انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی اس کے بعدلوگوں میں نظام کی تبدیلی کی بحث میں مزید شدت دیکھنے کو ملے گی
تمام تر خدشات، خوف اور غیر یقینی حالات میں ہم عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ ابھی بہت سے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کچھ بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ ٹرین انتخابات کی پٹری سے اترجائے۔ لیکن اب جو حالات نظر آرہے ہیں اُن میں یہ منصوبہ نظر آتا ہے کہ انتخابات بھی ہوں گے اور غیر یقینی حالات بھی پسِ پردہ قوتوں کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ملکی سطح پر تاریخ کے پہلے عام انتخابات دیکھ رہے ہیں جو کسی بھی طرح انتخابات کا منظر پیش نہیں کرتے، نہ ہی روایتی سیاست اور نہ ہی روایتی انتخابی مہم ہمیں کسی بھی سطح پر دیکھنے کو مل سکی۔ اسی طرح یہ تاریخ کا پہلا انتخاب ہے جو انعقاد سے پہلے ہی اپنی تصویر پر کئی سیاسی دھبے لگا چکا ہے اور انتخابات کی شفافیت کا ماحول کسی بھی سطح پر دیکھنے کو نہیں مل سکا۔ اگرچہ یہ کوئی پہلے انتخابات نہیں جو عدم شفافیت کا شکار ہیں، بلکہ یہ کہنا ہوگا کہ ہماری انتخابی تاریخ ہی عدم شفافیت کا شکار ہے اور ہمیں کبھی بھی عوامی مینڈیٹ پر مبنی شفاف انتخابات دیکھنے کو نہیں مل سکے۔ مگر اِس دفعہ تو انتخابات کے نام پر ماضی کے مقابلے میں اور زیادہ خرابیاں یا خوفناک مناظر دیکھے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بطور ریاست سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی میں کہاں کھڑے ہیں۔
اب یہ بات ہر سطح پر تسلیم کی جارہی ہے اور بہت سے سیاسی پنڈت، تجزیہ نگار اور اہلِ دانش کھل کر لکھ رہے ہیں کہ ان انتخابات کو بنیاد بناکر ہم مستقبل میں سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ یہاں تک لکھا جارہا ہے کہ انتخابات کے نام پر جو سیاسی ڈرامہ اِس دفعہ اسٹیج پر لگایا گیا ہے وہ انتخابات سے پہلے ہی متنازع ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم انتخابات سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا انتخابات کا مقصد محض ایک رسمی اور جمہوری کارروائی مکمل کرکے دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم جمہوریت کی طرف بڑھ رہے ہیں، یا انتخابات کی بنیاد پر ہم نہ صرف شفافیت کا نظام، بلکہ ریاستی سطح پر مکمل سیاسی اور معاشی استحکام چاہتے ہیں۔ انتخابات کا ہونا پہلی جمہوری شرط ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر انتخابات کی شفافیت اور اقتدار کی منتقلی کا شفاف نظام ہوتا ہے جس میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ کوئی بھی 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کی ساکھ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، اور جو لوگ سیاسی طور پر بہتر پوزیشن پر ہیں اور جیت سکتے ہیں اُن کے بقول بھی یہ جیت ہمیں سیاسی طور ہضم نہیں ہوسکے گی، کیونکہ انتخابات کے عمل کو مفلوج بناکر کیا انتخابی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟ اور کیا اس طرز کے عمل کو بنیاد بناکر دنیا ہمارے جمہوری اور انتخابی نظام کو قبول کرلے گی؟
ملک کے سیاسی منظرنامے کو دیکھنا یا سمجھنا ہے تو ہمیں رجیم چینج کے عمل سے شروع کرنا ہوگا۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی کوئی اچھی مثالیں نہیں، لیکن اگر موجودہ بحران کا تجزیہ کرنا ہے تو اس کا ایک نقطہ رجیم چینج سے جڑا ہوا ہے۔ رجیم چینج کے بعد سے لے کر اب تک کے سیاسی حالات کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں سوائے سیاسی مہم جوئی اور سیاسی ایڈونچرز کے اور کچھ نہیں ملتا۔ اس دور میں سیاسی انجینئرنگ کی بدترین مثالیں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر جو بددلی اور مایوسی پھیل رہی ہے وہ مستقبل کے سیاسی اور معاشی منظرنامے سے جڑی ہوئی ہے، اور لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری ریاستی سمت درست نہیں، اور ہم کسی غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ سیاسی محبتو ں اور سیاسی نفرتوں کی بنیاد پر قائم کی جانے والی حکومتوں یا حزبِ اختلاف کا کھیل ہمیں آگے کی طرف نہیں بلکہ پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ یہ حالات کسی اور نے نہیں پیدا کیے، بلکہ ہم خود ان حالات کے ذمہ دار ہیں، اور وہ سب فریق جو فیصلہ کرنی کی طاقت رکھتے ہیں بگاڑ کے اس کھیل میں کم یا زیادہ حصہ دار بنے ہوئے ہیں، لیکن مجال ہے کہ کسی کو اس بات کی فکر ہو کہ ہماری غلطیوں سے ریاستی نظام کمزور ہورہا ہے۔ یہ صورتِ حال ظاہر کرتی ہے کہ ہم اگر انتخابات کے عمل کے بعد حالات کا بگاڑ ہمارا پیچھا کرتا رہے گا۔کیونکہ ہم نے مجموعی طور پر آئین و قانون کو بنیاد بنانے کے بجائے اپنی خواہشات کو بالادستی دے دی ہے، اور اس کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کچھ بہتر کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے، یا ہماری ترجیحات ریاستی سطح کی ترجیحات سے بالکل مختلف ہیں۔
فروری 2024ء کے انتخابی منظرنامے کی بنیاد پر تین سطحوں پر کام ہورہا ہے:
(1) مسلم لیگ (ن) کو آگے لایا جائے اور اُس کے ساتھ مختلف چھوٹی، بڑی جماعتوں بشمول پیپلزپارٹی کو اتحادی حکومت کا حصہ بنادیا جائے۔ اس حکومت کی سربراہی شہبازشریف کو ہی دی جائے جن پر اسٹیبلشمنٹ نوازشریف سے زیادہ انحصار کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کو حزبِ اختلاف کا حصہ بنایا جائے۔
(2) مرکز میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان اور دیگر اتحادی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پیپلزپارٹی کو آگے لایا جائے اورمسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن کا حصہ بنایا جائے۔ اسی فارمولے کے تحت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مسلم لیگ (ن) کو دی جائے لیکن مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب نہ ہوں۔
(3) پی ٹی آئی کے جو بھی آزاد ارکان جیتیں اُن کی ایک نئی بکرا منڈی اسلام آباد میں سجائی جائے اور انہیں ایک ایسی جماعت میں دھکیلا جائے جسے اقتدار میں لانے کا منصوبہ ہے۔
اسی طرح یہ بھی طے لگتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی سادہ اکثریت کے ساتھ سامنے نہیں آسکے گی، اور دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہی اقتدار کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ نوازشریف کے مقابلے میں آصف زرداری اسلام آباد پر اقتدار کے کھیل میں بڑے حصے دار بننے کے لیے خاموش سفارت کاری کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے وہ اپنا سیاسی راستہ مضبوط بناکر اسلام آباد میں اقتدار کو یقینی بناسکیں، اور ان کو لگتا ہے کہ نوازشریف کی سیاست اور اُن کی انتخابی سیاست سے عدم دلچسپی، اور جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے اس سے وہ سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ نوازشریف پاکستان واپس آنے کے بعد سے بہت پیچھے کھڑے ہیں اور ان کے جوش پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نوازشریف کو بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ جو کچھ اُن کو بتاکر یہاں لایا گیا تھا حالات یہاں کے اُس سے بہت مختلف ہیں۔ خاص طور پر نوازشریف کی مقبولیت وہ نہیں ہے جو سمجھی جارہی تھی۔ کیونکہ نوازشریف کے حامیوں کا خیال تھا کہ نوازشریف کی واپسی یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کے مُردہ جسم میں جان ڈال دے گی اور عمران خان کی مقبولیت پیچھے رہ جائے گی۔ روزنامہ ڈان کے ہی حالیہ سروے کو دیکھیں اور اس کے نتائج پر نظر ڈالیں تو اس کے مطابق 67 فیصد پی ٹی آئی، 16فیصد مسلم لیگ (ن)، 10فیصد پی پی پی، 4فیصد جماعت اسلامی لوگوں کی پسندیدہ جماعتیں ہیں۔ اس سے قبل جو بھی انتخابی سروے ہوئے ہیں اُن میں ایسے ہی نتائج سامنے آئے ہیں، البتہ گیلپ میں مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کی مقبولیت میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔انتخابی سروے سے باہر نکل کر دیکھیں تو بھی آپ کو جو انتخابی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اورجس طرح سے ایک جماعت پی ٹی آئی پر عملًا پابندی ہے، وہ ظاہر کرتی ہے کہ جو قوتیں ملک میں اپنی مرضی کے انتخابی نتائج چاہتی ہیں ان کو مختلف محاذوں پر کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے پر سوالات موجود ہیں۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا الیکشن والے دن ووٹروں کو آزادی کے ساتھ ووٹ ڈالنے کی اجازت ہوگی؟ کیونکہ یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ انتخابات والے دن ٹرن آئوٹ کم کرنا ہے اور ووٹروں میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا ہی رخ نہ کریں۔کیونکہ منصوبہ ساز چاہتے ہیں کہ نوجوان کم سے کم نکلیں تاکہ عمران خان کی سیاست کو مزید کمزور کیا جائے۔ یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ اگر بڑی تعداد میں ووٹ پڑتے ہیں تو اس کا براہِ راست فائدہ عمران خان کی سیاست کو ہوگا اورنقصان اُن کے سیاسی یا غیر سیاسی مخالفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔
انتخابات کے بعد کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس میں چھ پہلو نمایاں نظر آتے ہیں:
(1)انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھے گا، ان کی حیثیت خاصی متنازع رہے گی اور کوئی ان انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کرے گا۔ انتخابات کے بعد ان کے نتائج کو بنیاد بناکر سیاسی محاذ آرائی، ٹکرائو، کشیدگی اور تنائو بڑھے گا جو قومی سیاست میں مزید تلخیوں کو جنم دینے کا سبب ہوگا۔
(2) جس کی بھی حکومت بنے گی وہ کمزور، مفلوج اور بڑے فیصلے کرنے سے محروم ہوگی، یہ حکومت چند ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہوگی۔
(3) جو بھی حکومت بنے گی اس کی طاقت کی بنیاد اسٹیبلشمنٹ ہوگی۔ حکومت اُسی کے سہارے پر کھڑی ہوگی اور وہی فیصلے کرے گی جو اُسے اسٹیبلشمنٹ کہے گی۔ یعنی حکومت بننے کے کچھ عرصے بعد ہمیں ایک بار پھر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو دیکھنے کو ملے گا۔
(4) سیاسی اور معاشی استحکام سمیت سیکورٹی کے مسائل سرفہرست ہوں گے اور عدم استحکام کی کیفیت قومی سطح پر غالب ہوگی۔
(5) ایک کمزور حکومتی ڈھانچہ اپنی سیاسی بقا کی جنگ ہی لڑے گا، اور مشکل اور سخت اصلاحات اُس کے بس میں نہیں ہوں گی، اور یہ حکومت سمجھوتوں کے تحت ہی چلے گی۔
(6) ان انتخابات کے بعد ملک میں سیاسی اور غیر سیاسی کی تقسیم افراد اور اداروں کی سطح پر مزید بڑھے گی جو سیاسی تلخیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی دشمنیوں کی طرف لے کر جائے گی، یا مختلف فریقوں میں مزید عدم اعتماد پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح جو بھی ناکامی ہوگی اس کا ملبہ جہاں نئی حکومت پر پڑے گا وہیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی تنقید بڑھے گی اور لوگ صورتِ حال کی ذمہ داری اس پر بھی ڈالیں گے۔ اس بات کا امکان موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بھی نیا ٹکرائو دیکھنے کو مل سکتا ہے،کیونکہ جس انداز سے سیاسی کھیل سجایا جارہا ہے خود نوازشریف بھی ان حالات سے خوش نہیں اور اُن کو لگتا ہے کہ ہمارے پاس پانے کے لیے کم اور کھونے کے لیے زیادہ ہوگا۔
اصل میں یہ جو ہم نے ایک نیا فارمولا تشکیل دیا ہے کہ ہمیں ریاستی سطح پر کمزور سیاسی حکومتوں کی مدد سے ہی آگے بڑھنا ہے یہ ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔کیونکہ ہم مصنوعی انداز میں سیاسی اورجمہوری نظام چلانا چاہتے ہیں اور سیاسی لوگوں یا سیاسی حکومتوں پر اعتبار کرنے یا بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں سیاسی اور جمہوری نظام کیسے آگے بڑھ سکے گا؟ کیونکہ جب ہم کو اپنی مرضی اور خواہش کے ساتھ سیاسی نظام چلانا ہے یا اس کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے تو پھر سیاسی استحکام کی باتیں بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ان انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی اس کے بعدلوگوں میں نظام کی تبدیلی کی بحث میں مزید شدت دیکھنے کو ملے گی اورلوگوں کو اندازہ ہوگاکہ یہ نظام اپنی مدت پوری کرچکا ہے اورہمیں نئے نظام کی طرف پیش رفت کو آگے بڑھانا ہوگا۔