زندگی سے متعلق بنیادی رویے

انسان کو دنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی معاملہ اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اس چیز کی ماہیت و کیفیت اپنے اور اس کے باہمی تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رائے بجائے خود صحیح ہو یا غلط‘ مگر بہرحال اسے ان امور کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے ضرور قائم کرنا پڑتی ہے اور جب تک وہ کوئی رائے قائم نہیں کرلیتا یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ میں اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اور کیا رویہ اختیار کروں۔ یہ آپ کا شب و روز کا تجربہ ہے آپ جب کسی شخص سے ملتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ شخص کون ہے‘ کس حیثیت‘ کس مرتبے کن صفات کا آدمی ہے‘ اور مجھ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ طے کر ہی نہیں سکتے کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے۔ اگر علم نہیں ہوتا تو بہرحال آپ کو قرائن کی بنا پر ایک قیاسی رائے ہی ان امور کے متعلق قائم کرنی پڑتی ہے اور جو رویہ بھی آپ اس کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔ اسی رائے کی بنا پر کرتے ہیں جو چیزیں آپ کھاتے ہیں ان کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ کے علم یا آپ کے قیاس میں وہ چیزیں غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں جن چیزوں کو آپ پھینک دیتے ہیں‘ جن کو آپ استعمال کرتے ہیں‘ جن کی آپ حفاظت کرتے ہیں‘ جن کی آپ تعظیم یا تحقیر کرتے ہیں‘ جن سے آپ ڈرتے یا محبت کرتے ہیں‘ ان سب کے متعلق آپ کے یہ مختلف طرز عمل بھی اس رائے پر مبنی ہوتے ہیں جو آپ نے ان چیزوں کی ذات و صفات اور اپنے ساتھ ان کے تعلق کے بارے میں قائم کی ہے۔

پھر جو رائے آپ اشیا کے متعلق قائم کیا کرتے ہیں اس کے صحیح ہونے پر آپ کے رویہ کا صحیح ہونا اور غلط ہونے پر آپ کے رویہ کاغلط ہونا منحصر ہوتا ہے۔ اور خود اس رائے کی غلطی و صحت کا مدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نے وہ رائے علم کی بنا پر قائم کی ہے‘ یا قیاس پر‘ یا وہم پر‘ یا محض مشاہدہ حسی پر۔ مثلاً ایک بچہ آگ کو دیکھتا ہے اور مجرد مشاہدہ حسی کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ بڑا خوبصورت چمک دار کھلونا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے نتیجہ میں اس سے یہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھادیتا ہے۔ ایک دوسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر وہم سے یا قیاس سے یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کے اندر الوُہیّت ہے‘ یا یہ الوُہیّت کامظہر ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ میرا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ میں اس کے آگے سرنیاز جھکادوں۔ ایک تیسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر اس کی ماہیت اور اس کی صفات کی تحقیق کرتا ہے اور علم و تحقیق کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ پکانے اور جلانے اور تپانے والی ایک چیز ہے‘ اور میرے ساتھ اس کا تعلق وہ ہے جو ایک مخدوم کے ساتھ خادم کا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ آگ کو نہ کھلونا بناتا ہے‘ نہ معبود بلکہ اس سے حسب موقع پکانے اور جلانے اور تپانے کی خدمت لیتا ہے۔ ان مختلف رویوں میں سے بچے اور آتش پرست کے رویئے جاہلیت کے رویئے ہیں‘ کیونکہ بچے کی یہ رائے کہ آگ محض کھلونا ہے تجربہ سے غلط ثابت ہوجاتی ہے‘ اور آتش پرست کی یہ رائے کہ آگ خود الٰہ ہے یا مظہرِ الوُہیّت ہے کسی ثبوتِ علمی پر مبنی نہیں بلکہ محض قیاس و وہم پر مبنی ہے بخلاف اس کے آگ سے خدمت لینے والے کا رویہ علمی رویہ ہے۔ کیونکہ آگ کے متعلق اس کی رائے علم پر مبنی ہے۔

اس مقدمہ کے ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے۔ اس کے پاس ایک جسم ہے جس میں بہت سی قوتیں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے زمین و آسمان کی ایک عظیم الشان بساط پھیلی ہوئی ہے جس میں بے حد و حساب اشیا ہیں اور وہ ان اشیا سے کام لینے کی قدرت اپنے اندر پاتا ہے۔ اس کے گرد و پیش بہت سے انسان‘ جانور‘ نباتات‘ جمادات وغیرہ ہیں اور ان سب سے اس کی زندگی وابستہ ہے۔ اب کیا آپ کے نزدیک یہ بات قابلِ تصور ہے کہ وہ ان چیزوں کے ساتھ کوئی رویہ اختیار کرسکتا ہے جب تک کہ پہلے خود اپنے بارے میں‘ ان تمام موجودات کے بارے میں‘ اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرلے؟ کیا وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی راستہ اختیار کرسکتا ہے جب تک یہ طے نہ کرلے کہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ ذمہ دار ہوں یا غیر ذمہ دار؟ خودمختار ہوں یا ماتحت؟ ماتحت ہوں تو کس کا‘ اور جواب دہ ہوں تو کس کے سامنے؟ میری اس دنیوی زندگی کا کوئی مآل ہے یا نہیں اور ہے تو کیا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اپنی قوتوں کے لیے کوئی مصرف تجویز کرسکتا ہے جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ کرلے کہ یہ جسم اور جسمانی قوتیں اس کی اپنی مِلک ہیں یا کسی کا عطیہ ہیں؟ ان کا حساب کوئی لینے والا ہے یا نہیں؟ اور ان کے استعمال کا ضابطہ اسے خود متعین کرنا ہے یا کسی اور کو؟ اسی طرح کیا وہ اپنے گرد و پیش کی اشیا کے متعلق کوئی طرز عمل اختیار کرسکتا ہے جب تک اس امر کا تعین نہ کرلے کہ ان اشیا کا مالک وہ خود ہے یا کوئی اور؟ ان پر اس کے اختیارات محدود ہیں یا غیر محدود؟ اور محدود ہیں تو حدود مقرر کرنے والا کون ہے؟ اسی طرح کیا وہ آپس میں اپنے ابنائے نوع کے برتاؤ کی کوئی شکل متعین کرسکتا ہے جب تک اس معاملہ میںکوئی رائے قائم نہ کرلے کہ انسانیت کس چیز سے عبارت ہے؟ انسان اور انسان کے درمیان فرق و امتیاز کی بنیاد کیا ہے؟ اور دوستی و دشمنی‘ اتفاق و اختلاف‘ تعاون اور عدمِ تعاون کی اساس کن امور پر ہے؟ اسی طرح کیا وہ بحیثیت مجموعی اس دنیا کے ساتھ کوئی رویہ اختیار کرسکتا ہے جب تک اس معاملہ میںکسی نتیجہ پر نہ پہنچے کہ یہ نظامِ کائنات کس قسم کا ہے اور اس میں میری حیثیت کیا ہے؟

(اسلام اور جاہلیت،مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ)
(یہ مقالہ ۲۳ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اسلامیات‘ اسلامیہ کالج‘ پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا)

نفسیات غلامی
سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہئے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی!
دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روباہی!
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی!