اسلام کا خاندانی نظام

20 ویں صدی اسلامی بیداری اور احیائے اسلام کی صدی شمار ہوتی ہے۔ اس صدی میں اسلام کے احیا، بیداری اور فکر و شعور کی آبیاری میں ہر لحاظ سے قابلِ قدر کام انجام پایا جو اپنی کمیت اور حجم دونوں اعتبار سے بہت اہم اور وقیع ہے۔ گزشتہ صدی میں ہی عصرِ حاضر کے مسائل و مشکلات اور ان کے حل تلاش کرنے کے ضمن میں اسلامی فقہی مصادر اور قدیم ماخذوں کے خصوصی مطالعے کا بھی آغاز ہوا۔ مالی معاملات ہوں یا عائلی قوانین… ان سے متعلق اسلامی فقہ کے وہ تمام پہلو، ابواب اور موضوعات جو قدیم فقہی ماخذوں میں موجود تھے دورِ جدید میں ان میں سے ہر پہلو اور ہر باب پر مستقل، ضخیم اور تحقیقی کام ہوا، مختلف موضوعات پر مختلف مقالات کی جزئیات تک مرتب انداز میں سامنے آئیں اور ان کے دائرۂ کار میں مسلسل وسعت پیدا ہورہی ہے، جبکہ اس سے قبل ان موضوعات پر مطالعہ یا تحقیق کرنے والے تمام فقہی مذاہب کی کتب علیحدہ علیحدہ پڑھتے تھے۔ گو اس کی ضرورت فی زمانہ اب بھی موجود ہے مگر اہلِ علم کی تحقیق و جستجو سے قدیم و جدید فقہا کی آراء و دلائل تک رسائی آسان ہوگئی ہے جو اہم پیش رفت ہے۔

شریعہ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے ’’اسلام کا خاندانی نظام‘‘ کے عنوان سے کچھ عرصہ قبل 100 سے زائد مختلف دورانیے کے مختلف کورسز اور پروگرامات کا آغاز کیا۔ یہ دراصل وہ کورسز اور پروگرامات تھے جو اصلاً جدید تعلیم یافتہ طبقے بالخصوص ججوں، وکلا، ارکانِ عدلیہ، ماہرینِ معیشت، مفتیانِ کرام کے لیے شروع کیے گئے تھے۔ خاص طور پر فیملی لا سے متعلق مقدمات، دیکھنے والوں کے لیے کورسز ہیں تاکہ ان کے سامنے اسلام کے فیملی لاز (عائلی قوانین) پوری طرح واضح ہوں اور ان پر جو اعتراضات اور اشکالات ہوتے ہیں ان کا ازالہ ہوسکے۔

شریعہ اکیڈمی کے تحت ان کورسز کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ عام لوگوں، طلبہ اور قانون کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے اردو زبان میں تعارف، اسلامی قانون اور اصولِ فقہ کے خصوصی مباحث کے مطالعے پر مبنی فاصلاتی کورسز کا بھی آغاز کیا گیا ہے، ان کورسز کی مقبولیت اور پذیرائی کے بعد اسلامی قانون کے دوسرے موضوعات پر بھی کورسز شروع کیے گئے، اس سلسلے میں ابتدا اسلامی قوانین سے ہوئی، اور پھر اسلام کے قانونِ معیشت و تجارت، قانونِ فوجداری پر مختلف کورسز کا آغاز ہوا۔

’’اسلام کا خاندانی نظام‘‘ مختلف کورسز کے مجموعے پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر عبدالحئی ابڑو نے نہایت عمدہ انداز میں مرتب کرکے پیش کیا ہے۔ ان 12 نصابی کورسز کو مختلف اہلِ علم نے ترتیب دیا ہے جس میں تمام عائلی قوانین (فیملی لاز) کا جامع انداز میں احاطہ کیا گیا ہے، اور مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں مروجہ فقہ حنفی کے ساتھ دوسرے فقہا کی آرا اور دلائل کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، جبکہ دیگر اسلامی ممالک میں رائج شدہ فیملی لاز کا بھی قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے۔

’’اسلام کا خاندانی نظام‘‘ ایک جامع اور مربوط مطالعہ ہے جو 19 ابواب اور متعدد مقالات پر مشتمل ہے جن میں خاندان کا تصور، عقیدہ نکاح (ارکان، شرائط، اقسام)، احکامِ مہر، احکامِ نفقہ، احکامِ طلاق، عدالتی تفریق، خلع کے احکام، احکامِ نسب و حضانت اور احکام عدت شامل ہیں، جبکہ کتاب کے اختتام پر مصادر و مراجع کا اندراج بھی موجود ہے۔ یہ کتاب قانون کے پیشے سے تعلق رکھنے والے حضرات بالخصوص ججوں، وکلا، مفتی حضرات، علمائے کرام، طلبہ اور اساتذہ کی آگہی اور سمجھنے میں مدد و معاون ہونے کے ساتھ ساتھ مفید اور جامع لوازمہ لیے ہوئے ہے۔ دنیائے اسلام کی جامعات میں اس طرح اسلامی قوانین کو جدید انداز و اسلوب میں پیش کرنے کے ضمن میں معیاری اور جدید خطوط پر عمدہ اور مربوط کام سرا نجام پارہا ہے۔ مختلف اسلامی ممالک میں اسلامی قوانین کی روشنی میں مالی، فوجداری اور عائلی قوانین کے حوالے سے نہایت حوصلہ افزا اور مفید کام ہورہا ہے۔ نیز مکمل فقہ کو مختلف مذاہب کی آرا کی روشنی میں ترتیب دینے اور حروفِ تہجی کی طرز پر فقہی انسائیکلوپیڈیاز بھی تیار ہوئے ہیں جنہوں نے فقہ کے مشکل اور ادق موضوع کا مطالعہ آسان اور سہل بنا دیا ہے۔

’’اسلامی کا خاندانی نظام‘‘ جامع، مربوط اور عمدہ لوازمے پر مبنی اور لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