آج کی عورتیں نانی، دادی بن کر بھی نانی، دادی نظر آنا نہیں چاہتیں!

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی بیٹی سیدہ حمیرہ مودودی سے ملاقات

محترم مولانا مودودیؒ کی صاحبزادی حمیرا مودودی سے پچھلے دنوں لاہور میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے فراخ دلی سے ملاقات کا وقت دیا۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں سوال جواب کی صورت میں جو اس موقع پر ہوئیں وہ ہم اپنے قارئین کے لیے یہاں پیش کرتے ہیں۔
……٭٭٭……

فرائیڈے اسپیشل: بچپن کی یادیں بیان کریں، بہن بھائیوں سے کھٹ پٹ ہوتی تھی؟ اور جماعت کے لوگ ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے تھے؟

حمیرا مودودی: ہم نو بہن بھائی تھے، میں اور میرے بڑے بھائی ایک کلاس میں تھے۔ ایک اور بڑے بھائی ایک سال پیچھے تھے، تو آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے خوب لڑائیاں چلتی تھیں، خاص طور سے جب رزلٹ نکلتا تھا۔ جب میں ایف اے میں آئی تو اسکالرشپ ملی، لہٰذا جس کو پیسے چاہیے ہوتے، میرے پاس آتا۔ لہٰذا میں زیادہ منہ زور ہوگئی تھی۔ ایک دفعہ بھائی فیل ہوگیا، وہ کمبل اوڑھ کر کمرے میں لیٹ گیا۔ چچا آئے اور اس کے پاس بیٹھ گئے، مجھ سے کہنے لگے تم اندر نہ آنا۔ میں نے کہا: یہ اچھی رہی، میرے اوپر تو بہت باتیں بناتے تھے اب فیل ہوئے ہیں تو اندر دبک گئے ہیں اور سب کہہ رہے ہیں کہ میں اندر نہ آئوں! پھر میں نے خود ہی معاملہ رفع دفع کردیا کہ بے چارے بستر پر پڑگئے ہیں۔ بعد میں تو وہ اچھا پڑھ گئے اور ڈاکٹر بنے۔

ویسے تو لڑائی جھگڑا ہوتا لیکن بات بڑھتی نہیں تھی۔ امی جان ہم سب کو سمجھا دیتی تھیں۔ جماعت کے لوگ کوئی خاص ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتے تھے۔ بچے شرارتیں تو کرتے ہیں، اس سے وہ منع کرتے تھے۔

فرائیڈے اسپیشل: بہن بھائیوں کی تربیت میں زیادہ کس کا کردار تھا؟

حمیرا مودودی: زیادہ تو امی جان ہی کا کردار تھا، ابا جان کی نظر بھی ہوتی تھی لیکن ایک حد تک۔ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا، ہم دھوپ سینکنے کے لیے باہر صحن میں بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی میں ہفتے میں ایک دن چھٹی ہوتی تھی کہ لائبریری جاکر ریسرچ کریں، میرے پاس گھر میں ہی کتابیں تھیں اس لیے مجھے لائبریری جانے کی ضرورت نہیں تھی، ابا جان دفتر سے نکل کر امی جان سے پان لینے کے لیے آئے، گھر میںہی ان کا دفتر تھا جہاں وہ بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے، دفتر جاتے ہوئے امی جان ان کو پان کی ڈبیا میں پان بناکر دے دیتی تھیں، ڈبیہ میں پان ختم ہوگئے تھے اور وہ لینے کے لیے اندر آئے تھے، مجھے دھوپ میں بیٹھا دیکھ کر کہنے لگے ’’آج تم اسکول نہیں گئیں؟‘‘ میں نے کہا: دیکھیں تو ابا جان! آپ نے میری کتنی بے عزتی کی ہے، میں تو ایم اے فائنل میں ہوں، انگلش میں ایم اے کررہی ہوں اور آپ مجھ سے کہہ رہے ہیںکہ تم اسکول نہیں گئیں؟ امی جان میری بات پر ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں: میاں! تم یہ پان لو اور جائو اپنے دفتر میں کام کرو، اس کا کیا ہے یہ تو بولتی رہتی ہے۔ یعنی ان کو پتا نہیں ہوتا تھا کہ کون سا بچہ کس کلاس میں ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:کیا ابا جان آپ لوگوں کو ڈانٹتے تھے؟

