سفر وسیلہ ظفر ہے، اور جب سفر کئی مقاصد لیے ہوئے ہو تو کئی دن پہلے سے تیاری شروع کی جاتی ہے۔ بقول شاعر ؎
مسافر شب کو اٹھتا ہے جو جانا دور ہوتا ہے
نئی جگہ، نئی منزل، نئے لوگ اور نئی ذمہ داری اور پرانی روایت کے احساسات کے ساتھ جنوری کے ایک سرد ترین دن ہم لاہور سے عازم سفر ہوئے اور پشاور سے لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ آج کی روداد لوئر دیر کی ایک پُروقار تقریب کے حوالے سے ہے۔ جامعہ احیاء العلوم کے قریب پہنچے تو سڑک پہ دو رویہ استقبالی گروپ کھڑے تھے… انتہائی منظم، پُرعزم اور حوصلہ مند۔ جب ہم جامعہ کی مرکزی گزرگاہ سے اندرونی حصے میں داخل ہوئے تو طالبات اور خواتین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ دینِ اسلام کی یہ بیٹیاں قائدین کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے ہوئے تھیں۔ وسیع وعریض ہال کا اسٹیج بہت پُرکشش انداز سے آراستہ کیا گیا تھا۔ اسٹیج پر موجود طالبات نے ایک جیسا خوبصورت لباس زیب تن کررکھا تھا۔ ان کے دوپٹوں پر ترازو بیج آویزاں تھا۔ استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ اسٹیج پر رونق افروز یہ طالبات وہ خوش قسمت طالبات ہیں جنہوں نے بخاری شریف کی تعلیم مکمل کی ہے۔کس قدر خوش نصیب ہیں۔ ان طالبات کے والدین نے اپنے وژن کے مطابق اپنی بیٹیوں کو 8 سال کے لیے اس کام کے لیے وقف کردیا۔ یہ طالبات جنہیں مادہ پرستی کے اس دور میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑنے کا موقع ملا۔ ایک طرف وہ خوش قسمت طالبات تھیں جنہوں نے علومِ شریعہ میں تخصیص کی سند حاصل کی تھی۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ وسیع و عریض ہال ایک نہیں بلکہ تین ہیں اور ایسے ہی کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ طالبات اور مہمان خواتین کی تعداد ہزار ڈیڑھ ہزار سے کم کیا ہوگی! مگر یہ سب خاموشی اور صبر وسکون سے فرشی نشست پر بیٹھی تھیں۔
ان تینوں ہالز میں کچھ روشن اور خوبصورت چہروں والی، ایک جیسا لباس پہنے ہوئے باوقار کارکنان انتظام وانصرام سنبھال رہی تھیں۔ یہ سب مہمان خواتین کو ہال میں بٹھاتی اور راستہ خالی کرواتی ہوئی نظر آئیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مہتممات ہیں جو اتنی بڑی تعداد میں طالبات کو دینی تعلیم دیتی ہیں اور اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا انتظام بھی کرتی ہیں۔
ہم پانچ مہمان خواتین (میں، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ، بلقیس مراد صاحبہ، شاہ گل صاحبہ، حمیرا بشیر صاحبہ) ہال میں داخل ہوئیں تو مہتممات نے بڑے اعزاز کے ساتھ ہمیں کرسیوں پر بٹھایا۔ ناظمہ ضلع لوئر دیر سنیلہ صاحبزادہ نے ہمارا تعارف کروایا۔ اس بابرکت محفل سے مخاطب ہونے کی دعوت دی۔ میں نے اور ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے ان خوش قسمت طالبات کو مبارک باد دی، اور شرکاء خواتین کو جماعت اسلامی کی دعوت دی۔ جماعت اسلامی کے منشور اور مقصد سے آگاہ کیا۔ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ ہزاروں نوجوان طالبات و خواتین جماعت اسلامی اور اس کے مقصد سے نہ صرف آگاہ ہیں، بلکہ ہم آہنگ بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کی ممبر اور ووٹر ہیں، جماعت اسلامی کو حکومت میں لانا چاہتی ہیں۔
اس تقریب میں مختصر شرکت کے بعد ہم لوئر دیر کے اسلامک سینٹر (جو کہ جماعت اسلامی کا مرکز ہے ) پہنچے۔ اسلامک سینٹر میں ہزاروں کارکنان جماعت اسلامی (حلقہ خواتین) ہماری منتظر تھیں۔ محترم امیر جماعت سراج الحق صاحب کی اہلیہ بھی پہنچ گئیں۔
