کوئی بھی بزم ہو، اٹھ کر سوال کرتے رہو

پاکستان ایک ملک نہیں ایک تخلیق ہے، اور تخلیق اپنے بنیادی جوہر میں ایک سوال ہوتی ہے۔ ہر سوال سے محبت کرنے اور اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ اس کا جواب دیا جائے، اور ہر جواب کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے۔

زندگی ایک تغیر پذیر اور لامحدود عمل ہے تو اس کا تعلق جواب سے زیادہ سوال کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ جواب کا مطلب کسی بات کو محدود کرنا ہے اور سوال کا مطلب اسے لامحدود بنانا ہے۔ جواب اطمینان کا نام ہے اور سوال اضطراب کا۔ دنیا کے تمام بڑے لوگوں نے اضطراب کو علم کے حصول کے سلسلے میں بنیادی محرک اور ذریعے کی حیثیت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کی فکر کا آغاز ایک سوال سے ہوا ہے۔

سوال کی اس اہمیت کے پس منظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے صرف وہی معاشرے طویل عمر اور استحکام حاصل کرتے ہیں جن میں سوال سے رغبت کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے معاشرے روحِ کائنات کے ساتھ زیادہ دنوں تک ہم آہنگ رہتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں کائنات کے ہر عنصر کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کے لیے کوئی شے بھی بے جواز نہیں ہوتی۔ شاید اس لیے کہ وہ معاشرے یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سوال در سوال کے عمل میں ہر چیز کبھی نہ کبھی کارآمد بن جاتی ہے۔

جن معاشروں میں سوال کرنے کا عمل ترک کردیا جاتا ہے اُن معاشروں میں زندگی تبدیلی کے بجائے مسخ ہونے کے عمل کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسے معاشرے مسخ ہونے کے عمل کو تبدیلی کا عمل سمجھ کر برسوں اور بسا اوقات صدیوں تک اپنے فطری ارتقا سے محروم رہتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسخ ہونے کا عمل بھی تبدیلی ہی کا عمل ہوتا ہے، لیکن اس عمل میں سمت اور منطق کا فقدان ہوتا ہے، جب کہ تبدیلی کی ایک واضح سمت ہوتی ہے، اور اس کی خارجی ہی نہیں اپنی ایک داخلی منطق بھی ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ سوال کے عمل کی بیخ کنی یا اس کی حوصلہ شکنی کیوں کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی معاشرہ وسیع تر مفہوم میں اپنے وجود کی اصولی Justification سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ سوال کے عمل کی بیخ کنی کرتا ہے بلکہ وہ اس عمل کو اپنا فرض سمجھ لیتا ہے۔ آپ اس مثال کو فرد، گروہ اور تنظیموں پر بھی مطبق کرسکتے ہیں۔

سوال سے ڈرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سوال کسی بھی مسئلے کا ایک حد تک تعین کردیتا ہے۔ انسان کی اگرچہ پوری تگ و دو یہی نظر آتی ہے کہ وہ کسی طرح اپنے ہر مسئلے کا تعین کرلے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان مسئلے کے تعین سے ڈرتا بھی بہت ہے، کیوں کہ مسئلے کا تعین اس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر ذمہ داریوں سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ذمہ داریوں سے بھاگنے کے عمل کے وسیلے سے اس کی بہت سی ذمہ داریاں ادا ہوجاتی ہیں۔ اسے میں انکار سے اقرار کی پیدائش کا عمل کہتا ہوں۔

سوال سے گریز کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ ہمارے منجمد خیالات میں تحرک پیدا کرکے ہمیں سوچنے پر اکساتا ہے۔ سوچنے کے عمل سے آگہی پیدا ہوتی ہے۔ یہ آگہی محدود اور لامحدود ماحول میں ہمارے وجود کی مقدار اور معیار کا تعین کرتی ہے جو کہ ظاہر ہے بہت حقیر بھی ہوسکتا ہے۔ بھلا حقیر ہونا صوفیوں اور فن کاروں کے سوا کسے قابلِ قبول ہوا ہے؟

سوال سے لوگ اس لیے بھی بدکتے ہیں کہ وہ مخاطب سے جواب کا طالب ہوتا ہے۔ کسی سوال کا جواب دے کر ہر شخص اپنی شناخت متعین کردیتا ہے۔ بیمار معاشروں میں چند ہی لوگ ایسے ہوا کرتے ہیں جو اپنی شناخت کے تعین سے نہ ڈرتے ہوں۔ سوال کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ سوال کرنے والا کسی دوسرے شخص یا پورے معاشرے سے مکالمہ کرنا چاہتا ہے۔ مکالمے میں مبتلا ہونے کا مطلب ہے اپنے وجود سے باہر موجود قوت سے رابطہ پیدا کرنا… اور رابطہ پیدا کرنا ایک انسانی عمل ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے اب اس حد تک غیر انسانی ہوچکے ہیں کہ بیشتر افراد کسی دوسرے وجود سے بامعنی رابطے سے خوف کھاتے ہیں۔ چنانچہ لوگ سوال سے بھی خوف کھاتے ہیں۔

