ہفتۂ رفتہ کے کالم کی بات ہے۔ بال بچوں والے ایک بیاہتا بزرگ نے لفظ ’نوبیاہتا‘ پر اعتراض جڑ دیا۔ دلیل اُن کی درست ہے۔ مگر عرض ہے کہ بے شک ’نو‘ فارسی کا ہے اور ’بیاہتا‘ ہندی کا۔ لیکن اب تو اُردو نے ان دونوںکا بیاہ کرکے ’نوبیاہتا‘بنا لیا ہے۔ اُردو میں ایسے اوربھی بہت سے بیاہتا اور نوبیاہتا مرکبات مل جاتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کی ’’زرگزشت‘‘ میں چاچا فضل دین کے نام گاؤں سے آئے ہوئے ایک خط کی خوش خبری یوں منقول ہے:
’’دیگر احوال یہ کہ رضائے الٰہی سے آپ کے بال بچے کے یہاں بال بچہ ہوا ہے‘‘۔
بال یا بالک بھی ہندی کا لفظ ہے، مگرہندی اور فارسی الفاظ کو اُردو کے بندھن میں باندھ دینے سے جو ’بال بچہ‘ ہوا وہ اُردو کا روزمرہ بن گیا۔ پنجابی زبان میں بھی ’بال‘ کا مطلب بچہ ہی لیا جاتا ہے۔ بلکہ ایک زمانہ ایسا تھا جب ہم سمجھتے تھے کہ پنجابی زبان میں ’بال‘ کا بس ایک ہی مطلب ہوتا ہے ’بچہ‘۔ مگر جب سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لفظ دوسرے معنوں میں بھی مستعمل ہے تب سے شاہ فریدؔ کی کافی کے اس مصرعے کا سارا لطف ہی غارت ہوگیا:
ترے لمّے لمّے بال فریداؔ ٹریا ٹریا جا
گیسو کو بال کہنے کا رواج ہندی اور اُردو میں ہے۔ فارسی میں پرندوں اور پرندوں کے بازوؤں کے اُس جوڑ کو ’بال‘ کہتے ہیں جس کی قوت سے پرندے پرواز کرتے ہیں۔ اقبالؔ کے ایک مصرعے کو پاک فضائیہ کے پرندوں (یعنی شاہینوں) نے اپنا کلمۂ امتیاز بنا رکھا ہے
صحرا ست کہ دریا ست تہِ بال و پرِ ما ست
صحرا ہو کہ دریا، میرے بازوؤں اور پروں کے نیچے( یعنی تَھلّے) ہے۔
بال کا ذکر تو مثال ہی مثال میں آگیا ورنہ ’بال‘ پر کئی کالم ارسال ہوسکتے ہیں۔ بال ایک دو تو ہوتے نہیں۔ قسما قسم کے ہوتے ہیں۔ دیکھیے امیرؔ مینائی نے ایک ہی شعر میں دو قسم کے بال باندھ دیے:
یہ مرا دل ہے کہ ہے اس میں نہاں اُلفتِ زلف
دیکھو آئینے سے اِک بال چھپایا نہ گیا
مگر آج کے کالم میں تو ’بیاہ‘کی بات چل رہی تھی۔ سب جانتے ہیں کہ ’بیاہ‘ شادی، عقد اور نکاح کو کہتے ہیں۔ جو شخص بیاہا گیا وہ ’بیاہتا‘ ہوگیا۔ بالعموم مردوں کو نہیں، خواتین ہی کو بیاہتا قرار دیا جاتا ہے۔ بیاہ بھی، سچ پوچھیے تو، خواتین ہی کا ہوتا ہے، جنھیں بیاہ کے بعد نیا گھر مل جاتا ہے، ورنہ مردوں کے بیاہ کے لیے تو ہمارے ایک پروفیسر دوست فرماتے ہیں کہ موزوں ترین لفظ ’سگائی‘ ہے۔ اُن کی اس رائے کا سبب اُن کا یہ ناموزوں خیال ہے کہ ’سگائی‘ کا لفظ فارسی کے سگ سے ماخوذ ہے۔
پچھلے زمانے میں مرد بھی ’بیاہتا‘ کہے جاتے تھے۔ اُس زمانے میں ایک مثل مشہور تھی ’’کاتے جا، ری کاتے جا، تیرا تار نہ ٹوٹے، بیاہتا خصم چھوٹے‘‘۔ مطلب یہ کہ اپنے کاموں کا چرخا چلانے میں اتنی مگن ہوجائے کہ شوہر کا خیال نہ رکھ پائے۔ شوہر کو خصم کہنے کا رواج بھی اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شاید پنجاب میں اب بھی کہہ لیا جاتا ہو۔ خصم کے اصل معنی تو مدمقابل کے ہیں۔ آپ فریقِ ثانی بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مدمقابل ہونے کی وجہ سے خصم کے معنوں میں دشمن، بیری، بدخواہ اور حریف کے معنی بھی شامل ہوئے۔ مدمقابل عموماً جھگڑا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ’خصم‘ کے تمام مشتقات جھگڑے ہی کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً سورۃ النحل کی آیت 4میں انسان کو ’خصیم‘ (جھگڑالو) کہا گیا ہے۔ اُردو کی بھی عجب شان ہے۔ جھگڑا کرنے والے کو ہمارے حساب سے تو ’جھگڑو‘ کہنا چاہیے تھا۔ نہ جانے ’جھگڑالو‘ کس حساب میں کہہ دیا گیا۔ بہرحال اُردو میں ’خصم کرنا‘ کے معنی عورت کا نکاح کرنا یعنی اپنا جوڑی دار اور خاوند بنانا ہے۔ ’بیاہتا‘ کو ’خصم والی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ عورت جو خاوند سے سُکھ نہ پائے، مصیبت کی ماری ہو یا شوہر سے نالاں، اُسے ’خصموں جلی‘ کہا جاتا ہے۔ عورتیں ایک دوسرے کو کوسنے دیتے ہوئے ’خصم پِیٹی‘ کا کوسنا بھی دے جاتی ہیں۔ یہ ایک طرح کی بد دعا ہے۔ مطلب یہ کہ تُو اپنے شوہر کا ماتم کرے۔ اپنے شوہر کو روئے پیٹے۔ ایک محاورہ بھی زباں زدِ خاص و عام ہے جو کبھی نانی سے منسوب کردیا جاتا ہے کبھی کسی کی والدۂ ماجدہ سے: ’’تیری ماں نے خصم کیا، بُرا کیا، کرکے چھوڑ دیا اور بُرا کیا‘‘۔ صاحب! وطنِ عزیز میں یہ محاورہ ہماری سیاسی جماعتوں پرخوب پھبتا ہے۔
بہرکیف، کوئی جوڑا ’نوبیاہتا‘ ہو یا کہنہ… میاں بیوی میں جھگڑا ہو ہی جاتا ہے۔ اس جھگڑے سے مزاحیہ ادب کی آبیاری ہوتی ہے… شعر میں بھی اور نثر میں بھی۔کسی شاعر نے کسی نوبیاہتا ہمسائے کا احوال یوں بیان کیا ہے:
نو گرفتہ تھا کوئی، خوار ہوا ہے کتنا
شور دن بھر پسِ دیوار ہوا ہے کتنا
’نو‘ کا سابقہ جس لفظ کے ساتھ پڑ جائے اُس میں نئی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ مختار مسعود ایران گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ
’’یہاں لوگ جدت پسند ہیں… جدت کی حد یہ ہے کہ نومولود کو یہاں جدیدالورود کہتے ہیں۔ نو میں جو تازگی کے علاوہ توقعات کی دنیا آباد ہے وہ جدید میں کہاں؟ جدید محض قدیم کی ضد ہے۔ آج کل یہ لفظ کم درجہ چیزوں کے درجات کی بلندی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جو تحریر، تصویر یا عمل، نفسِ مضمون کے لحاظ سے کلاسیک کا مقابلہ نہ کرسکے اسے جدیدیت کا لیبل لگا کر فضیلت دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِدھر نو کا عالم یہ ہے کہ جس لفظ کے ساتھ لگا دیجیے اُس کی تازگی اور توانائی میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا خواہ وہ جوانی ہو، بہار ہو، مولود ہو کہ مسلم‘‘۔ (’’لوحِ ایَّام‘‘ باب چہاردہم ’’الفاظ‘‘)
نو عروس بھی تو فارسی اور عربی کا مرکب ہے۔ اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ایسے مرکبات کی اُردو میں بھرمارہے جیسے شبِ قدر۔
ہندی الفاظ کے ساتھ ’نو‘ کے استعمال کی ایک اور مثال یاد آگئی، ’’نوچندی‘‘۔ اس سے مراد نئے چاند کی پہلی جمعرات ہوتی ہے۔ لکھنؤ میں اس رات کچھ لوگ شاہ میناؔ کی درگاہ پر جایا کرتے تھے اور کچھ لوگ [لکھنؤ کے] کربلا۔ دونوں جگہ حسینوں کا مجمع ہوتا تھا۔ مصحفیؔ غالباً اس رات اپنے کربلا جانے ہی کو ترجیح دیتے تھے۔ فرماتے ہیں:
نو چندی آئی دھوم سے، چل تو بھی مصحفیؔ
جاتی ہیں کربلا کو حسینوں کی ڈولیاں
نوچندی ہی نہیں ایک ترکیب ’نوچندا‘ بھی اردو میں مستعمل رہی ہے۔یہ ترکیب نئے چاند کے بعد آنے والے دنوں کے ساتھ لگائی جاتی تھی۔ جیسے ’نو چندا جمعہ‘ یا ’نو چند ا اتوار‘۔سوداؔ کا شعر ہے:
کہتا تھا کوئی مجھ سے کہ مجھ کو بھی لے چڑھا
دوں گا ٹکا تجھے میں ہے نو چندا ایتوار
’نو‘ چوں کہ ایک عدد بھی ہے، دس سے پہلے والا، چناں چہ اس ’نو‘ کے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں جیسے ’نولکّھا‘ یعنی نو لاکھ روپے کی قدر رکھنے والا، مجازاً بیش قیمت۔اسی طرح ’نوماسا ‘یعنی نو ماہ کا(جیسے ستوانسا سات ماہ کا) وغیرہ وغیرہ۔ اکبرؔ بادشاہ کے ’نورتن‘ بھی مشہور ہیں۔ مگر نورتن کا مطلب ہوتا ہے ’نوجواہر‘۔ان جواہر میں لعل، موتی، پکھراج، زمرد، مونگا، لاجورد،نیلم، ہیرا اور یاقوت شامل ہیں۔