’’قصہ چہاردرویش‘‘ تو دنیائے ادب میں ایک تہلکہ انگیز کتاب تھی۔ امیرخسرو جیسے عالمی شہرت کے حامل قلم کار کے اس شاہکار کو جو شہرت ملی، وہ مثالی تھی۔ کہاں صاحبِ قصہ چہار درویش اور کہاں یہ کوتاہ قلم بے مایہ درویش۔ دوستوں اور بزرگوں کی دیرینہ فرمائش تھی کہ میں ضرور اپنی آپ بیتی لکھوں۔ دوستوں کے احترام کے باوجود میں ہمیشہ ان کی فرمائش کو غیر اہم سمجھ کر ٹالتا رہا۔ اب کچھ عزیز نوجوانوںاور ایک بزرگ صحافی دوست کے اصرار پر اس نامانوس صحرا میں نکل کھڑا ہوا ہوں۔ دیکھیے کہاں پہنچتا ہوں۔
میں ہوں اور دشتِ غم کا سناٹا
کوئی آواز دور دور نہیں
شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور ازحد رحم فرمانے والا ہے۔ میری پیدائش 17اکتوبر 1945ء ضلع گجرات کے دیہاتی علاقے میں چھوٹے سے گائوں چک میانہ (جوڑا) میں ہوئی۔ میرے دادا جان میاں فتح علی گائوں کے نمبردار اورپورے علاقے میں معروف و بااثر شخصیت تھے۔ دادا جان زمیندار تھے اور اعلیٰ نسل کی گھوڑیاں، بہترین درجے کی گائیں، بھینسیں اور بیلوں کی جوڑیاں رکھتے تھے۔ بچپن میں مجھے دادا جان کی مجالس، چوپال اور تنازعات کے فیصلوں کی محفلیں دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے فیصلوں کے خلاف کبھی کسی فریق نے شکایت نہیں کی تھی۔ میں اگرچہ ان کی وفات کے وقت آٹھ سال کا نوخیز لڑکا تھا، مگر مرحوم کی بہت سی باتیں مجھے آج بھی یوں یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ دادا جان کا اپنے ننھیالی، ددھیالی اور سسرالی رشتے داروں کے علاوہ ایک بہت وسیع ذاتی حلقۂ احباب بھی تھا جو ضلع گجرات ہی نہیں دیگر قریبی اضلاع گوجرانوالہ، جہلم، سرگودھا، حتیٰ کہ شیخوپورہ تک پھیلا ہوا تھا۔
دادا جان دنیوی عزت، سماجی اثررسوخ اور مالی خوشحالی کے ساتھ اللہ کے خصوصی فضل سے دینی لحاظ سے بھی بہت نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ کی تعلیم واجبی سی تھی۔ صرف قرآن مجید ناظرہ پڑھے ہوئے تھے، مگر دینی شعائر کی پابندی مثالی تھی۔ 1931-32ء میں آپ نے بحری جہاز سے سفر کرکے حج کی سعادت حاصل کی۔ نماز، روزے کی نہ صرف خود پابندی کرتے تھے بلکہ دیگر لوگوں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔ بزرگوں سے سنا تھا کہ پورے گائوں میں آپ کی زندگی میں رمضان کے دوران کسی کی مجال نہ ہوتی تھی کہ وہ کھلے عام روزے کی بے حرمتی کرے۔ چھوٹے بچے بھی گھر سے باہر کھانے پینے سے پرہیز کرتے تھے۔ آپ اپنے مال کی زکوٰۃ، زرعی پیداوار کا عشر باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ عیدِ قربان پر ہمیشہ اپنے مویشیوں میں سے ایک بہترین جوان گائے کی قربانی دیتے تھے۔ اس گوشت کا تیسرا حصہ گھر میں آتا، بقیہ دو حصے فقرا و درویش اور احباب و خویش میں تقسیم کردیے جاتے۔ آپ کی وفات کے بعد بھی کئی سالوں تک والدِ محترم نے یہی روایت قائم رکھی۔
