’’تصور آدم کے خواب کی طرح ہے، کہ جب وہ جاگا اُس نے اسے سچ پایا۔‘‘ (جان کیٹس)
جو بات ’’تصور‘‘ پر جدید فلسفوں کو کئی پیشروؤں سے ممیز کرتی ہے وہ آدمی کی خلاّقیت کا اثبات ہے۔ یہاں تصور نقل در نقل کے چکر سے نکل کر ’تخلیقی عمل‘ بن جاتا ہے۔ اسے اب یہاں بالواسطہ ذریعہ نہیں سمجھا جارہا۔ دورِ جدید میں ’’تصور‘‘ سچ کا براہِ راست ذریعہ بن جاتا ہے۔ اب تصور انسانی ذرائع سے اپنی دنیا خود خلق کرنے کا اہل باور کیا جارہا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو خود سے ماورا کسی قوت کو جواب دہ نہیں۔ استعارے میں سمجھا جائے تو اب تصور کوئی ’آئینہ‘ نہیں جو حقیقت منعکس کررہا ہو، بلکہ یہ اب ایک ’چراغ‘ ہے جو اپنی روشنی خود پھیلا رہا ہے اور اشیا کی حقیقت سامنے لارہا ہے۔ تصورکے بدلتے کردار تاریخ کے اس مرحلے پر معنی کی نوعیت بھی بدل دیتے ہیں، معنی اب ترجیحی طور پر کوئی ماورائی ملکیت نہیں بلکہ انسانی ذہن کی ماورائی تخلیق ہے۔ جدید فلسفہ کہتا ہے: ’’تصور‘‘ آدمی کے اندر آسمانی ’شرارہ‘ ہے۔ یہ نظریہ نشاۃ ثانیہ کی انسان پرستی کے کلچر میں پہلے ہی نمایاں ہوچکا تھا۔ وجودیاتی الٰہیات کے سچ پر بشریات کا سچ مقدم ہوچکا تھا۔
اٹھارہویں صدی کے آخر سے انیسویں صدی کے وسط تک، امانویل کانٹ اور جرمن مثالیت پسندوں کے وقتوں میں ’’تخلیقی تصور‘‘ مغربی فکرکا مرکزی دھارا بن چکا تھا۔ کانٹ، نٹشے، اور شیلنگ نے ’’تصور‘‘ کو طویل فلسفیانہ قید سے نجات دلائی۔ انہوں نے ’’تصور‘‘ کو نظریاتی قوت مہیا کی جس نے اسے ’’وجودیت‘‘ اور’’رومانوی‘‘ تحریکوں میں غیر متنازع بالادستی عطا کی۔ پہلی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ ’’تصور‘‘ کسی بخشی ہوئی حقیقت کی نقل درنقل کا چکرنہیں رہا تھا، بلکہ آدمی کے شعورکی تخلیقِ خالص بن چکا تھا۔ اور یہ کہ تصویر حافظے میں محفوظ کوئی جامد شے نہیں رہی تھی، بلکہ متحرک تخلیقی عمل بن چکی تھی۔ جدید فلسفیوں نے تصورکو آدمی کی ایسی صلاحیت قرار دیا جو اصل ’قدر‘ اور’سچ‘ کی دنیا خلق کرسکتی تھی۔ اب آدمی ’’وجود‘‘ پر اختیارکا اعلان کرسکتا تھا۔ مطلب یہ کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے اب آرتھوڈکس ذرائع کی ضرورت باقی نہ رہی تھی۔ ’تصور‘ اب خود اپنا ضامن بن چکا تھا، یعنی ’’تصور‘‘ کا بلا واسطہ تخلیقی عمل وجود میں آچکا تھا۔
کوپرنیکن انقلاب
