔ وڈیرہ شاہی مافیا شہر پر مسلط ہوگیا ہے جو ہمارے بچوں کو پڑھنے نہیں دے رہا، انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا جارہا۔ جماعت اسلامی انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ہے اور ساتھ مل کر جاگیرداروں اور وڈیروں سے لڑیں گے۔ انٹرمیڈیٹ کے طلبہ وطالبات کے امتحانی پرچے کی ری چیکنگ کی جائے اور انہیں ان کا حق دیا جائے۔ قومیت کا نعرہ لگانے اور شناخت دینے والے بتائیں کہ 35سال میں مہاجروں اور بہاریوں کو کیا دیا؟ ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کی سوداگری کی ہے۔ ایم کیوایم کے پھٹے ہوئے غباروں میں اب ہوا نہیں بھری جاسکتی۔ عوام کے مینڈیٹ کی توہین نہ کی جائے، مسترد شدہ لوگوں کو پھر سے مسلط نہ کیا جائے۔ آج بھی شہر کراچی تمام تر تباہ حالی کے باوجود ملک کی معیشت چلارہا ہے۔ شہر کراچی کی حالت درست کرلی جائے تو نوجوانوں کو تعلیم کے پروگرام دیے جائیں، شہر کو گیس ملنے لگے، شہر کی کے الیکٹرک سے جان چھڑائی جائے، کراچی کے نوجوانوں کے لیے ملازمتیں کھولی جائیں تو پھر یہ شہر مزید آگے بڑھے گا۔ شہر کراچی کو یہ مقام حاصل ہے کہ جب وہ ترقی کرتا ہے تو پورا پاکستان ترقی کرتا ہے۔ شہر کراچی پاکستان کو دنیا کا ترقی یافتہ ملک بناسکتا ہے۔ شہریوں کے لیے تعلیم مہنگی کی جارہی ہے، تعلیمی اداروں کو گرانٹ نہیں دی جارہی ہے۔ کراچی کے مڈل کلاس بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، ایم ڈی کیڈ کا جعلی امتحان لیا گیا۔ غریب اور مڈل کلاس بڑی مشکل سے پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے آگے لاتے ہیں۔ ظالم بھیڑیوں نے کراچی کے انٹرمیڈیٹ کے طلبہ و طالبات کو فیل کرنا شروع کردیا اور تعلیمی نسل کُشی کرنا شروع کردی۔“ انہوں نے مزیدکہا کہ ”ہم کے الیکٹرک مافیا کو کراچی کے عوام پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ ہم کے الیکٹرک کا فارنزک آڈٹ کریں گے اور جو پارٹیاں ملوث ہیں انہیں بے نقاب کریں گے۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے کے ای ایس سی کو کھمبوں کی قیمت میں فروخت کردیا تھا۔ جماعت اسلامی نے متاثرین بحریہ ٹاؤن کے اربوں روپے دلوائے۔ نادرا میں ہجرت کرنے والے دو بہاری دھکے کھاتے تھے، جماعت اسلامی نے مقدمہ لڑا اور آج ان کا قومی شناختی کارڈ بنوایا گیا۔“ انہوں نے کہا کہ ”آج باغ جناح گراؤنڈ میں عوام کو لایا نہیں گیا بلکہ وہ خود اپنی مرضی سے آئے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے عوام کے دلوں کی آواز بن رہی ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کا منشور پارٹی کا منشور نہیں بلکہ کراچی کے عوام کا منشور ہے۔ کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو سب سے بڑی جماعت بنایا۔ جماعت اسلامی کے پاس 9ٹاؤنز اور 87 یوسیز ہیں، شہری دیکھ رہے ہیں کہ پارک بننا شروع ہوگئے ہیں۔ جس کو گٹروں کے ڈھکن لگانا تھے وہ ڈھکن بھی نہیں دے سکا، ہم ڈھکن بھی خود لگارہے ہیں۔ ہم ٹاؤنز کے بجٹ کے پیسے بھی ڈھکن لگانے میں خرچ کررہے ہیں۔ 47صوبائی اسمبلی، 22قومی اسمبلی،21مخصوص نشستیں اور 6سینیٹرز سمیت 90نشستوں کی طاقت کراچی کے عوام کے پاس ہے۔ اتنی بڑی طاقت ہونے کے بعد بھی کراچی کی صنعتیں تباہ، خواتین کو ٹرانسپورٹ میسر نہ ہو، عباسی اسپتال میں گائنی وارڈ بند ہو، شہری پانی و دیگر سہولتوں سے محروم ہوں.. اب یہ نہیں ہوگا۔ جماعت اسلامی ان بھتہ خوروں، بلدیہ فیکٹری کو جلانے والوں کو پھر سے کراچی کی نسل تباہ نہیں کرنے دے گی۔ ہم اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں جماعت اسلامی جیت رہی ہے، اسے جیتنے دو۔“