ہمارے خاندان کے جدّامجد حضرت بابا عبدالخالقؒ پہاڑی علاقوں، مستند روایات کے مطابق ٹلہ پہاڑ ضلع جہلم سے ضلع گجرات کے اس علاقے میں تقریباً دو ڈھائی صدی قبل آئے تھے۔ آپ نے یہاں اپنا گائوں بھی بسایا اور غیرآباد زمینوں کے وسیع قطعات کو بھی آباد کیا۔ آپ کا نام میاں عبدالخالق تھا اور گوجر قبیلے کی شاخ آوانہ سے تعلق تھا۔ آپ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ’’گوجر چودھری بھی کہلاتے ہیں، بعض علاقوں میں سردار اور ملک بھی اور میاں بھی، ان میں سے جو دینی و دنیوی علوم حاصل کرلیں، انھیں میاں کہا جاتا ہے جو زیادہ معزز پہچان اور شناخت ہے۔‘‘ میاں کی نسبت سے عرض ہے کہ ہمارے گائوں کے گردونواح میں کئی دیہات میں گوجروں کے مختلف دیگر قبیلے بھی میاں کہلاتے تھے۔ کولیاں شاہ حسین کے میاں افضل حیات (سابق وزیراعلیٰ صوبہ پنجاب) کی فیملی کے لوگ کولی گوجر ہیں، مگر میاں کا لاحقہ ہی اپنے نام کے ساتھ لگاتے ہیں۔ بیکنانوالہ کے چیچی گوجر بھی میاں کے نام سے مشہور ہیں۔ قریبی گائوں چنن، گکھڑ، شیخوچک، چکوڑا، وڑائچانوالہ، میانہ چک بھرگڑ، چکوڑی بھرگڑاں، محل، برنالی، بن کالس، چک شیر محمد اور دیگر کئی دیہاتوں میں بّرے، گورسی، مہیسی، بھرگڑ اور کالس وغیرہ، گوجر قبائل کے لوگ میاں کہلاتے ہیں۔
ہمارے جدِّ امجد کا نام میاں عبدالخالق تھا اور اسی حوالے سے آپ کی اولاد چودھری کے بجائے میاں ہی کہلاتی ہے۔ آپ نے اسی نسبت سے اپنے گائوں کا نام ’’چک میانہ‘‘ رکھا، جب کہ دیگر کئی دیہات کا نام اس علاقے میں ’’میانہ چک‘‘ ہے۔ آپ کی علمی اور دینی شخصیت کی وجہ سے کئی دیہاتوں میں لوگ آپ کے عقیدت مند اور مرید بن گئے۔ آپ نے اپنی ایک دینی درسگاہ بھی بنائی جس میں قرآن اور عبادات کی تعلیم دی جاتی تھی۔ چک میانہ سے متصل گائوں ’’گھُرکو‘‘ پورے کا پورا ان کا مرید ہوگیا۔ اس گائوں کے لوگوں کو خود میں نے بچپن میں اپنی چوپال میں یا اپنے گھر کے لان اور بیٹھک میں پیڑھیوں پر بیٹھتے دیکھا۔ وہ ہمارے بزرگوں کے ساتھ چارپائیوں پر نہیں بیٹھتے تھے۔ بچپن میں جب میں یہ منظر دیکھتا تو مجھے بہت عجیب بلکہ افسوس ناک لگتا۔ سفید داڑھیوں والے بزرگ چارپائیوں پر کیوں نہیں بیٹھتے؟ معلوم ہوا کہ وہ اسے بے ادبی سمجھتے ہیں کہ اپنے پیروں (مرشدوں) کے برابر بیٹھیں۔ مجھے اس چھوٹی سی عمر میں بھی یہ عمل مضحکہ خیز لگتا تھا۔
مجھے وہ منظر بھی یاد ہے جب ہمارے تایا جان حافظ غلام محی الدین مرحوم مختلف دینی مدارس اور جامعات سے فارغ التحصیل ہوکر عالم دین بن گئے تو انھوں نے پیری مریدی کے اس سلسلے کو مکمل ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ ایک بھرپور مجلس میں، دادا جان اور خاندان کے دیگر بزرگان و جوانان کی موجودگی میں ایک دن انھوں نے بڑے ادب و احترام اور محبت کے ساتھ مریدوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’آپ اور ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں، نہ ہم آپ سے اونچے ہیں نہ آپ ہم سے نیچے ہیں، ہم سب برابر ہیں، آپ ہمارے پاس آیا کریں، ہمارے ساتھ بیٹھا کریں، خوشی اور غم میں اسی طرح شرکت کیا کریں جو پہلے سے چلن ہے۔ آپ جو جانور ہماری خدمت میں پیش کیا کرتے ہیں، وہ رسم بالکل ختم کردیں۔‘‘ آپ کی یہ گفتگو مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی۔
تایا جان کی یہ باتیں سن کر دادا ابو نے کوئی تبصرہ تو نہ کیا، مگر مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ان باتوں پر بہت خوش ہورہے ہیں۔ البتہ مریدین قدرے مایوس نظر آرہے تھے۔ یہ گوجروں کے میلو قبیلے کے لوگ تھے۔ ان میں سے ایک بزرگ بابا نور علی میلو نے کہا: ’’حافظ جی! کیا ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے کہ آپ ہمیں مرید ماننے سے انکار کررہے ہیں! ہمارے بزرگ آپ کے بزرگوں کے ساتھ ہمیشہ پوری وفاداری کے ساتھ چلتے رہے ہیں، ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے ہیں، اور ہم بھی اسی ڈگر پر آج کے دن تک قائم ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ ہمارا یہ باہمی تعلق اور نسبت ٹوٹنی نہیں چاہیے۔‘‘ اس طویل گفتگو کا جو کئی دن مختلف نشستوں میں چلتی رہی، محض یہ خلاصہ ہے۔ ایک دن ان بزرگوں نے یہاں تک کہا کہ آپ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو ہمارے لیے مختص کردیں، ہم اس کو اپنا پیر مان لیں گے اور اس کے ساتھ ہر طرح کی وفاداری اور اطاعت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ روایتی پیری مریدی کا یہ سلسلہ بالآخر ختم ہوا اور ان لوگوں کو میں نے دیکھا کہ بزرگوں کی خدمت میں آتے تو ان کے ساتھ چارپائیوں پر بیٹھنے لگے، مگر اب بھی وہ کبھی سرہانے کی جانب یا درمیان میں نہ بیٹھتے تھے بلکہ پائنتی کی طرف بیٹھا کرتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے روایتی معاشرے میں یہ بھی ایک چھوٹا نہیں بلکہ بڑا انقلاب تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ان لوگوں کی اولاد میں اکثر لوگوں کے عقائد خالص توحید پر استوار ہیں۔ کئی لوگ جماعت اسلامی کے متفق اور ارکان بھی ہیں۔ انہی کے اندر سلفی (اہل حدیث) مسلک کے لوگ بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
بابا عبدالحق کی اولاد سے ہمارے خاندان کی تین شاخیں تھیں۔ ہماری شاخ وڈکے (بڑے، وڈیرے) کہلاتی تھی۔ میری ننھیالی شاخ شرقی (چڑھدے والے) اور تیسری شاخ پربتی (شمالی) کہلاتی تھی۔ ان میں سے دو آپس میں زیادہ قریبی تعلقات رکھتی تھیں، یعنی باہمی رشتے ناتے کرتی تھیں۔ ایک شاخ کے بزرگ اور سربراہ حافظ اللہ دین مرحوم تھے اور دوسری کے میاں محمد مصطفی مرحوم۔ اوّل الذکر شاخ میں میرا ننھیال اور ثانی الذکر میں میرا ددھیال ہے۔ حافظ اللہ دین کی اولاد میں ان کی طرح حفاظ کی بڑی تعداد تھی۔ ان کے تین بیٹوں میں سے دو حافظ تھے۔ حافظ سلطان علی اور حافظ غلام علی۔ حافظ سلطان علی مرحوم میری والدہ مرحومہ کے دادا تھے۔ ان کے بیٹے میرے نانا ابو بھی حافظ تھے (حافظ فضل الٰہی)۔ حافظ غلام علی مرحوم کے بیٹے (میرے استاد محترم) حافظ جان محمد کو بھی جیّد حافظ ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ اسی طرح آگے ان سب کی اولاد میں بھی حفاظ کا سلسلہ جاری تھا۔