حمیرا مودودی: وہ کبھی نہیں ڈانٹتے تھے۔ امی جان کہتی تھیںکہ کوئی باپ بچوں کو اتنا نہیں بگاڑتا، جتنا کہ آپ نے بگاڑا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:آپ کی دادی اماں بھی تھیں، انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کی؟

حمیرا مودودی: نہیں، دادی جان بہت محبت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ دادی جان نے ابا جان سے کہا اوپر جن رہتے ہیں(دادی جان اوپر رہتی تھیں)، تو ابا جان نے اُن سے کہاکہ آپ ایک جن کی بات کررہی ہیں، یہاں تو نو نو جن رہتے ہیں، اور کوئی کوئی تو اتنا خطرناک ہے کہ میرے لکھنے پڑھنے کے کاغذ تک نہیں چھوڑتا، میرے دفتر میں گھسا جاتا ہے، میرا لکھا پڑھا جاتا ہے اور میرے سامنے میرا لکھا میرے ہی اسٹائل میں سنایا جاتا ہے، مجھ پر پوری نظر رکھی جاتی ہے کہ کیا سوچ رہا ہوں، کیا لکھ رہا ہوں۔ اصل میں ابا جان جب دفتر سے آجاتے تھے تو میں ان کے دفتر میں گھس کر وہ سب پڑھا کرتی تھی جو وہ لکھتے تھے۔ ایک دفعہ سیاست پر بات ہورہی تھی، ابا جان کھانا کھا رہے تھے، میں نے ابا جان کا وہ پیراگراف جو آج ان کے دفتر میں گھس کر پڑھا تھا ان کے انداز میں سنایا، ابا جان حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگے اور بولے: ہائیں، اس کی ہوا تم کو کیسے لگی؟ اس کو تو میں نے کل ہی لکھا ہے۔ میں نے کہا میں تو روز آپ کے دفتر جاتی ہوں اور وہ پڑھتی ہوں جو آپ لکھتے ہیں۔ ابا جان اندر سے تو خوش تھے لیکن اوپر سے غصہ دکھا رہے تھے۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے ابا جان کو کس بات پر خوش ہوتے دیکھا؟

حمیرا مودودی: بہت خوش ہوتے تھے جب بھی پاکستان کے لیے کچھ اچھا ہوتا تھا۔ پاکستان کی خوشی میں ان کی خوشی تھی۔ ایک دفعہ چودھری محمد علی (وزیراعظم) ملنے آئے، ابا جان ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ چیف جسٹس آتے تھے تو ان سے بھی مل کر خوش ہوتے۔

فرائیڈے اسپیشل: کیا ابا جان نے جماعت میں آنے کے لیے اپنے بچوں سے کہا؟

حمیرا مودودی: نہیں، ابا جان نے کبھی بھی اس طرح نہیں کہا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ جماعت پر میرے بچوں کا قبضہ ہوجائے۔ آپ کو پتا ہے ہمارے ہاں ساری جماعتوں کا یہی حال ہے، لہٰذا ابا جان نے اس طرح کبھی نہیں چاہا کہ ہم جماعت کے اندر یوں جائیں اور کسی عہدے پر بیٹھ جائیں۔ اپنی قابلیت اور صلاحیت سے جو آئے تو ٹھیک ہے، ورنہ میں خود یا میری وجہ سے کوئی آگے آئے یہ میں نہیں چاہوں گا، ان کا یہ کہنا تھا۔ لیکن ابا جان نے جماعت کے کاموں کے لیے مجھے ہر جگہ بھیجا مثلاً میں شادی کے بعد ملتان میں تھی۔ میرے میاں کے پاس ابا جان کا فون آیا کہ حمیرا کو لاہور کے لیے پہلی ٹرین میں بٹھا دو اور میرے پاس بھیج دو۔ اب یہ نہیں بتایا کہ کس لیے؟ میاں صاحب میرے پاس آئے اور کہاکہ ابا جان نے یوں فون کیا ہے، جلدی جلدی سامان باندھو، ایک بجنے والا ہے اور ٹرین کا وقت ہونے والا ہے۔ اب مجھے پریشانی ہوئی کہ کیا بات ہے۔ ابا جان یا امی جان کی طبعیت تو خراب نہیں ہے؟ میں نے جلدی جلدی دوچار چیزیں رکھیں اور بچی کو لیا، اُس وقت میری بچی چھوٹی سی تھی۔ اسٹیشن پر پہنچی اور ٹرین پر چڑھ گئی۔ اب لاہور پہنچی تو اسٹیشن پر کوئی لینے کے لیے نہیں آیا، میں پریشان ہوئی اور پھر بچی کو لے کر تانگے میں بیٹھ کر گھر آئی۔ گھر آکر کہاکہ کوئی مجھے لینے نہیں آیا۔ میرا بھائی کہنے لگا کہ میں گیا تھا،سب طرف دیکھا آپ کو، آپ کہیں نہیں تھیں۔پھر اس نے پوچھا کون سے درجے میں آئی ہیں؟ میں نے کہا تھرڈ کلاس میں آئی ہوں۔ سب نے حیران ہوکر پوچھا تھرڈ کلاس میں کیوں آئیں؟میں نے کہاکہ میرے میاں نہیں چڑھا رہے تھے تھرڈ کلاس میں، زبردستی آئی ہوں کیوں کہ الیکشن ہونا تھا، 1970ء والا بھٹو کا الیکشن۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ لوگوں کے سامنے الیکشن کے حوالے سے بات رکھوں اور پوچھوں، عندیہ لوں کہ کس کو ووٹ دے رہے ہیں۔ پھر اس حوالے سے ان کو کنونس کروں۔ یعنی جماعت اسلامی کی الیکشن کمپین چلانے کے لیے تھرڈ کلاس میں سفر کیا۔

ابا جان نے کہاکہ تم کو تھرڈ کلاس میں سفر کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے کہاکہ میں تو الیکشن مہم کے لیے آئی تھی، میں نے عورتوں سے پوچھا کہ کس کو ووٹ دے رہی ہیں؟ سب عورتیں کہنے لگیں بھٹو کو دیں گے، میں نے کہاکہ جماعت اسلامی بھی تو ہے، اس کو نہیں دو گی؟ کہنے لگیں ’’ہاں دیکھا ہے تیرے مودودی کو، اس کی دھیاں (بیٹیاں) ننگے سر بال کٹا کر پھردیاں… لندن پیرس میں‘‘۔

میں نے پوچھا ’’تسی ملی ہو؟ ویکھیا ہے؟
’’ایسی گال نہ کر، تینوں کیا پتا ہے؟‘‘

میں ان کو کہتی کہ میں ہوں ان کی بیٹی، لیکن وہ اتنے جارحانہ موڈ میں تھیں کہ مجھے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتیں۔ سب گھر میں ہنس ہنس کر بے حال کہ یہ الیکشن مہم سر کرتی آئی ہے۔

پھر میں نے ابا جان سے پوچھا کہ کیوں بلایا ہے؟ تو ابا جان نے کہاکہ بھئی تمہاری امی کو ٹائیفائیڈ ہوا ہے اور ڈاکٹر نے سختی سے بیڈ ریسٹ کہا ہے، اور ادھر لاہور میں ان کے نام سے تین تین جلسے انائونس ہوچکے ہیں۔ اب تم ان جلسوں میں اپنی امی کی جگہ جائوگی اور انہیں بتائوگی کہ ان کی حالت ایسی ہے کہ میں آئی ہوں آپ سے بات کرنے۔

اسی طرح اے جی خان نے کشمیر پر ایک میٹنگ بلائی اور ابا جان کو فون کیا کہ اپنی خواتین کو بھیجیں۔ ابا جان نے مجھے بھیجا، بیگم اے جی خان نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا، میرے ساتھ وکی آنٹی (بیگم وقار النسا نون) تھیں، انہوں نے ایک خط یو این او کو لکھا، اس میں پہلا دستخط وقار النسا نون کا تھا، دوسرا میرا تھا اور تیسرا بیگم اے جی خان (آئی جی پولیس پنجاب) کا تھا۔

