پشاور کی 5 قومی اور صوبائی اسمبلی کی 13 نشستوں پر کُل 21 لاکھ مرد و خواتین ووٹر 8 فروری کے عام انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان نشستوں پر مجموعی طور پر 358 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہونے جارہا ہے جن میں سے 205 امیدوار آزاد حیثیت میں قسمت آزمائی کررہے ہیں جن میں پی ٹی آئی کے امیدوار بھی شامل ہیں۔ پشاور سے قومی اسمبلی کے 5 حلقوں پر 92، جبکہ صوبائی اسمبلی کی 13 نشستوں کے لیے 254 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سب سے زیادہ پی کے 81 پر 37، جبکہ سب سے کم پی کے 74 پر صرف 13 امیدوار انتخاب لڑیں گے۔ ریٹرننگ افسران کی جانب سے جاری فارم 33 کے مطابق پی کے 72 سے 16 امیدوار میدان میں ہیں جن میں آزاد امیدوار اور سابق ڈپٹی اسپیکر محمود جان، جماعت اسلامی کے افتخار احمد، عوامی نیشنل پارٹی کے عزیز غفار خان، جمعیت علماء اسلام کے غزن خان اور پیپلز پارٹی کے سابق اسپیکر صوبائی اسمبلی کرامت اللہ چغرمٹی شامل ہیں۔ پی کے 73 سے بھی 16 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے ارباب وسیم حیات، جماعت اسلامی کے سید شیر شاہ، جمعیت علماء اسلام کے مولانا عبدالحسیب حقانی، مسلم لیگ (ن) کے فضل اللہ دائودزئی، پیپلز پارٹی کے محمد جمیل، اے این پی کے نسبت اللہ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ علی زمان شامل ہیں۔ پی کے 74 سے 13 امیدوار میدان میں ہیں جن میں سابق رکن اسمبلی ارباب جہانداد، مسلم لیگ (ن) کے ارباب افضل اکبر، جمعیت علماء اسلام کے اعجاز محمد، جماعت اسلامی کے حمد اللہ جان اور پیپلز پارٹی کے ملک طہاش خان شامل ہیں۔ پی کے 75 پر 16 امیدوار رہ گئے ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کے ارباب غلام فاروق، عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب محمد عثمان، سابق صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سید محمد اشتیاق ارمڑ، تحریک لبیک کے سید مظفر شاہ، جماعت اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی صابر حسین اعوان، پیپلز پارٹی کے داؤد برکی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ملک شہاب حسین شامل ہیں۔ پی کے 76 پر 14 امیدوار مدمقابل ہیں جن میں مسلم لیگ (ن) کی ثوبیہ شاہد، عوامی نیشنل پارٹی کے خوشدل خان، پیپلز پارٹی کے روح اللہ، جماعت اسلامی کے سیارمحمد، جمعیت علماء اسلام کے نیاز محمد اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سمیع اللہ خان شامل ہیں۔ پی کے 77 پر 13 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ شیر علی آفریدی، جماعت اسلامی کے سید امین آفریدی، تحریک لبیک کے دلدار خان، مسلم لیگ (ن) کے ساجد رضا، جمعیت علماء اسلام کے صفت اللہ، عوامی نیشنل پارٹی کے صلاح الدین اور پیپلز پارٹی کے فضل حق شامل ہیں۔ پی کے 78 پشاور پر 20 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارباب عاصم خان، عوامی نیشنل پارٹی کے اظہار اللہ خلیل، پیپلز پارٹی کے شفاعت الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کے ظاہر خان، جمعیت علماء اسلام کے ظاہر شاہ، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے فہیم احمد اور جماعت اسلامی کے قائم شاہ شامل ہیں۔ پی کے 79 پر 27 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ و صحت تیمور سلیم جھگڑا، مسلم لیگ (ن) کے جلال خان، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے دلروز خان، جماعت اسلامی کے عتیق الرحمٰن، جمعیت علماء اسلام کے مولانا عطاء الحق درویش، عوامی نیشنل پارٹی کے صدیق آفریدی اور پیپلز پارٹی کے محمد نواب خٹک شامل ہیں۔ پی کے 80 پر 17 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پیپلز پارٹی کی جانب سے ارباب عالمگیر خان جو خود بھی رکن قومی اسمبلی رہے ہیں، کے فرزند ارباب زرک خان، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ الیاس خان، جمعیت علماء اسلام کے مولانا امان اللہ حقانی، جماعت اسلامی کے ارباب ماجد خان، پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے پیرفدا ایڈووکیٹ،مسلم لیگ (ن) کے سید حیدر شاہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے یاسین خان خلیل شامل ہیں۔ پی کے 81 پشاور پر 37 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ نورین عارف، اے این پی کے ارسلان خان، جمعیت علماء اسلام کے ارباب فاروق، راہِ حق پارٹی کے سربراہ ابراہیم قاسمی، پیپلز پارٹی کے مصباح الدین، مسلم لیگ (ن) کے وقاص بلند اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے واجد اللہ شامل ہیں۔ پی کے 82 پشاور پر 24 امیدوار مدمقابل ہیں جن میں سابق صوبائی وزیر کامران بنگش، پیپلز پارٹی کے ضیاء اللہ آفریدی، جمعیت علماء اسلام کے صدیق الرحمٰن پراچہ،جماعت اسلامی کے طاہر زرین، مسلم لیگ(ن) کے محمد ندیم اور عوامی نیشنل پارٹی کے نوید اللہ شامل ہیں۔ پی کے 83 پر 22 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مینا خان آفریدی، عوامی نیشنل پارٹی کی ثمر ہارون بلور، پیپلز پارٹی کے سید ظاہر شاہ، جمعیت علماء اسلام کے محمد عمر اور جماعت اسلامی کے خالد گل مہمند شامل ہیں۔ پی کے 84 پر 19 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سابق رکن اسمبلی فضل الٰہی،مسلم لیگ (ن) کے شیر رحمٰن، پیپلز پارٹی کے عمر خطاب، عوامی نیشنل پارٹی کے فرہادخان اور جماعت اسلامی کے نصر من اللہ شامل ہیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 28 پر 15 امیدوار میدان میں ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ساجد نواز، جماعت اسلامی کے حافظ حشمت خان، پیپلز پارٹی کے کرامت اللہ چغرمٹی،عوامی نیشنل پارٹی کے محمد فیاض اور جمعیت علماء اسلام کے پی ٹی آئی سے منحرف سابق رکن قومی اسمبلی نور عالم خان شامل ہیں۔ این اے 29 پر 16 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ارباب عامر ایوب، جمعیت علماء اسلام کے عرفان اللہ شاہ، عوامی نیشنل پارٹی کے ثاقب اللہ خان چمکنی،مسلم لیگ (ن) کی ثوبیہ شاہد، جماعت اسلامی کے غلام محی الدین ایڈووکیٹ، تحریک لبیک کے شفیق امینی اور پیپلز پارٹی کے امجد عزیز شامل ہیں۔ این اے 30 پر 15 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سابق رکن اسمبلی شاندانہ گلزار، عوامی نیشنل پارٹی کے زین عمرار باب، تحریک لبیک کے ظاہر شاہ، جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر کاشف اعظم چشتی، پیپلز پارٹی کے مصباح الدین اور جمعیت علماء اسلام کے پی ٹی آئی کے سابق منحرف ایم این اے ناصر خان موسیٰ زئی شامل ہیں۔ این اے 31 پر 21 امیدوار ہیں جن میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سابق رکن اسمبلی شیر علی ارباب، پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر مواصلات ارباب عالمگیرخان، جماعت اسلامی کے امداد خان خلیل، مسلم لیگ (ن) کی ثوبیہ شاہد، عوامی نیشنل پارٹی کے پیر ہارون شاہ اور جمعیت علماء اسلام کے مولانامحمد سعید جان شامل ہیں۔ این اے 32 پر 25 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہو گا جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے غلام احمد بلور، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آصف خان، جمعیت علماء اسلام کے حسین احمد مدنی، مسلم لیگ (ن) کے شیر رحمٰن، جماعت اسلامی کے طارق متین اور پیپلز پارٹی کے عابد اللہ یوسف زئی شامل ہیں۔
عام انتخابات کے لیے پشاور سمیت صوبے بھر میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کو فائنل کیے جانے کے بعد انتخابی سرگرمیوں میں معمولی جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے جبکہ امیدواروں کی جانب سے انتخابی مہم کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ پشاور میں مختلف سیاسی جماعتوں کے الیکشن دفاتر کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں، جابجا پوسٹر اور بینر لگا دیئے گئے ہیں اورگھر گھر مہم کا آغاز بھی گزشتہ روز سے کردیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے کے اختتام تک جاری رہے گا، اس دوران شہر میں مزید پوسٹر اور بینربھی لگا دیئے جائیں گے جس کی وجہ سے پشاور میں ہر جانب پوسٹر اور بینر لگے ہوئے نظر آئیں گے۔ امیدواروں نے گھر گھر مہم کے لیے خواتین ورکرز اور تعلیم یافتہ خواتین کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اس سلسلے میں خواتین ورکرز کو کھانے پینے اور ٹرانسپورٹیشن کے ساتھ ساتھ ایک ہزار سے 15 سوروپے یومیہ تک مزدوری بھی دی جارہی ہے، مذکورہ خواتین کو گھر گھر مہم کے دوران پارٹیوں کے منشور پیش کرنے اور خواتین سے ووٹ طلب کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔ یہ خواتین پشتو، اردو اور ہندکو تینوں زبانوں میں خواتین کو پارٹیوں کے پیغامات پہنچارہی ہیں۔ مذکورہ خواتین کو الیکشن مہم ختم ہونے سے قبل تربیت دینے کے ساتھ ساتھ پولنگ ڈے پر لیڈیز پولنگ ایجنٹس بھی مقرر کیا جائے گا۔