دورِ جدید میں ’’تصور‘‘ کی مؤثر تعریفِ نو امانویل کانٹ نے کی۔ کتاب “Critique of Pure Reason”(تنقید عقل محض) کی پہلی اشاعت میں کانٹ نے معاصرین میں یہ چونکا دینے والا اعلان کیا کہ ’تصور‘ آدمی کے شعور میں موجود نامعلوم جڑوں سے پھوٹنے والا دوشاخہ ہے: ادراک اور حس۔ اس غیر معمولی دعوے نے روایتی نظریۂ علم کا سلسلہ الٹے قدموں پھیردیا۔ یہ کلاسیکی اور ازمنۂ وسطیٰ کی روایت سے کھلا اختلاف تھا۔ کانٹ نے ’’تصور‘‘ کو حس اور فہم کے درمیان فقط ایک ’’ذریعہ‘‘ کی حیثیت سے نجات دلائی۔ اس نے اعلان کیا کہ ’’تصور یا تخیل‘‘ علم کی لازمی پیشگی شرط ہے۔ کائنات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانا جاسکتا جب تک اُسے پہلے خیال کی تجزیاتی قوت سے تشکیل نہ دے دیا جائے۔
’’تصور‘‘ کی اس حیثیت میں بحالی نے جرمن مثالیت پسندی پر خصوصی اور یورپی رومانوی تحریک پر عمومی طور پر اثرات مرتب کیے۔ کانٹ اپنی اس اہم دریافت کے انقلابی امکانات سے بے خبر نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا کہ ’’تصور‘‘ کی روایت سے آزادی کا مطلب مابعدالطبیعات کی روایتی عمارت کے انہدام سے کم نہ ہوگا، اور یہ معقولیت پسندی فلسفیانہ روایت کی مستقل بنیاد بن جائے گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانٹ اپنے ہی دلائل سے اس قدر محتاط ہوا کہ کتاب کی دوسری اشاعت میں یہ معاملہ مزید تفصیل سے زیربحث لایا، اور ابتدائی دعووں کے ممکنہ خدشات کسی حد تک زائل کرنے کی کوشش کی۔ مگر اُس کی یہ کوشش مغربی فکر سے ’’تخلیقی تصور‘‘ کی محوری اہمیت کم نہ کرسکی۔ کانٹ کے بعد مغربی فکر کی تاریخ میں تصورکی مرکزی حیثیت علم، جمالیات، اور وجود کے جدید نظریات میں برقرار رہی۔
’’تصور‘‘ کی معین حیثیت کا ازسرنو جائزہ کانٹ کے فلسفہ ’’وجود‘‘ سے قریبی تعلق رکھتا تھا۔ روایتی اور کلاسیکی فکر میں ’’وجود‘‘ آدمی کے کُل علم کا ذریعہ تھا۔ حقیقت کا علم دراصل ’’وجود‘‘ کی مناسب پیشکش کے مترادف تھا۔ اسے ایک عام دانش سمجھ لیا گیا تھا کہ آدمی کا فہم خارجی اور تجریدی حقیقت سے بالواسطہ طور پر ہم آہنگ ہے۔
’’وجود‘‘ کائنات کا مرکز تھا اور انسانی ذہن ایک سیارے کی مانند اس کا طواف کرتا تھا۔ کانٹ نے یہ تصور الٹ دیا۔ اُس نے فلسفے میں کوپرنیکن انقلاب برپا کردیا، انسانی ذہن کوکائنات کا مرکز قرار دے دیا۔ ’’وجود‘‘ اب معنی کے ’ماورائی اصل‘ کے طور پر نہیں دیکھا جارہا تھا، بلکہ یہ اب ایک انسانی موضوعیت یا زیادہ وضاحت سے کہا جائے توانسانی تصور کی تخلیق قرار دیا جارہا تھا۔ کانٹ نے کہا ’’وجود اصل کی خبر دینے والا نہیں… بلکہ صرف شے کی جگہ متعین کرنے والا ہے‘‘۔ اس کوپرنیکن انقلاب سے مغربی فکر میں فیصلہ کن موڑ آیا اور قدیم وجودیاتی الٰہیاتی تعریفیں بدل کررہ گئیں، کہ جن میں ’’وجود‘‘ ’وسیلۂ خدا‘ یا ’اصولِ اول‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مختصراً یہ کہ کانٹین انقلاب نے اس جدید خیال کی آبیاری کی کہ ’’وجود‘‘ اول اور آسمانی ماورائیت نہیں کہ جوآدمی کو معنی فراہم کرتی ہو، بلکہ یہ آدمی کی اپنی تخلیق ہے جو’ماورائی قوتِ تصور‘ کا نتیجہ ہے۔ یوں تصور اب نقل یا نقل در نقل کا نہ ختم ہونے والا چکرنہیں رہا تھا۔ جیسا کہ شاعر ییٹس “Oxford book of modern verse” کے تعارف میں کہتا ہے کہ آدمی کی قوتِ ’تصور‘ قدیم تاریخ کی زنجیریں توڑ دیتی ہے اور جدید جمالیات کا رستہ کھولتی ہے، یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب ’روح خود سے بغاوت کردیتی ہے، خود اپنی ہی نجات دہندہ بن جاتی ہے، ایک ایسی سرگرمی کہ آئینہ چراغ میں ڈھل جاتا ہے‘۔
عبوری تحریکیں
کانٹ کی انقلابی دریافت کے گہرے اثرات بعد میں آنے والوں پرپڑے۔ مغربی فکر کی کئی لہریں اٹھیں، تیرہویں اور چودہویں صدی میں مکتبہ متکلمین کے اسلوب تحقیق اورکانٹین طریقہ تحقیق کہ جواٹھارہویں صدی کے اواخرمیں ابھرا۔ اس سے قبل کہ ہم ’تنقید عقلِ محض‘ کی دونوں اشاعتوں میں ’’تصور‘‘ پر کانٹ کی رائے کا تجزیہ کریں، ایک سرسری نظر چند اہم ترین نظریات پرڈالیں گے۔ یہ وہ نظریات ہیں جنہوں نے کانٹین فلسفے کی کسی نہ کسی صورت پیش بینی کی۔
نشاۃ ثانیہ کی تحریکِ تصوف
نشاۃ ثانیہ (Renaissance)میں کئی صوفیانہ اور ساحرانہ تحریکیں چلیں کہ جنہیں ’تخلیقی تصور‘ کی جرمن مثالیت پسندی سمجھنے کے لیے مثالوں کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ تحریکیں زیادہ ترچھوٹے طبقات تک محدود رہیں، کم از کم اُس وقت تک جب تک شیلنگ اور رومانیت پسندوں نے انہیں وسیع دائرے تک نہ پھیلادیا، تخیل کی منقلب کردینے والی قوت سے تحریرکا اہم حصہ تیار نہ کردیا۔ نشاۃ ثانیہ میں پیرا سیلسس (Paracelsus) اور (Bruno) اور برونو ان صوفیانہ رجحانات کے انتہائی دلچسپ وکیل تھے۔ پیراسیلسس نے ’’تصور‘‘ کی کیمیاوی تھیوریز پیش کیں، وہ بیان کرتا ہے کہ ’سورج کی کرن محسوس نہیں کی جاسکتی مگر پورا مکان جلاکر راکھ کرسکتی ہے‘۔ اور وہ اس استعارے کی پیروی میں جوکوپرنیکن انقلاب میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے، یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’تصور‘‘ آدمی کا وہ اظہار ہے جسے سورج کی مانند ہرشے تک رسائی کی خواہش کا حق حاصل ہے۔ وہ پکار اٹھتا ہے کہ ’’تصور‘‘ آدمی کے اندرگردش میں رہنے والے سورج کے سوا کیا ہے! جب پیراسیلسس اور اُس کے شاگرد ’’تصور‘‘ کی ساحرانہ قوتوں سے کام لیتے ہیں، وہ آدمی کی تخلیقی فطرت کے جدید رجحان کی پیش بینی کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کوپرنیکس بطلیموسی نظریۂ کائنات کو الٹ کررکھ دیتا ہے، ساحر روایتی نظام علمیات کو پلٹادیتے ہیں کہ جس نے ’حقیقت‘ کوآدمی کی پہنچ سے باہرماروائی سورج پر معین کردیا تھا۔ اب ’’تصور‘‘ آدمی کے اندر بھڑکتا آسمانی شعلہ بن چکا تھا۔ اب پرومیتھیئن کی چوری کا داغ مٹ چکا تھا، اورآدمی میں قوتِ تخیل کی دریافت کائناتی روشنی اورقوت کا ذریعہ بن چکی تھی، یہ موضوعیت کی بالادستی کی توثیق کرنے والی ابتدائی کوششیں تھیں۔ یہ ماوراالطبیعات سے آدمی کی خلاّقیت کی جانب بڑھتا رجحان تھا۔ پیرا سیلسس اور اُس کے کیمیاوی شاگردوں کے لیے ’’تصور‘‘ ایک ایسا دیوتا تھا جوکنواری فطرت کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اور اُسے رحمتوں کے بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔
نشاۃ ثانیہ کی ایک اور عبقری شخصیت اٹھارہویں صدی کا اطالوی مفکر جادانو برونو ہے۔ برونو نے ’’تصور‘‘ کو باطن کی صوفیانہ معرفت ثابت کرنے کی کوششیں کیں۔ یہ غناسطیت کے ملحدانہ نظریات سے عبارت تھیں۔ برونو نے ’’تصور‘‘ کوآدمی کا ’ذریعہ تخلیق‘ قراردیا اور اسے فکرکی ’عرفانی صورتوں‘ سے واضح کیا۔ برونو نے اس کے لیے spiritus phantasticusکی اصطلاح استعمال کی، یعنی ’روحانی تخیلات‘۔ یہ فانی انسان کواس قابل بناتے ہیں کہ اپنی حالت کو ماورا کائنات کے پوشیدہ نظم سے ہم آہنگ کرسکے۔ وہ کہتا ہے کہ مادی دنیا آدمی کی تصوراتی قوت کے سہارے کائنات کے پوشیدہ ڈیزائن سے ہم آہنگ کی جاسکتی ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے بہت سے غناسطی برونو کے ہم عقیدہ تھے۔ ان میں ایک اہم نام Marsilio Ficinoکا ہے۔ اس عقیدے کا لبِ لباب یہ ہے کہ آدمی کا ’’تصور‘‘ روحِ مقدس کی سواری ہے۔ یہاں تک کہ آدمی کے مادی جسم کو بھی روحانی تخیل کی خارجی تخلیق باور کیا گیا۔ برونو کا اصرار تھا کہ ’’تصور‘‘ روح کی پہلی پوشاک ہے، کہ جس سے ’دلیل‘ اور’جسم‘ پیدا ہوتے ہیں۔ برونو کے لیے، بقول ایک مبصر ’تصور ایک زندہ، ذاتی، اورآرٹ کا مثبت جوہر ہے‘۔ اور یہاں تک بھی کہا گیا کہ برونو اور فیشینو کے نظریات ایک قسم کی انسان پرست تحریروں کو ازسرنو پیش کرتے ہیں کہ جن میں افلاطونی صوفیانہ وژن کی بازگشت ہے۔