فرائیڈے اسپیشل:ابا جان کی یادیں اور اپنی شادی میں ان کی ترجیحات کے بارے میں بتائیں؟

حمیرا مودودی: ابا جان کی یادیں تو اس قدر ہیں کہ حد نہیں۔ بچے اپنے والدین کا علم لیں یا نہ لیں بیماری ضرور لیتے ہیں، میری بیماری ابا جان کی ہے اور یہ ان کا واکر ہے (انہوں نے اپنی کرسی کے برابر رکھے ہوئے واکر کی طرف اشارہ کیا) جو میں استعمال کررہی ہوں۔ شادی کے سلسلے میں ابا جان کی ترجیحات صرف یہ تھیں کہ نیک اور دین دار لوگوں سے سابقہ پڑے۔ میرے شوہر بہت نیک اور شریف تھے لیکن نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ایک دن مجھ سے انہوں نے کہاکہ ’’عورتیں تو بڑی بڑی فرمائشیں کرتی ہیں، تم نے کبھی نہیں کی… نہ کبھی کپڑے کی نہ زیور کی‘‘۔ ہم نے تو اپنی امی جان کو دیکھا تھا کہ انہوں نے کبھی ابا جان سے کوئی فرمائش نہیں کی، میں نے کہاکہ میں بہت دل سے چاہتی ہوں کہ آپ نماز پڑھیں بلکہ میں آپ سے التجا کرتی ہوں، تو کہنے لگے کہ اچھا ٹھیک ہے پڑھتا ہوں۔ میں نے کہا ابھی اذان ہوئی ہے، آپ جائیں، وضو کریں اور نماز کے لیے چلے جائیں۔ وہ چلے گئے۔ مسجد دفتر کے پاس تھی، وہ مسجد گئے تو وہاں برا حال تھا۔ پھٹی ہوئی صفیں، گندے غسل خانے، چپراسی، مالی اور ڈرائیور نمازی۔ اب آفس کے لوگوں نے دیکھا صاحب نماز پڑھنے گئے ہیں۔ جب میاں صاحب عصر کے بعد مغرب میں نماز پڑھنے گئے تو حال بدلا ہوا، سب صفیں بھری ہوئی، آفس کے ملازم موجود، افسر بھی موجود۔

انہوں نے آکر بتایا کہ آج کمال ہوگیا۔ میں نے کہا یہ ہوتاہے، لوگوں نے سوچا بڑے صاحب آئے ہیں نماز پڑھنے تو ہم بھی پہنچیں، تو اتنے لوگوں کی نماز کا ثواب آپ کو ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے پھر ساری زندگی ایسے نمازی ہوئے کہ اِدھر اذان ہوتی اُدھر مسجد چلے جاتے۔

فرائیڈے اسپیشل: رخصتی کے وقت ابا جان نے آپ کو کچھ نصیحتیں کیں یا کچھ کہا؟

حمیرا مودودی: یہ ہمارے خاندان کی پہلی شادی تھی، ابا جان نے رخصتی کے وقت کوئی بات نہیں کی بلکہ قریب بھی نہیں آئے، دور دور ہی رہے۔ ابا جان بیٹیوں کے معاملے میں بہت حساس تھے، بہت محبت کرتے تھے ہم تینوں بہنوں عائشہ، اسما اور مجھ سے۔