پشاورشہر کے قومی اسمبلی کے تاریخی حلقے پر غلام احمد بلور ریکارڈ گیارہویں مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، جبکہ ان کے مدمقابل بیشتر امیدوار پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑیں گے۔ پشاورسٹی کے اس حلقے سے دو سابق وزراء اعظم اور ایک سابق وزیراعلیٰ انتخاب لڑچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو نے اس حلقے سے انتخاب لڑا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ آفتاب احمد خان شیرپاؤ بھی یہاں سے کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ 1988ء میں جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے 44 ہزار 658 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ ان کے مدمقابل غلام احمد بلور نے 35 ہزار 947ووٹ حاصل کیے تھے، تاہم وزیراعلیٰ بننے کے بعد آفتاب شیرپاؤ نے یہ نشست چھوڑ دی اور ضمنی انتخاب میں غلام احمد بلور پہلی مرتبہ اس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ 1990ء میں غلام احمد بلور نے بے نظیر بھٹو کو شکست دی تھی۔ غلام احمد بلور نے 51 ہزار 233، جبکہ بے نظیر بھٹو نے 38 ہزار 951 ووٹ حاصل کیے تھے۔ 1993ء میں پیپلز پارٹی یہ سیٹ دوسری مرتبہ جیتنے میں کامیاب ہوئی اور سید ظفر علی شاہ نے غلام احمد بلور کو شکست دی۔ سید ظفر علی شاہ نے 40 ہزار 343، جبکہ غلام احمد بلور نے 35 ہزار 755 ووٹ حاصل کیے۔ 1997ء میں تیسری مرتبہ اس حلقے سے غلام احمد بلور کامیاب ہوئے، انہوں نے 25 ہزار 930ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے سید قمر عباس نے 11 ہزار 275 ووٹ لیے۔ 2002ء میں ڈگری کی شرط کے باعث غلام احمد بلور انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے، اس بار متحدہ مجلس عمل کے شبیر احمد خان 37 ہزار 179 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جبکہ ان کے مدمقابل عوامی نیشنل پارٹی کے عثمان بلور نے 23 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2008ء میں غلام احمد بلور نے یہ نشست چوتھی مرتبہ جیت کر اپنے نام کرلی تھی۔ انہوں نے 44 ہزار 210 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے ایوب شاہ نے 37 ہزار 682 ووٹ حاصل کیے تھے۔ 2013ء میں پہلی مرتبہ اس حلقے سے پی ٹی آئی نے انتخابات میں حصہ لیا اور پارٹی چیئرمین عمران خان ریکار ڈ 90 ہزار 434 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے جبکہ غلام احمد بلور صرف 24 ہزار 449 ووٹ حاصل کرسکے۔ عمران خان نے یہ نشست چھوڑ دی جس کے بعد ضمنی انتخابات میں غلام احمد بلور 34 ہزار 386 ووٹ لے کر پانچویں مرتبہ کامیاب ہوئے، ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے گل بادشاہ 28 ہزار 119 ووٹ لے سکے ۔2018ء کے عام انتخابات میں اس حلقے کا نام تبدیل کرکے اسے این اے 31 کردیا گیا، ان انتخابات میں پی ٹی آئی یہ نشست دوسری مرتبہ جیتنے میں کامیاب ہوئی اور شوکت علی 87 ہزار 895 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ غلام احمد بلور 42 ہزار 478 ووٹ حاصل کرسکے۔ 2022ء میں ملک بھر میں 9 حلقوں پر پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے، جس کے بعد 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں اس حلقے میں سابق وزیراعظم عمران خان دوسری مرتبہ کامیاب ہوئے، انہوں نے 57 ہزار 818 ووٹ حاصل کیے، جبکہ غلام احمد بلور کے حق میں صرف25ہزار ووٹ آسکے۔ 2024ء کے عام انتخابات کے لیے اب اس حلقے کا نام تبدیل کرکے این اے 32 کردیا گیا ہے اور غلام احمدبلور ریکارڈ گیارہویں مرتبہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار آصف خان، پیپلز پارٹی کے عابداللہ یوسف زئی، جمعیت علماء اسلام کے حسین احمد مدنی، مسلم لیگ (ن) کے شیر رحمٰن اور جماعت اسلامی کے طارق متین سے ہے۔