8 فروری یعنی عام انتخابات کا دن سر پہ آپہنچا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ان کے انتخابی امیدوار دعووں کے ڈھیر اور وعدوں کے پلندے لیے میدان میں اتر چکے ہیں۔ رائے دہندگان کو سبز باغ دکھانے اور بے وقوف بنانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ وعدوں کی ایک دستاویز ’’منشور‘‘ کی صورت میں بھی ہر سیاسی جماعت نے عوام کے سامنے پیش کی ہے۔ چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے بے تاب میاں نوازشریف سے منسوب مسلم لیگ نے اپنے منشور میں غریب اور مفلوک الحال عوام کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لانے کے وعدے کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پانچ برس میں ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کی جائیں گی، مہنگائی، غربت اور قومی احتساب بیورو کو ختم اور فی کس آمدن کو دو ہزار ڈالر سالانہ تک پہنچایا جائے گا۔ اسی طرح عدالتی نظام میں اصلاحات اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے وعدے بھی نون لیگ کے منشور کا حصہ ہیں۔ آئین کی دفعات 62 اور 63 کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے کی شق بھی منشور میں درج کی گئی ہے، جب کہ عدالتی اصلاحات میں پنچایت کا متبادل نظام متعارف کرایا جائے گا، عدالتوں کو بڑے اور مشکل مقدمے ایک سال، اور چھوٹے مقدمے دو ماہ میں نمٹانے کا پابند کیا جائے گا، کمرشل عدالتیں قائم اور سمندر پار پاکستانیوں کی عدالتیں مضبوط اور بہتر بنائی جائیں گی اور عدلیہ میں ڈیجیٹل نظام رائج کیا جائے گا۔ سرکاری دفاتر کو ماحول دوست اور انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط کیا جائے گا۔ معاشی معاملات میں 2025ء تک مہنگائی میں 10 فیصد کمی، اور چار سال میں مہنگائی کی شرح 4 سے 6 فیصد تک لانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مجموعی قومی آمدن کے ڈیڑھ فیصد تک محدود کیا جائے گا۔ اقتصادی شرحِ ترقی تین سال میں 6 فیصد سے اوپر پہنچائی جائے گی۔ بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر کا سالانہ ہدف 40 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ خارجہ امور میں خطے کے امن اور معاشی ترقی کی خاطر بھارت سے تعلقات استوار کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کشمیر سے متعلق اپنے غیر آئینی اقدامات واپس لے۔ گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ افغانستان کے ساتھ امن اور تجارت کے لیے رابطوں کو بڑھایا جائے گا اور سرحدی نظام کو زیادہ بہتر اور مؤثر بنایا جائے گا۔ امریکہ کے ساتھ عالمی معیشت، انسدادِ دہشت گردی اور تجارت وغیرہ کے مسائل پر مل کر کام کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کی نسل کُشی پر اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے گی۔ مذہب کی جبراً تبدیلی روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں روکنے کے لیے سخت سزائیں نافذ کی جائیں گی۔ ملک بھر میں شمسی توانائی سے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔
پیپلز پارٹی نے اپنے منشور کو ’’عوامی معاشی معاہدہ‘‘ کا نام دیا ہے جس میں کم اجرت پر کام کرنے والوں کی حقیقی آمدن دوگنا کرنے، غریبوں، بے زمینوں اور محنت کشوں کو رہائشی مکان دینے، بھوک مٹائو پروگرام شروع کرنے اور اسکول جانے والے بچوں کو مفت کھانا دینے کے وعدے کیے گئے ہیں۔ نوجوانوں کو یوتھ کارڈ کے ذریعے وظائف دینے، مزدور کارڈ کے ذریعے بچوں کی فیسوں کی ادائیگی اور صحت کی سہولت، اولڈ ایج بینی فٹ، ہاری یا کسان کارڈ کے ذریعے سستی کھادوں اور فصلوں کی انشورنس، وسیلۂ حق پروگرام کے ذریعے خواتین، اور وسیلۂ تعلیم پروگرام کے ذریعے مستحق بچوں کو مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
تحریک انصاف جسے عدالتی فیصلوں کے ذریعے ایک جماعت کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کے حق ہی سے محروم کردیا گیا ہے، اس نے بھی اپنا منشور جاری کیا ہے جس میں وزیراعظم اور ایوانِ بالا کی نصف نشستوں پر براہِ راست انتخاب، اسمبلیوں کی مدت پانچ سے کم کرکے چار، اور ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی مدت چھ سے کم کرکے پانچ سال کرنے، تفتیش کا نیا نظام متعارف کرانے اور سچائی مصالحتی کمیشن کے قیام جیسے معاملات کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس طرح کے منشور دیگر روایتی سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوام کی خدمت کے عزم کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں جن میں رائے دہندگان سے نہایت خوش گوار اور ناقابلِ یقین وعدے کیے گئے ہیں۔ تاہم عوام ان کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ ان وعدوں کو اس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ:
ترے وعدے پہ جیے تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا…!