خواتین کارکنان نے پھول نچھاور کیے اور پھر پُرجوش ترانے پڑھ کر ہمارا استقبال کیا۔ یہ ہزاروں خواتین کارکنان بہت فعال، پُرجوش اور انتھک محنت کرنے والی تھیں۔ یہ خواتین امیر جماعت کی سیٹ NA-6 پر دن رات ووٹرز سے رابطہ کرنے اور پولنگ ایجنٹس (خواتین)کی تربیت میں مصروف رہتی ہیں۔ لوئر دیر میں ان خواتین سے ملاقات کے دوران معلوم ہوا کہ لوئر دیر وہ خوش نصیب ضلع ہے جہاں جماعت اسلامی کے مرد وخواتین کے 185 مدارس قائم ہیں، جن میں 30 ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان طالبات کو 1300 معلمات تعلیم دینے کے لیے میدانِ عمل میں مصروف ہیں۔ ان مدارس کے علاوہ 60 ذیلی جامعات المحصنات بھی قائم ہیں۔ 15عدد بڑی جامعات ہیں جو اپنے نظام کا ثانی نہیں رکھتیں۔ یہ وہ لوئر دیر ہے جہاں جماعت اسلامی کے ممبر کامیاب ہوتے ہیں،جو جماعت اسلامی کا شہر ہے۔2024ء کے انتخابات میں یہ واضح محسوس ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی کے ممبرز کو شکست دینے کے لیے مخالفین کو کھلم کھلا دھاندلی کرنا پڑے گی۔
لوئر دیر کے اس علاقے میں جماعت اسلامی نے الحمدللہ بہت محنت کی ہے۔یہ پھولوں اور کلیوں کا ضلع ہے جس کے ہر دل میں قیادت بستی ہے۔وہ جماعت کے سوا کسی پارٹی کو پسند نہیں کرتے۔میں سوچ رہی تھی کہ یہ پہاڑوں کے جواں مردمشقت کی زندگی گزارتے ہیں، مگر اپنے لیے حکمرانوں کے انتخاب میں کتنے سمجھ دار ہیں۔ایسے افراد کو منتخب کرتے ہیں جو امانت ودیانت میں اپنی مثال آپ ہیں،جو اُن کی طرح کے افراد ہیں،اُن کے درمیان رہتے ہیں،اُن ہی بازاروں اور گھروں میں مقیم ہیں۔
کم وسائل میں ان منتخب نمائندوں نے اپنے ضلع کے بچوں کی دینی اور دنیوی تعلیم کا انتظام کیا ہے، کہ چند سالوں میں طالبات کا تعلیمی تناسب 6 سے بڑھ کر 50 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں اس کاوش کے علاوہ جماعت اسلامی کے نمائندگان نے اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں وسیع پیمانے پر متعدد شعبوں میں عوامی خدمات کے نہ صرف منصوبے بنائے، بلکہ منظور کروائے،اور ان کا اجراء کروایا۔ تعلیم، صحت، کھیل، سفری سہولیات، مواصلات اور علاقائی تعمیر وترقی کے کاموں میں بھرپور کاوشیںکی ہیں، جن کی ایک طویل فہرست ہے، جن میں سے چند منصوبے یہ ہیں: یونیورسٹی آف ملاکنڈ کا قیام، ملاکنڈ تعلیمی بورڈ کا قیام، اَپ گریڈیشن ڈی ایچ کیو تیمر گرہ، نیوروسرجری ڈپارٹمنٹ کا قیام، فیڈ سرجری یونٹ کا قیام،گیسٹرو یونٹ کا قیام، میدان گرڈ اسٹیشن کا قیام، منڈا گرڈ اسٹیشن کا قیام، چکدرہ تیمرگرہ سڑک کی پختگی، تیمرگرہ بائی پاس، خزانی بائی پاس، میدان اسٹیڈیم، ثمر باغ اسٹیڈیم، میاں کلے اسٹیڈیم کی تعمیر اور ضلع بھر میں درجنوں آرسی پلوں کی تعمیر، خزانہ بائی پاس پل، رحیم آباد متکو پل، لال قلعہ پل وغیرہ وغیرہ… اور یہی نہیں بلکہ معاشرے کی رہنمائی کے لیے علماء کرام کی سرپرستی میں فہم القرآن کلاسز کا انعقاد بھی معمول کی بات ہے۔ مختصر مدتی یہ کلاسز ہر خاص و عام کے لیے ہیں۔
اس سنگلاخ وادی کی خواتین پڑھی لکھی، سمجھدار، بااعتماد اور پُرامید ہیں۔ گھر میں بااختیار ہیں، اپنے علاقے میں بھی بااختیار قائدانہ صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ ہر فورم پر اپنی بات اعتماد سے رکھتی ہیں۔ اپنی محافل میں خوبصورت انداز میں اللہ کی کبریائی کے نعرے بلند کرتی ہیں۔ ان کے چہرے روشن و پُراعتماد ہیں۔ مایوسی اور ڈپریشن کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ محنتی ہیں، اپنے بزرگوں کا احترام کرتی ہیں، بچوں سے پیار کرتی ہیں، اپنے گھر کی ملکہ ہیں۔ مرد اپنی خواتین کو اختیار، اعتماد اور محبت دیتے ہیں۔گھر کے کاموں میں دخل نہیں دیتے۔ ہر گھر میں مردان خانے آباد ہیں جہاں مردوں کی محافل جمتی ہیں اور خوب جمتی ہیں۔ خاتون اپنے آشیانے کی مالک، ملکہ اور بااختیار ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوئر دیر پھولوں اور کلیوں کا شہر ہے۔ چمکتے چہروں کا شہر ہے جِسے دیکھ کر دل سے یہ دعا نکلتی ہے:
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو