عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو سکے گا
ملک میں عام انتخابات 8 فروری کو ہونے جارہے ہیں۔ ہر روز افواہ گرم ہوتی ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے، لیکن انتخابات ملتوی ہوتے نظر نہیں آرہے۔ موسم جیسا بھی ہو، یہ ہو ہی جائیں گے۔ ویسے بھی انتخابات کا موضوع پیچھے چلا گیا ہے، اب بات ہورہی ہے کہ نومنتخب حکومت کیسی ہوگی، اور وہ ملکی معیشت کیسے چلائے گی؟ اگلی حکومت کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔ ملکی معیشت کی منہدم ہوتی ہوئی عمارت دوبارہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو آئندہ 3 سال میں 71 ارب ڈالر کی بیرونی فنانسنگ درکار ہوگی، بیرونی فنڈنگ میں شارٹ فال یا سست روی کی صورت میں حکومت کو مہنگے مقامی قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ نگران حکومت نے آئی ایم ایف کو بیرونی فنانسنگ کے انتظامات کی یقین دہانی کرا دی ہے، اب اگلی حکومت کی سیاسی اور آئینی ذمہ داری میں یہ بات شامل ہوگئی ہے کہ اگلے 3 سال میں 71 ارب 88کروڑ ڈالر کی بیرونی فنانسنگ کرے۔ پاکستان کو اس وقت صرف رواں مالی سال 24 ارب 96 کروڑ ڈالر کی بیرونی فنڈنگ درکارہے، جبکہ 2025ء میں 22 ارب 24کروڑ ڈالر، اور 2026ء میں بھی 24کروڑ 67لاکھ ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
اب ملک میں جاری انتخابی مہم اور اس میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی صلاحیتوں اور ماضی میں حکومت میں رہ کر کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس وقت ملک جس بیرونی قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے یہ بوجھ ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کا نتیجہ ہے، لہٰذا اس سوال کا جواب بہت ہی سادہ اور جامع ہے کہ اب بھی جیسی پارلیمنٹ ہوگی ویسی ہی حکومت ہوگی۔ پارلیمنٹ میں آزاد ارکان کی تعداد غیر معمولی ہوسکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے 266 ارکان منتخب ہوں گے، اور مخصوص نشستوں کی تعداد مل کر 336 ارکان کا ایوان مکمل کرے گی۔ جس پارلیمانی جماعت کے پاس 169 ارکان ہوں گے وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنائے گی۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی اور تحریک لبیک دو ایسی جماعتیں ہیں جن کے امیدوار انتخابی عمل میں شریک دیگر جماعتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی کے266 میں سے53 حلقوں میں امیدوار ہی کھڑے نہیں کیے، یہی صورتِ حال پیپلزپارٹی کی ہے، اس نے بھی کئی حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت انتخابی عمل سے باہر ہے تاہم اس کے حمایت یافتہ 266 امیدوار آزاد حیثیت سے میدان میں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) جے یو آئی، جی ڈی اے، مسلم لیگ(ق)، ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی اور جمعیت اہلِ حدیث کے ساتھ مل کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، جبکہ پیپلزپارٹی ملّی یک جہتی کونسل کی رکن جماعت جے یو پی، اے این پی، بلوچستان عوامی پارٹی، پاکستان عوامی تحریک سمیت کہیں کہیں بڑے سیاسی گھرانوں کی اتحادی ہے۔ متعدد حلقے ایسے ہیں کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بھی اس کے مقابلے میں نہیں ہیں۔ بلاول تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں اس کا ووٹ بینک پیپلزپارٹی کو منتقل ہوجائے۔ بڑی جماعتوں کی اتحادی اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی سیاست کے باوجود آئندہ اسمبلی میں حکومت سازی میں آزاد امیدواروں کا بہت بڑا کردار ہوگا جن کی تعداد کم و بیش پچاس تک متوقع ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں ہونے والے 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کے اعلان کا وقت بھی طے کرلیا ہے۔ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اعلان 9 فروری کی رات 1 بجے ہوگا۔ الیکشن کے دن ملک بھر سے رزلٹ بروقت الیکشن کمیشن بھیجنے کے لیے تمام ترانتظامات کرلیے گئے ہیں، جس کے تحت تمام حلقوں کے ریٹرننگ افسران کو تین تین ڈیٹا انٹری آپریٹرز فراہم کیے جائیں گے۔ انتخابات 2024ء میں الیکشن مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) کا استعمال کیا جائے گا۔ آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کی وجہ ایک وقت میں ایک ڈیٹا انٹری سسٹم تھا اور نتائج موصول میں ہونے میں زیادہ وقت لگا، اس لیے الیکشن 2024ء کو صاف، شفاف اور غیرجانب دارانہ کرانے کے لیے ٹیکنالوجی کا بھرپوراستعمال کیا جائے گا، آراوز کو فائبرآپٹکس کی سہولت میسر ہوگی اور متبادل کے طور پر وائی فائی ڈیوائس بھی دی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن چاروں صوبوں میں الیکشن مینجمنٹ سسٹم کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے، ای ایم ایس سسٹم جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے، اس کے ذریعے نتائج انٹرنیٹ اور بغیر انٹرنیٹ کے بھی بھیجے جائیں گے، پریزائیڈنگ افسران اپنے پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج ریٹرننگ افسران کو بھجوائیں گے، ریٹرننگ افسران رزلٹ تیار کرکے ڈیجیٹل اور مینوئل طریقے سے الیکشن کمیشن کو بھجوائیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے فارم 33 ویب سائٹ پر جاری کردیے ہیں۔ فارم 33 میں ہر حلقے کے امیدواروں کی حتمی فہرست اور امیدواروں کے انتخابی نشان کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ ملک بھر سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر مجموعی طور پر 17 ہزار 816 امیدوار الیکشن لڑیں گے۔ مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے 6 ہزار 31 امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب لڑیں گے، جبکہ 11 ہزار 785 آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں پر 882 خواتین اور 4 خواجہ سرا الیکشن لڑیں گے۔ پنجاب میں حساس پولنگ اسٹیشنوں کی بھی نشان دہی کرلی گئی ہے۔ چیف سیکرٹری سفارش کریں گے کہ انہیں صوبے میں فوج، رینجرز اور پولیس چاہیے، ان کی سفارش کے بعد پنجاب میں پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے آرمی، رینجرز اور پولیس تعینات کی جائے گی۔ آرمی، رینجرز اور پولیس کے دستے 5 اور 7 فروری کو فلیگ مارچ کریں گے، جبکہ دفعہ 144 کے تحت ہوائی فائرنگ اور اسلحہ کی نمائش پر یکم سے 12فروری تک پابندی عائد کردی جائے گی۔
قومی اسمبلی کے انتخاب کے بعد ملک میں دو بڑے انتخابات ہوں گے۔ پہلا انتخاب سینیٹ اور اس کے بعد ملک میں صدارتی انتخاب ہوگا۔ یہ دونوں انتخابی معرکے قومی اسمبلی کے انتخابی معرکے سے زیادہ حیران کن ہوں گے۔
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں آزاد امیدواروں کی بڑی کھیپ اسمبلی میں آئے گی جو بڑے بڑے سیاسی ناموں کو شکست دیں گے۔ یقین کی حد تک امکان ہے کہ ستّر فیصد ایسے لوگ اسمبلیوں میں پہنچنے والے ہیں جو پہلی بار انتخاب لڑ رہے ہیں۔ بڑے بڑے برج الٹنے والے ہیں جس سے حکومت سازی کا خواب بھی بکھر جائے گا۔ مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟ خاص بات یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کا ہے، رائے دہندگان میں ستّر فیصد ووٹر نوجوان ہیں !
حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کو قرض کی دوسری قسط جاری کردی ہے اور ساتھ شرائط بھی پیش کی ہیں۔ نئے مطالبات میں آئی ایم ایف نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافہ نہ کیا جائے، صوبوں کو رواں مالی سال کے لیے 401 ارب روپے کا پرائمری سرپلس کا ہدف حاصل کرنا ہوگا، صوبائی حکومتیں اخراجات کو کم کریں، گزشتہ دس سال سے اجناس کی خریداری کے واجبات ادا کریں۔ ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ شناخت شدہ ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ایف بی آر ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم تیار کرے، اور ساتھ ساتھ بجلی بلوں کے ذریعے انکم ٹیکس وصولی کے لیے اقدامات کرے۔ ٹیکس نیٹ سے باہر دکان داروں کی رجسٹریشن شروع کی جائے گی، معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے 145 ادارے اپنی معلومات ایف بی آر کو دیں گے، بجلی کی تقسیم کا نظام تبدیل ہوگا کہ حکومتی ڈسکوز کا انتظامی کنٹرول رواں سال نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا، رواں سال کیپٹو پاور پلانٹس کی گیس سپلائی بند کردی جائے گی۔ کیپٹو پاور پلانٹس کے باعث بجلی کی کیپیسٹی ادائیگی میں اضافہ ہوا، فرٹیلائزر پلانٹس کی گیس کی قیمت دیگر صنعتوں کے برابر کی جائے گی، ساورن ویلتھ فنڈ کی کمپنیوں کو حکومتی کمپنیوں کے قانون کے تحت ہی چلایا جائے گا۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کے مطالبے پر ہوگا۔