یقیناً یہ متاثرکن ’’تصور‘‘ آسمانی سے زیادہ انسانی ہے۔ برونو کی یہ فکرچرچ کی نظر میں قابلِ مذمت ٹھیری: اُسے زندہ جلادیا گیا۔ اُس کا نظریۂ ’’تصور‘‘ اُس کے اپنے عہد میں مغربی فلسفے پرکوئی براہِ راست اثر ڈالنے میں کامیاب نہ ہوا۔ مگر اس کے باوجود انسانی تصور کی صوفیانہ تھیوری کی بازگشت مسلسل سنائی دیتی ہے۔ گوکہ ایسے نظریات فطری طور پرمشکل ہی سے قابلِ مشاہدہ ہوسکتے ہیں، مگر کئی مبصرین، جیسے ژاں ساروبنسکی نے اس سلسلے میں کئی کوششیں کی ہیں۔ بعد کے جرمن مثالیت پسندوں، جیسے شیلنگ نے صوفیانہ اورساحرانہ ترکہ مثبت انداز میں بھرپور طور پرقبول کیا ہے۔
ڈیکارٹ کا فلسفہ
دوسرا عبوری مرحلہ ڈیکارٹ کے فلسفے کا ہے، یہ متکلمین اور جرمن مثالیت پسندی کے درمیان کا ہے۔ یاد رہے ڈیکارٹ پہلا جدید فلسفی ہے جس نے متکلمانہ تعلیمات پرکاری ضرب لگائی۔ اُس کے نظریےCOGITO نے مغربی فہم میں بڑی تبدیلی پیدا کی جس میں معنی کا ذریعہ آدمی کی موضوعیت کو قرار دیا گیا، اور ماورائی وجود کی حقیقت کی معروضی دنیا غیر اہم ٹھیری (ڈیکارٹ نے طبیعات اور مابعدالطبیعات میں بطور ذریعہ علم اورحقیقت، حدِّ فاصل قائم کردی۔ مترجم)۔ ڈیکارٹ کی دلیل تھی کہ ’سچائی‘ موضوع کی اپنی فکر سے منعکس ہونے والی ہم آہنگی سے پھوٹتی ہے۔ انسانی ذہن کو معروضی وجود پر ترجیح دے دی گئی: ’میں سوچتا ہوں لہٰذا میں ہوں‘۔ اس فارمولے کی بنیاد پر ڈیکارٹ نے آدمی کو ’فطرت کا مالک اورقابض‘ باور کیا۔ باوجود اس کے کہ ڈیکارٹ خدا کے وجود پردلائل مہیا کرتا ہے، اُس کا فلسفہ جدیدیت کے پراجیکٹ میں ’انسان پرست مابعدالطبیعات‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔ اگرچہ ڈیکارٹ اور اُس کے شاگرد جدید انسان پرستی (Humanism) کی راہ ہموار کرتے ہیں، وہ ’’تصور‘‘ کے خلاف روایتی تعصب میں گھرے بھی رہتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وہ آدمی کی موضوعی مرکزیت پر زور دیتا ہے، ڈیکارٹ ’’تصور‘‘ کا وصول شدہ نظریہ ہی آگے بڑھاتا ہے کہ یہ ’ذہن اورجسم کے درمیان مصالحت کار‘ ہے۔ مزید یہ کہ ڈیکارٹ کی ’عقل پرستی‘ سے وابستگی نے اُسے اس سوچ کی تحریک دی کہ تصویر حسی تجربے کے لیے ایک نام نہاد مادی پناہ گاہ سے زیادہ کچھ نہیں، اور یہ درحقیقت خودشناسی کو دھندلا دیتی ہے۔ تصور کرنے کا عمل ناگہانی مادی خطاؤں سے داغ دار رہا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب ڈیکارٹ اپنی انسان پرستی کے اثبات میں ’جدید‘ تھا وہ ’’تصور‘‘ کے حوالے سے ماقبل جدیدکے منفی رجحان میں ہی جی رہا تھا۔ تصور اب تک نقل در نقل ہی کے طریقہ تحقیق میں واضح کیا جارہا تھا۔ اسے ناقابلِ بھروسا سلسلۂ نقل ہی باور کیا جارہا تھا۔ جیسا کہ روسو کا مشہور قول ہے کہ ’ڈیکارٹ کے فلسفے نے شاعری کا گلاکاٹ دیا ہے‘۔ ڈیکارٹ کے فلسفے کی ’’تصور‘‘ دشمنی سترہویں صدی کے عقل پرست فلسفیوں لائبنیز، اسپائنوزا، اور میلبرانش نے آگے بڑھائی۔ اپنے مضمون “On The Improvement of the Understanding” میں اسپائنوزا نے اعلان کیا کہ ’تصوراتی خیالات‘ ’مدلل خیالات‘ سے پست ہوتے ہیں کیونکہ مدلل خیالات ’ممکن‘ سے منطقی طور پر نسبتاً قریب ہوتے ہیں۔ اور تب سے تصور اس قابل نہیں رہا کہ موجود اور غیر موجود اشیا میں تمیز کرسکے۔ یہ ذہن کوتضاد کی جانب لے جاتا ہے اورابدی سچائی سے دور کردیتا ہے۔ اسپائنوزا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ’’تصور‘‘ ’’آزادی‘‘ سے مطابقت میں نہیں ہے: آزادی صرف اُس وقت حاصل کی جاسکتی ہے جب ذہن ماضی، حال اور مستقبل کی تصوراتی بھول بھلیوں سے نکل آئے، اور یہ دریافت کرلے کہ ’’وجود‘‘ دلیل کی منطق سے قائم ہے۔ ’’تصور‘‘ کے ساتھ لائبنیز کا رویہ بھی ڈیکارٹ کے فلسفے پر مہرِ تصدیق ثبت کررہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خواہ تصورکتنا ہی دانش افروز معلوم ہو، یہ کبھی منطقی ضرورت کے معقول درجے پر متمکن نہیں ہوسکتا۔ لائبنیز “New Essays in Human Understanding” میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ تصور ہمیشہ دلیل میں کمزوری دکھاتا ہے، یہ ’’وجود‘‘ کی بابت بھی سچ سے قدرے دور رہتا ہے۔ ہم یہاں ڈیکارٹ کے فلسفے کا یہ اثر دیکھتے ہیں کہ آدمی خود غوروفکر کرسکتا ہے اس لیے اسے شبیہوں کے ذریعے سچ تک رسائی کی ضرورت نہیں۔ اس عقلیت پرست نظریے کو دیگر بہت سے مفکرین نے بھی آگے بڑھایا ہے، خاص طور پر نشاۃ ثانیہ کے آخر میں اور روشن خیال عہد کے آغاز میں۔ کیمبرج کے مثالیت پسند جان اسمتھ نے بھی تصور کی مذمت کی ہے، اسی طرح گراوینہ نے اسے جادوگری قرار دیا ہے اور مراتورین اسے ایک سرور کی حالت بیان کرتا ہے کہ جیسے کوئی نشے میں ہو۔ یہاں تک کہ مفکرینِ جمالیات نے اپنی تھیوریز میں تصورکی ’منفی‘ تعریف پیش کی ہے۔ تصور کے بارے میں یہ رویہ جو ڈیکارٹ کے فلسفے سے پیدا ہوا، بہت سنجیدہ نوعیت کا تھا۔ یہاں تک کہ جمالیات کے فرانسیسی عالم کوروس نے اپنے فلسفے میں تصور سے نفرت کا اظہار کیا ہے اور اس انسانی وصف کو ’حیوانی‘ قرار دیا ہے۔ اس نے مکمل طور پر شاعری کی مذمت نہیں کی لیکن کہا ہے کہ شاعری کی اجازت صرف اس صورت میں ہونی چاہیے وہ بامقصد ہو، مدلل ہو۔ یوں ڈیکارٹ کے فلسفے میں منطقی دلیل پر اتنا زور دیا گیا کہ شاعری اور آرٹ کے بارے میں سنجیدہ فکر کا راستہ دشوار ہوگیا، بلکہ مسدود ہوکر رہ گیا۔ ڈیکارٹ کی عقلیت پرستی نے انسان کی مدلل موضوعیت کو مقدم بنادیا۔ (جاری ہے)