حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
” مسلمان کو جب کوئی کانٹا چبھتا ہے یا ا س سے بھی کم کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کا درجہ بلند کرتے ہیں یا اس کا گناہ مٹادیتے ہیں“۔(مسلم ،کتاب البر والصلۃ)
توکل کے معنی یہ ہیں کہ اولاً، آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول، حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی برحق ہیں اور انھی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً، آدمی کا بھروسا اپنی طاقت، قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل، اپنی تدابیر اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے۔ اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہوسکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بناکر، اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پابندی کرتے ہوئے کام کرے۔ ثالثاً، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھروسا ہو، جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عملِ صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجائے حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں، اور انھی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوئے وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذکو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کرجائے جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہوسکتے جن کا وعدہ ایمان لاکر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے۔
(تفہیم القرآن، چہارم، ص507، الشوریٰ، حاشیہ 57)
جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے مطمئن ہوجانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیلِ ارشاد کرنی چاہیے۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اس کے سپرد کردے۔ وہ رہنمائی کے لیے بھی کافی ہے اور مدد کے لیے بھی، اور وہی اس امر کا ضامن بھی ہے کہ اس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائجِ بد سے دوچارنہ ہو۔
(تفہیم القرآن، چہارم، ص69، الاحزاب، حاشیہ4)
اللہ ہی پر توکل کیوں کرنا چاہیے
(ترجمہ)’’بھروسا کرنے والے اسی پر بھروسا کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر38:39)
ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص چاہتا ہو کہ سب انسانوں سے زیادہ طاقت ور ہوجائے اُسے چاہیے کہ اللہ پر توکل کرے۔ اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے بڑھ کر غنی ہوجائے اُسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے اس پر زیادہ بھروسا رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو اس کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اور جو شخص چاہتا ہو کہ سب سے زیادہ عزت والا ہوجائے اسے چاہیے کہ اللہ عزوجل سے ڈرے۔‘‘
(تفہیم القرآن، چہارم، ص 374، الزمر، حاشیہ 57)
اپنے حصے پر قناعت
(ترجمہ)’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے، اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ (النساء4:32)
اس آیت میں ایک بڑی اہم اخلاقی ہدایت دی گئی ہے جسے اگر ملحوظ رکھا جائے تو اجتماعی زندگی میں انسان کو بڑا امن نصیب ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں۔ کوئی خوبصورت ہے اور کوئی بدصورت۔ کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بدآواز۔ کوئی طاقت ور ہے اور کوئی کمزور۔ کوئی سلیم الاعضا ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی قوت زیادہ دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا ہے اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ ذرائع دیے ہیں اور کسی کو کم۔ اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدن کی ساری گوناگونی قائم ہے اور یہ عین مقتضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھاکر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کرتا ہے وہاں ایک نوعیت کا فساد رونما ہوتا ہے، اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹادینے کے لیے فطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلے میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہوجائے، یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جڑ ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دوسروں کو دیا ہو اس کی تمنا نہ کرو، البتہ اللہ سے فضل کی دعا کرو، وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لیے مناسب سمجھے گا عطا فرمادے گا۔ اور یہ جو فرمایا کہ مردوں نے جو کچھ کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ، اس کا مطلب جہاں تک میں سمجھا ہوں یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں میں سے جس کو جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس کو استعمال کرکے جو جتنی اور جیسی برائی یا بھلائی کمائے گا اسی کے مطابق، یا باَلفاظِ دیگر اسی کی جنس سے اللہ کے ہاں حصہ پائے گا۔
(تفہیم القرآن، اوّل، ص347۔348، النساء، حاشیہ 54)