قومی معیشت میں جہاں روپے کی قدر میں بہتری کی مثبت صورتِ حال نظر آتی ہے، وہیں قرضوں کے مسلسل بوجھ اور مہنگائی اور بے روزگار ی کی شکل میں حالات کی ابتری بھی نمایاںہے ۔ آئی ایم ایف کی جاری کردہ رپورٹ پرنگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنا ردعمل دیا ہے کہ آئی ایم ایف نے جو خطرہ ظاہر کیا ہے وہ معاشی اصلاحات کے نفاذ پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے لیے بڑامسئلہ ہے۔ اس عالمی ادارے نے گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے پر اتفاق کیا ہے جس کا اعلان 15 فروری تک متوقع ہے۔رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ دو طرفہ شراکت داروں سے منصوبہ بند مالی اعانت کی تقسیم میں تاخیر حکومت کے پروگرام کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی دوسری قسط سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9.10ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری کی بنیاد رکھ رہے ہیں لیکن ریکارڈ مہنگائی عالمی سطح پر ہے، جب تک معاشی بہتری کے ثمرات عام آدمی تک نہ پہنچیں اُس وقت تک اعداد و شمار کے گورکھ دھندے بے معنی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیر ضروری اخراجات روکے جائیں۔
عام انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ کیا عام انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہو سکے گا، یا حالات مزید ابتری کا شکار ہوجائیں گے؟ کیا آنے والی حکومت معیشت کی مستقل بنیادوں پر بحالی کے لیے درکار ٹھوس اقدامات اور اصلاحات پر عمل درآمد کرپائے گی؟ یا ہم کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے یونہی عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ایک کے بعد ایک قرضے یا مالیاتی اعانت کے لیے خوار ہوتے رہیں گے؟ ایک بحران سے نکلنے کے لیے ایک نیا بحران پیدا کرنے کی روش جاری رہے گی؟اس وقت عوام کو درپیش اہم مسائل میں مہنگائی اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ سرفہرست ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کی متمنی ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں یہ بات ضرور لکھتی ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے گا، لیکن اس کے لیے روڈمیپ تیار کرنے کی زحمت کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی قیادت عوام کو اعتماد میں لے اور ان کے سامنے ملک کی معاشی بحالی کا حقیقت پر مبنی ایجنڈا پیش کرے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے قرض پروگرام کے حوالے سے سیاسی یقین دہانیاں بھی حاصل کی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف اسٹاف نے جولائی 2023ء میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد قرض پروگرام پر سیاسی جماعتوں کی یقین دہانی حاصل کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے قرض پروگرام کے مقاصد اور پالیسیوں کی تحریری طور پر حمایت کی۔ دونوں جماعتوں نے قرض پروگرام کو معاشی استحکام کے لیے اہم قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے بھی گزشتہ سال جولائی میں موجودہ قرض پروگرام کی حمایت کی تھی۔ اب آئی ایم ایف کی ان شرائط کا جواب دیتے ہوئے نگران حکومت نے آئی ایم ایف کو ایمرجنسی ٹیکس وصولی پلان بھی پیش کردیا ہے، جس کے تحت رواں مالی سال ٹیکس وصولی میں کمی کی صورت میں نئے اقدامات تیار کیے گئے ہیں، چینی پر 5 روپے فی کلو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اس سے ماہانہ 8 ارب روپے کی اضافی آمدن ہوگی۔ ٹیکسٹائل اور لیدر پر جی ایس ٹی 15 فیصد سے بڑھاکر 18 فیصد کیا جائے گا، اس سے ایک ارب روپے ماہانہ اضافی آمدن ہوگی۔ مشینری کی درآمد پر ایک فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے سے 2 ارب روپے ماہانہ اضافی حاصل ہوں گے۔ انڈسٹری کے خام مال کی درآمد پر اعشاریہ پانچ فیصد ٹیکس بڑھانے سے 2 ارب روپے ماہانہ کی اضافی آمدن ہوگی۔ خدمات پر ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے سے ایک ارب 50 کروڑ روپے ماہانہ کی اضافی آمدن ہوگی۔ ٹھیکوں پر ودہولڈنگ ٹیکس ایک فیصد بڑھانے سے ایک ارب 50 کروڑ روپے ماہانہ، کمرشل خام مال درآمدات پر ایک فیصد اضافی ٹیکس سے ایک ارب روپے ماہانہ اور ودہولڈنگ ٹیکس بڑھانے سے ایک ارب روپے ماہانہ کی اضافی آمدن ہوگی۔ ایف بی آر نے مزید ٹیکس لگانے کے منصوبے سے آئی ایم ایف کو آگاہ کردیا ہے۔