جلسے سے نائب امیرجماعت اسلامی پاکستان، این اے 235کے امیدوار ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے اپنے خوبصورت اور دلکش خطاب میں کہاکہ ”مزار قائد کی روشنیاں اعلان کررہی ہیں کہ سندھ میں وڈیرہ شاہی کا اندھیرا رخصت ہوگیا۔ موروثیت 4ہزار سال پرانی سوچ ہے اور سندھ ہائی کورٹ نے 3دن قبل فیصلہ سنایا کہ سندھ میں 2640اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں۔ یہ اسکول اس لیے بند ہیں کہ یہاں آصف علی زرداری اور وڈیروں کے بچے نہیں پڑھتے۔ سندھ کی 54 سالہ وڈیرہ شاہی نے سندھ کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی کوشش کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کو دھمکی دی اور کہا کہ لاہور کو سندھ جیسا بنادیں گے۔ اس پر لاہور والے ہی نہیں سندھ والے بھی حیرت کررہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے 134بلدیاتی نمائندوں اور 9ٹاؤنز نے شہر میں ترقیاتی کام شروع کردیے ہیں۔ ایم کیو ایم نے شہریوں کو نشان دیا ”بنو قاتل“.. لیکن جماعت اسلامی نے علم کی روشنی سے نشان دیا کہ ”بنو قابل“۔ 8فروری ترازو، اسلام اور جماعت اسلامی کی فتح کا دن ہوگا۔“

جلسے میں کے الیکٹرک کے مظالم، لوٹ مار اور بجلی کے بحران کے حوالے سے کے الیکٹرک کمپلنٹ سیل کے نگراں عمران شاہد نے قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کیا جائے اور دیگر کمپنیوں کو ٹرانسمیشن و ڈسٹری بیوشن کے لیے مدعو کیا جائے۔ جلسے سے نائب امیر سندھ ممتاز حسین سہتو، نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، امیرضلع جنوبی سید عبدالرشید، امیرضلع سائٹ غربی عبدالرزاق خان، جماعت اسلامی منارٹی ونگ کراچی کے صدر یونس سوہن ایڈووکیٹ، جے آئی یوتھ کراچی کے صدر ہاشم یوسف ابدالی نے بھی خطاب کیا۔ جلسے میں نائب امیر پاکستان اسد اللہ بھٹو، صوبائی امیر محمد حسین محنتی بھی موجود تھے۔ اسی طرح جلسے میں فوری طبی امداد کے لیے الخدمت اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ڈاکٹروں نے طبی کیمپ بھی لگایا ہوا تھا، جبکہ ایمبولینس اور موبائل ڈسپنسری بھی موجود تھی۔ جلسے میں قوتِ گویائی اور سماعت سے محروم افراد نے بھی شرکت کی جن کے لیے ایک مترجم کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ جلسے میں بعض معذور افراد نے وہیل چیئرز پر بھی شرکت کی۔ نیشنل لیبر فیڈریشن سمیت مزدور تنظیموں و ٹریڈ یونینز اور مارکیٹوں کی تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی، جب کہ جماعت اسلامی منارٹی ونگ کراچی کے صدر یونس سوہن ایڈووکیٹ کی قیادت میں اقلیتوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں سالِ اول اور انٹر کے متنازع نتائج سے متاثرہ طلبہ وطالبات نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی جنہیں اسٹیج کے قریب بٹھایا گیا۔ امیدوار این اے 237 ممتاز حسین سہتو نے اپنی تقریر کا آغاز شاہ عبداللطیف بھٹائی کے حمدیہ اشعارسے کیا اور ابتدائی تقریر سندھی میں کی، امیر ضلع سائٹ غربی عبدالرزاق خان نے پشتو زبان میں تقریر کی اور نعرے بھی لگائے۔ نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی نے خواتین کی بھرپور شرکت پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج خواتین مردوں پر بازی لے گئیں۔ جلسہ گاہ میں جگہ کی تنگی کے باعث لوگوں کی اکثریت نے اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر جلسے کی کارروائی سماعت کی۔ جلسہ گاہ میں وقفے وقفے سے مختلف نعرے لگائے جاتے رہے جن میں نعرہ تکبیر اللہ اکبر، تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو، گلیوں اور بازاروں میں جدوجہد تیز ہو، تعلیمی ادارو ں میں جدوجہدتیز ہو،جیتے گا بھئی جیتے گا اس بار ترازو جیتے گا ودیگر نعرے شامل تھے۔ محمد حسین محنتی کی دعا پر جلسے کا اختتام کیاگیا۔