سوال کی اہمیت پر اس قدر زور دینے سے میری مراد یہ نہیں کہ سوال ہی سب کچھ ہے، جواب کچھ بھی نہیں۔ جواب کی بھی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ جواب سوال کی تکمیل کرتا ہے۔ البتہ اس کی اہمیت سوال سے کم ہے، کیوں کہ وہ ہمیشہ سوال کے بعد آتا ہے، اور پھر جواب کے بعد بھی ایک سوال آتا ہے۔ اس اعتبار سے ہر جواب دو سوالوں کے درمیان ہوتا ہے۔

سوال و جواب کی اس مختصر اور سرسری بحث کے پس منظر میں جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو بڑی تشویش ہوتی ہے، کیوں کہ ہمارے یہاں ہر سطح پر سوال کے عمل کی بیخ کنی ہورہی ہے۔ بلکہ بیخ کنی کیا، ایسا لگتا ہے جیسے پورا معاشرہ صرف سوال کو ہلاک کرنے کے لیے ہی زندہ ہے۔

اگر یہ صورتِ حال سیاست و معاشرت تک محدود ہوتی تو کوئی بات نہیں تھی۔ مگر یہ صورتِ حال ادب اور مذہب جیسے میدانوں میں بھی موجود ہے جو بڑی ہی تشویش ناک ہے۔ شعر و ادب کے حوالے سے اس لیے خطرناک ہے کہ ان کی روح ہی سوال ہے۔ اگر آپ ان سے سوال کے عمل کو خارج کردیں تو ان کی روح قبض ہوجائے گی۔ شعر و ادب کی روح قبض ہونے کا مطلب ہے معاشرے کی روح کا قبض ہونا۔ مذہب کے حوالے سے سوال کے عمل کی بیخ کنی اس لیے خطرناک ہے کہ اس طرح مذہب زمان و مکان سے رابطہ توڑ کر معاشرے تک محدود ہوجاتا ہے۔

میں جب کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرتا ہوں تو پاکستان کا قیام مجھے ایک عظیم سوال کی تشکیل کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ کوئی ایسا ملک نہیں تھا کہ جو دنیا کے نقشے پر پہلے سے موجود ہو۔ اسے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی روح نے قائداعظم کی قیادت میں تخلیق کیا تھا۔ پاکستان ایک ملک نہیں ایک تخلیق ہے، اور تخلیق اپنے بنیادی جوہر میں ایک سوال ہوتی ہے۔ ہر سوال سے محبت کرنے اور اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ اس کا جواب دیا جائے، اور ہر جواب کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ اس کے بارے میں سوال کیا جائے۔

کوئی بھی بزم ہو، اٹھ کر سوال کرتے رہو /شاہنوازفاروقی

افلاطون کی اکیڈمی میں تعلیم کا بنیادی طریقہ سوال و جواب کی صورت میں رائج تھا۔ طالب علم جمع ہوتے تھے اور کسی موضوع پر سوال و جواب کرتے تھے۔ افلاطون جب یہ محسوس کرتا تھا کہ طالب علم میں مطلوبہ استعداد پیدا ہو گئی تو وہ طالب علم کو فارغ کر دیتا تھا۔

اس کے برعکس ہمارے تعلیمی اداروں کی صورتِ حال یہ ہے کہ وہاں نہ کوئی سوال کرتا ہے اور نہ کوئی جواب دیتا ہے، اور اگر کبھی سوال و جواب کی صورت نکلتی ہے تو مناظرے کا رنگ اختیار کرلیتی ہے جس کا بنیادی مقصد اپنی مریضانہ اَنا کو تسکین دینا ہوتا ہے نہ کہ حقیقت کی تلاش۔ اس کے برعکس گفتگو کا مقصد اَنا کی تسکین کے بجائے حقیقت کی تفتیش ہوتا ہے۔ کاش اس عظیم تخلیق میں ایک ادارہ افلاطون کی اکیڈمی کی طرح کا بن سکے۔ بہرحال آخرمیںایک شعر سنا کر آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔ شعر یہ ہے:

نظامِ زیست کی حرمت بحال کرتے رہو
کوئی بھی بزم ہو، اٹھ کر سوال کرتے رہو

یعنی سوال کیجیے اور وہ بھی اٹھ کر، تاکہ آپ کی اور جواب دینے والے دونوں کی شناخت متعین ہوسکے اور معاشرے سے کم از کم دو منافق کم ہوسکیں۔