نظامِ تعلیم

دنیا میں جو بھی نظامِ تعلیم قائم کیا جائے، اس میں اوّلین بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کس قسم کے آدمی تیار کرنا چاہتے ہیں اور آدمیّت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم وتربیّت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اس بنیادی سوال کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یقینا انگریز کے سامنے انسانیّت کا وہ نقشہ ہرگز نہیں تھا جو مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ انگریز نے یہ نظامِ تعلیم یہاں اس لیے قائم نہیں کیا تھا کہ مسلمانوں کی تہذیب کو زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے کارکن تیار کرے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ چیز اس کے پیشِ نظر نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر اس کے پیش نظر انسانیّت کا وہ نقشہ بھی نہیں تھا جو خود اپنے ملک انگلستان میں اس کے پیش نظر تھا۔ وہ اس مقصد کے لیے یہاں آدمی تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جس کے لیے وہ اپنے ملک میں اپنی قوم کے لیے تیار کرتا تھا۔ وہ یہاں ایسے لوگ تیار کرنا نہیں چاہتا تھا جو ایک آزاد قومی حکومت کو چلانے کے لیے موزوں ہوں۔ یہ جنس تو اسے اپنے ملک میں مطلوب تھی، نہ کہ ہمارے ملک میں۔ یہاں جس قسم کے آدمی تیار کرنا اس کے پیشِ نظر تھا ان کے اندر اولیں صلاحیت وہ یہ دیکھنی چاہتا تھا کہ وہ باہر سے آ کر حکومت کرنے والی ایک قوم کے بہتر سے بہترآلہ کار بن سکیں۔ اس کو یہاں ایسے آدمی درکار تھے جو اس کی زبان سمجھتے ہوں، جن سے وہ ربط اور تعلق رکھ سکے اور کام لے سکے، جو اس کے ان اصولوں کو جانتے اور سمجھتے ہوں، جن پر وہ ملک کا نظام چلانا چاہتا تھا، اور جن میں یہ صلاحیّت ہو کہ وہ اس سرزمین میں انگریز کے منشا کو خود انگریز کی طرح پورا کر سکیں۔ یہی مقصد تھا جس کے لیے اس نے موجودہ نظامِ تعلیم قائم کیا تھا۔
حوالہ :اسلامی نظامِ تعلیم