مسلم لیگ (ن) کے منشور کی شہ سرخی ہے ’’پاکستان کو نواز دو‘‘۔ جب کہ پیپلز پارٹی نے ’’چنو نئی سوچ کو‘‘ اپنی انتخابی مہم کا عنوان بنایا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں جماعتیں چار چار بار ملک کے اقتدار پر قابض نہیں رہ چکیں؟ اور آخری بار تو سوائے جماعت اسلامی کے ملک کی کم و بیش تمام جماعتیں ہی اقتدار کا حصہ تھیں۔ اگر ان میں صلاحیت اور اہلیت تھی تو اس طویل عرصے میں عوام کے مسائل حل کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا آسمانوں کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری اور لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کرتی غربت ان ہی جماعتوں کا تحفہ نہیں؟ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اپنے ماضی میں پیش کیے ہوئے منشوروں پر کتنا عمل انہوں نے کیا؟ جمہوریت آج سب کو بہت یاد آرہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ملک میں جماعت اسلامی کے سوا کون سی جماعت ہے جس میں جمہوری انداز میں جماعتی انتخابات کرائے جاتے ہیں؟ کون سی جماعت ہے جو قیادت میں وراثت کے اصول سے مبرا ہے؟ اور کس جماعت میں ایک خاندان کے سوا کوئی دوسرا عام کارکن پارٹی کی قیادت تک پہنچ سکتا ہے؟ نواز لیگ ملک کو معاشی طاقت بنانے کی دعویدار ہے مگر پہلے ’’قرض اتارو… ملک سنوارو‘‘ اسکیم کا حساب تو دیا جائے۔ پیپلز پارٹی آج بھی 55 برس پرانے نعرے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا سہارا لے رہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا چار بار کا اقتدار عوام کو یہ سب کچھ فراہم کرنے کے لیے کافی نہیں تھا جو ایک بار پھر قوم پر مسلط ہونا چاہتے ہیں؟ آج اکثر جماعتیں تین سو یونٹ بجلی مفت دینے، سولر پلانٹ لگانے کے وعدے کررہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ماضی میں آپ کو سورج، پانی، ہوا اور ملکی کوئلے سے سستی بجلی بنانے کے منصوبے لگانے سے کس نے روکا تھا؟ ان قدرتی سہولتوں کے ہوتے ہوئے آئی پی پیز سے مہنگے پاور پلانٹ لگانے کے معاہدے کس نے اور کیوں کیے؟ گزشتہ پچپن برس کے دوران تمام سیاسی جماعتیں بے نقاب ہوچکی ہیں کہ یہ عوام کے مسائل حل کرنے اور مصائب کم کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں اور ان کی سوچ صرف اپنے اثاثے اربوں سے کھربوں تک بڑھانے اور اپنے ہی خاندانوں کے مسائل حل کرنے تک محدود ہے۔ آزمودہ را آزمودن جہل است… عوام کو آئندہ انتخابات میں تمام ڈاکوئوں، چوروں اور مفاد پرستوں سے نجات کی خاطر اپنا ووٹ سوچ سمجھ کر امانت و دیانت، شرافت و صداقت اور خلوصِ نیت سے خدمت گزار اور دین کے علَم بردار نمائندوں کے حق میں استعمال کرنا ہوگا۔ آج موقع ہے خوب سوچ سمجھ کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں، ورنہ بعد میں پچھتانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ (حامد ریاض ڈوگر)