میں شادی کے دس دن بعد ہی جیسور (مشرقی پاکستان) چلی گئی تھی، وہاںمیاں صاحب کی پوسٹنگ تھی۔ مشرقی پاکستان سے ہماری واپسی سقوطِ ڈھاکا سے دو تین ماہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ بنگالی بہت محبت کرتے تھے، میری بچی کی آیا کی آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ جب جہاز ٹیک آف کررہا تھا تو بنگالی جہاز کے ساتھ ساتھ روتے ہوئے دوڑ رہے تھے، اتنی محبت کرتے تھے۔ واپس لاہور آئے۔ ایک دن انارکلی گئے، بھٹو کا جلوس نکل رہا تھا، نعرے لگ رہے تھے، ہم واپس آئے تو میری بیٹی رابعہ ابا جان کے پاس بیٹھ کر غورسے انہیں دیکھ رہی تھی، پھر پوچھنے لگی ’’نانا جان! مولانا مودودی آپ ہی ہیں نا؟‘‘ ابا جان نے کہا ’’ہاں جی میں ہی ہوں‘‘، تو وہ کہتی ہے کہ ’’مولانا مودودیؒ کو تو وہ لوگ جلوس میں گالیاں دے رہے تھے‘‘۔ میں نے کہا ’’رابعہ چپ ہوجائو، چپ ہوجائو‘‘۔ ابا جان نے کہا ’’چپ نہ کرائو‘‘۔ وہ بہت سنجیدہ ہوگئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہاکہ ’’یہ پیغمبروں کی سنت ہے، پیغمبروں نے تو پتھر کھائے ہیں، میں نے تو صرف گالیاں کھائی ہیں، دین کی راہ میں گالیاں کھانا بھی اعزاز ہے، نصیب والوں کو ملتی ہیں یہ گالیاں، یہ پیغمبروں کا راستہ ہے۔‘‘

میں نے بہت عرصہ کالجوں میں پڑھایا۔ انگلش مضمون تھا۔ پہلے جیسور میں پڑھایا، پھر سعودی عرب چلی گئی، وہاں کالج میں پڑھایا، پھر ملتان میں پڑھایا۔ شام کی مصروفیت میں درسِ قرآن ہوتا تھا جو اب تک ہے۔ 71ء کی بات ہے، ہمارے ہاں تیرہ چودہ سال کا ایک لڑکا کام کرتا تھا، میں اس کو آٹا گوندھ کر دیتی تھی اور وہ تندور سے روٹیاں لگوا کر لاتا تھا۔ سخت گرمی میں آتا تھا تو پسینے میں شرابور ہوتا۔ ایک دفعہ میں نے اُس سے کہاکہ تم اتنی دور جاکر روٹیاں کیوں لگواتے ہو، یہ برابر میں بوڑھی عورت تندور پر روٹی لگاتی ہے، اس سے کیوں نہیں لگواتے، اس سے کیا تمہاری لڑائی ہے؟ کہنے لگا ’’بے جی وہ شرک کرتی ہے‘‘۔

میں نے کہا تمہیں شرک کا پتا ہے؟ کہتا ہے ’’ہاں جی، سب پتا ہے مینوں شرک کا‘‘۔

میں نے پوچھا: اچھا بتائو وہ کیا شرک کرتی ہے؟ کہتا ہے ’’وہ روٹی لگاتی ہے، کہتی ہے: بھٹو جیوے، صدر تھیوے، مینو روٹی، کپڑا، مکان تو دیسی۔

وہ شرک کرتی ہے، اس کی روٹی کھانا جائز نہیں۔‘‘

میں نے کہا تُو تو بڑا سمجھدار ہے۔ کہتا ہے ’’ہاں جی، میں آپ کا درس سنتا ہوں، دروازے میں بیٹھ کر سارا درس سنتا ہوں۔ درس سننے کا کیا فائدہ جب عمل نہیں کرنا! مجھے سب پتا ہے روٹی، کپڑا، مکان اللہ دیتا ہے۔‘‘

میں نے کہا: ہاں بات تو سچ ہے۔ یہ لڑکا مالی کا بیٹا تھا۔ میں نے مالی کو بلاکر کہا: یہ بچہ کوٹھیوں میں کام کرنے والا نہیں، اس کو اسکول میں داخل کرائو، یہ پڑھنے والا لائق بچہ ہے۔ وہ کہنے لگا میں فیس نہیں دے سکتا، میں نے کہا صاحب دیں گے، تم بچے کو داخل کرائو۔ اس نے داخل کرایا۔

بارہ تیرہ سال کا غریب بچہ ایک بات سمجھ گیا، اور اعتراز احسن اور دوسرے بڑے پڑھے لکھے عقل مند اور تجربہ کار لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ دینے والا اللہ ہے، بھٹو نہیں۔