اس دور میں میرے ددھیالی خاندان میں کوئی حافظ نہیں تھا۔ میاں محمد مصطفی نمبردار تھے اور ان کے دو بیٹے میاں محمد اور میاں فتح علی بہت دانش مند، قابل اور کامیاب انسان تھے، مگر دونوں محض ناظرہ قرآن مجید پڑھے ہوئے تھے۔ میرے دادا جان میاں فتح علی اپنے بھائی اور کزنز میں سے عمر میں سب سے چھوٹے تھے، مگر دنیوی معاملات کے ہر میدان میں شہرت و رسوخ کے لحاظ سے اپنے دیگر سب بھائیوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ البتہ آپ حفظ قرآن سے محرومی پر بہت کڑھتے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کی اولاد میں زیادہ سے زیادہ حفاظ ہوں۔ اللہ نے ان کی یہ خواہش ایک حد تک ان کی زندگی میں پوری کی، مگر ان کی زندگی کے بعد تو الحمدللہ آج تک ان کی اولاد میں حفاظ کی ایک بہار ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس نعمت کا اجر مرحوم کی روح کو ملتا رہتا ہوگا۔ اللہ ان سب حفاظ کو سلامت رکھے، قرآن پاک سناتے رہنے کی سعادت بخشے اور اس پر مکمل عمل کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ برسبیل تذکرہ میرے ننھیال میں بھی اللہ کے فضل سے یہ فیضِ عام حسب ِسابق جاری و ساری ہے۔
دادا جان کی شادی قریبی گائوں گکھڑ کے نمبردار میاں احمد کی بیٹی سے ہوئی۔ یہ خاندان بھی بہت معزز اور بااثر تھا۔ اللہ نے دادا جان کو یکے بعد دیگرے تین صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ دادا جان کی فطری خواہش تھی کہ اللہ ان کو جانشینی کے لیے بیٹے بھی عطا فرمائے۔ چند سالوں تک مزید کوئی اولاد نہ ہوئی تو آپ نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ظاہر ہے کہ آپ کو رشتہ دینے کے لیے علاقے کے کئی معزز لوگ تیار تھے۔ ہمارے بزرگوں میں اکثر نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں، اس لیے یہ کوئی تعجب خیز سوچ نہیں تھی۔ ہمارے پردادا میاں مصطفی کی تین بیویاں تھیں۔ دو میں سے اولاد تھی۔ ننھیالی خاندان کے بزرگ، میری والدہ کے پردادا حافظ احمد دین کی بھی دو بیویاں تھیں۔ دونوں سے اولاد تھی۔ دادا جان اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔ آپ اس معاملے میں غوروفکر کررہے تھے کہ ایک دن گھر میں آئے تو اپنی اہلیہ (میری دادی جان معصوم بی بی) اور بیٹیوں (میری تینوں پھوپھیوں زینب بی بی، نیک بی بی، حیات بی بی) کو دیکھا تو دل میں اچانک ہلچل مچ گئی۔
میری بڑی پھوپھی جان یہ واقعات تفصیلاً مجھے بچپن میں سنایا کرتی تھیں۔ ان کے بقول دادا جان نے خود بعد میں بتایا کہ میں نے اس روز سوچا یہ تین معصوم اور پیاری بچیاں اور ان کی نہایت نیک نہاد، دانش مند، مہمان نواز، اطاعت شعار ماں، میرے اس عمل سے غمزدہ اور پریشان ہوں گی تو مجھے اللہ کی رضا اور دل کا سکون کیسے مل سکے گا! چناںچہ دوسری شادی کا خیال ترک کردیا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دو سال بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا دیا جو بہت تندرست و توانا اور خوب صورت تھا۔ اس کا نام احمد دین رکھا گیا۔ اس کے دوسال بعد اللہ نے دوسرا بیٹا دیا جس کا نام غلام محی الدین رکھا گیا۔ پھر دوسال بعد تیسرا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فیض محی الدین رکھا گیا۔ بڑے بیٹے نے دس سال کی عمر میں قرآن مجید کا بیشتر حصہ یاد کرلیا تھا۔ پھوپھی جان مجھے بتایا کرتی تھیں کہ وہ بہت خوب صورت آواز میں تلاوت کیا کرتے تھے۔ اللہ کو منظور نہیں تھا کہ وہ پورا قرآن پاک حفظ کر پاتے۔ اچانک بیمار ہوئے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مرحوم اس عمر میں بھی گھوڑی پر جم کر بیٹھتے اور اسے کبھی کبھار خوب دوڑاتے بھی تھے۔