میرے خالو تھے ایئر مارشل اصغر خان، بھٹو ان کے گھر گیا کہ میں آپ کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا چاہتا ہوں، انہوں نے پوچھا ’’کیا تم روٹی، کپڑا، مکان دے سکتے ہو؟‘‘ وہ کہتا ہے ’’نو، بٹ پیوپل بلیومی‘‘۔ انہوں نے کہا ’’جائو میرے گھر سے، تم عوام کو دھوکا دیتے ہو‘‘۔

فرائیڈے اسپیشل: آپ نے ابا جان کو کبھی خواب میں دیکھا؟

حمیرا مودودی:جی ہاں کئی دفعہ، ابھی چند سال قبل بھی دیکھا کہ بڑے اچھے خوب صورت کپڑے پہنے اور بہت خوب صورت لگ رہے ہیں اور گود میں میری ایک بہن اسما کو لیے ہوئے ہیں، ساتھ میں میرے بھائی کھڑے تھے جن کا انتقال ہوگیا تھا۔ میری بہن اسما اُس وقت حیات تھی۔ ابھی ایک سال پہلے ہی اچانک اس کا انتقال ہوا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: خواتین کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

حمیرا مودودی: اس وقت جو حالات ہیں اس میں ضروری ہے کہ خاندان کو بہت مضبوط بنایا جائے، اس کے لیے سب سے اہم کردار عورت کا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک عورت چار چار مردوں کو دوزخ میں لے کر جائے گی، لہٰذا تربیت کے لیے ذمہ داری باپ، بھائی اور شوہر پر ہے اور بیٹے کو بھی دیکھنا چاہیے کہ میری ماں کس حال میں ہے۔

کالج میں میرے ساتھ میری کلاس فیلو بھی پڑھاتی تھیں، انہوں نے شادی کے بعد پڑھانا شروع کیا کیونکہ ان کے شوہر کا اچانک انتقال ہوگیا تھا۔ ایک دن وہ میرے پاس ملنے آئیں، میں نے ان سے کہاکہ آپ نے اچھے پردے دار کپڑے پہننا شروع کردیئے ہیں۔ پہلے وہ مغربی لباس میں پڑھانے آتی تھیں۔ کہنے لگیں میرا بیٹا بھی میرے ساتھ کالج جاتا تھا۔ وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا۔ ایک دفعہ اس کو سخت بخار ہوگیا، میرا کالج میں پہلا پیریڈ تھا، میں صبح اسکول کے لیے تیار ہوئی، اس سے کہا تمہاری دوا اور پھل جوس رکھا ہے برابر میں میز پر۔ خالی پیٹ دوا نہ کھانا، میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔

اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ چہرہ بخارکی وجہ سے سرخ ہورہا تھا۔ اس نے بستر سے چھلانگ لگائی اور میرے پائوں پکڑ کر رونا شروع کردیا۔ وہ ایسا رویا، ایسا رویا کہ اپنے باپ کے مرنے پر بھی نہ رویا ہوگا۔ ایک ہی بات کہتا جاتا کہ کیوں آپ ایسے کپڑے پہنتی ہیں؟ آپ کو پتا نہیں میرے دوست آپ کو دیکھ کر کیا کہتے ہیں؟ مجھ پر کیا گزرتی ہے، میں مر جانا پسند کروں گا بہ نسبت اس کے کہ اپنی ماں کو اس حال میں کالج میں دیکھوں۔

اُس دن میں نے اس سے کہاکہ تم میرا پائوں چھوڑو، میں ابھی کپڑے تبدیل کرتی ہوں۔ پھر الماری سے سفید شلوار دوپٹا اور پھولوں والی قمیص پہنی اور اس سے پوچھا اب چلی جائوں؟اس نے کہا ٹھیک ہے۔ اس دن کے بعد سے میں نے وہ سارے کپڑے پہننا چھوڑ دیئے۔

یہ سچا قصہ ہے، سنانے کا مقصد یہ ہے کہ آج کی عورت کو اپنے عمل کو درست کرنا چاہیے، نسلیں خود درست ہوجائیں گی۔ آج عورتیں نانی، دادی بن کر بھی نانی، دادی نظر آنا نہیں چاہتیں۔

آج کا اہم ترین کام قرآن کو ترجمہ سے پڑھنا، سمجھنا اور عمل کرنا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: حمیرا مودودی صاحبہ آپ کا بہت شکریہ۔