دادا جان کے دوسرے بیٹے غلام محی الدین صاحب نے قرآن پاک مکمل حفظ کرلیا، جب کہ تیسرے بیٹے (میرے والد گرامی) فیض محی الدین بہت ذہین اور اسکول میں اسکالرشپ ہولڈر ہونے کے باوجود قرآن پاک حفظ نہ کرسکے۔ انھوں نے ناظرہ قرآن پاک پڑھا اور گھڑسواری کا خوب مزا اٹھاتے رہے۔ دونوں بھائیوں نے عصری تعلیم کے میدان میں مڈل تک اپنے گائوں میں اعلیٰ نمبروں کے ساتھ تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے لیے زمیندار ہائی اسکول گجرات میں داخل کرائے گئے جہاں ہوسٹل میں مقیم تھے۔ دونوں بھائی اسکالرشپ ہولڈر تھے۔ چھ مہینے کے بعد ہمارے دادا جان نے ان دونوں کو اسکول سے اٹھا لیا۔ اس کی وجہ کیا تھی میں نے تفصیلاً اپنے والد صاحب کے حالاتِ زندگی میں بیان کی ہے۔ (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلددوم، صفحہ160تا 208)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو انگریز کی ملازمت میں بھیجنے کے قائل نہیں تھے۔ دوسرے آخری عمر میں اللہ نے بیٹے دیے، لہٰذا ان سے دوری آپ کو گوارا نہیں تھی۔ والد صاحب نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں میرے اس سوال پر کہ آپ اتنے ذہین تھے اور وسائل بھی میسر تھے، پھر مڈل سے آگے تعلیم کیوں نہ حاصل کرسکے؟ فرمایا: ’’ہمارے والد محترم نے ہم دونوں بھائیوں کو زمیندار اسکول میں نویں کلاس میں داخل کرایا، مگر کچھ ہی عرصے کے بعد حکم دیا کہ اس تعلیم کو چھوڑو اور گھر آجائو۔ ہم واپس آئے تو سوال و جواب ہوئے۔ فرمانے لگے کہ (قصبہ) ڈنگہ کے بڑے زمیندار چودھری سرور جو میرے دوست اور علاقے کے معروف چودھری تھے، ان سے ملنے کے لیے میں ایک بار گیا۔ وہ بوڑھے اور بیمار بھی تھے۔ ملاقات کے دوران فرمانے لگے: ’’میرے بیٹے پڑھ لکھ کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ ایک امرتسر میں اور دوسرا لاہورمیں اپنی کوٹھیاں بنا چکے ہیں۔ انھوں نے ایک الگ دنیا بسا لی ہے۔ مجھے اس بڑھاپے میں نوکروں اور خادموں کے حوالے کردیا ہے۔
میاں صاحب! میں آپ کو کیا بتائوں، اپنا پیٹ ننگا کرنے والی بات ہے۔ رات کو پیشاب کے لیے کئی بار اٹھنا پڑتا ہے، نوکروں کو آوازیں دیتا رہتا ہوں، مگر وہ سنتے نہیں، اور اگر رات کو انھیں ڈنڈے سے اٹھانے میں کامیاب ہوجائوں تو مجھے درشتی کے ساتھ دھکے دیتے ہوئے اِدھر اُدھر کرتے ہیں۔ جب میں اپنے بیٹوں کو بتاتا ہوں تو وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے میاں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ اب جائوں تو جائوں کہاں اور کروں تو کروں کیا؟‘‘
دادا جان کو انگریزوں سے شدید نفرت تھی اور ان کی ملازمت کو جائز بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ایک یہ وجہ، اور دوسری چودھری سرور کی صورتِ حال نے ان کو اس بات پر مجبور کردیا کہ اپنے بیٹوں کو مزید تعلیم دلانے کے بجائے اپنے پاس رکھیں۔
(جاری ہے)