ایران مخالفین پاکستان کی سرزمین پر پناہ لیتے ہیں اور پاکستان مخالف بلوچ مسلح گروہ ایرانی حدود کا استعمال کرتے ہیں
ایران اور پاکستان کے درمیان تعلق، اعتماد کا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خصوصاً پاکستان محتاط طور پر چل رہا ہے۔ امام خمینی کے انقلاب 1979ء سے پہلے شاہ کی حکمرانی کے دوران تعلقات باہمی ترجیحات اور مفادات کے تحت اچھے تھے۔ شاہ کو ایران کے اندر سوشلسٹ اور مذہبی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا تھا۔ پاکستان کے صوبۂ بلوچستان سے ملحقہ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان کے اندر بلوچ قومی اور مسلکی (سنی) اعتقاد کے تحت تہران کی پالیسیوں کو موافق نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر شاہ کی حکومت کو پاکستان کی خصوصاً قوم پرست سیاسی تحریکات اور سوشلسٹ حلقے کھٹکتے تھے۔ 1970ء کی دہائی میں شاہ حکومت اس پہلو پر پاکستان کی معاون تھی، کیونکہ بلوچ سیاسی جماعتیں ایرانی سیستان و بلوچستان پر بلوچ وحدت کا دعویٰ رکھتی ہیں۔ امام خمینی کے انقلاب کے بعد سخت گیر پالیسیوں کے باعث سرحدی منطقوں کے سنی عوام میں مسلکی اور مذہبی استحصال کا احساس گہرا ہوا۔ اس وقت سیستان و بلوچستان میں قومی، نسلی اور مذہبی شناخت کے عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ تہران اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ تنائو سے مزاحمت کا یہ پہلو مزید نمایاں ہوا ہے۔ سدباب کی پالیسی اور حکمت عملی کے تحت ایران ایک عرصے سے برابر پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ 16جنوری2024ء کی شام ایران نے ضلع پنجگور میں سبزکوہ کے مقام پر گھروں پر میزائل داغے، جس کے نتیجے میں وہاں کے رہائشی دو بچے جاں بحق ہوگئے، اور خاتون سمیت دو بچیاں زخمی ہوئیں۔ ایران نے دعویٰ کیا کہ پنجگور کے اندر ایرانی باشندوں کو ہدف بنایا ہے جن کا تعلق ایران مخالف جیش العدل سے تھا۔ یہ ننگی جارحیت پاکستان کے لیے سبکی اور شرمندگی کا باعث بنی۔ چناں چہ چار و ناچار پاکستان نے 17اور18جنوری کی شب ایران کے علاقے سراوان میں حق آباد اور اس سے متصل مقامات پر سات میزائل داغے اور ڈرون حملہ کیا جس میں دس افراد مارے گئے۔ ایرانی حکام نے تسلیم کیا کہ نشانہ بننے والے پاکستانی تھے۔ پاکستان کا الزام ہے کہ اس میں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے پانچ عسکریت پسند مارے گئے۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کا کہنا ہے کہ ان کا ایک رکن دوستا محمود اور اس کا خاندان نشانہ بنا جو ایران میں پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ پاکستان نے اس حملے کو ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ کا عنوان دیا۔ بلوچ عسکریت پسند گروہ اپنے جنگجوئوں کو سرمچار کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس بلوچی لفظ کے معنی جان فدا کرنے والے یا سرفروش کے ہیں۔ تہران الزام لگا چکا ہے کہ گزشتہ ماہ یعنی دسمبر 2023ء میں ایران کے شہر راسک میں پولیس تھانے پر حملہ کرنے والے ملزمان کے ٹھکانے پنجگور کے سبزکوہ میں موجود تھے۔ پاکستان کہتا ہے کہ ایران کے حق آباد میں پاکستان مخالف تربیتی کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بہرحال دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی اس انتہا پر پہنچی کہ پاکستان نے تہران میں تعینات اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور ایران کے سفیر کو پاکستان واپس آنے سے روک دیا، تب وہ ایران میں تھے۔15جنوری کو ایران کے نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان حسن کاظمی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے تو اس دوران پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ وفد کی آمد کا مقصد افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی زیرغور لانا ہے کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ ایران نے عراق اور شام میں بھی میزائل حملے کیے تو کیا وہاں موجود داعشیوں کا تعلق بھی افغانستان سے تھا؟ درحقیقت داعش ایک سنگین مسئلہ ہے جس سے افغان حکومت خود بھی متصادم ہے۔ کابل کہتا ہے کہ ان کے ہاں داعش کے لوگ پاکستان اور تاجکستان سے آتے ہیں۔
غرض پاکستان نے ایران سے مختلف اوقات میں تعاون بھی کیا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران مخالفین پاکستان کی سرزمین پر پناہ لیتے ہیں اور پاکستان مخالف بلوچ مسلح گروہ ایرانی حدود کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی فورسز پر کئی سنگین حملوں کے بعد بلوچ عسکریت پسند ایران کی حدود میں داخل ہوگئے ہیں۔ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مسلح تحریک موجود ہے جو وقتاً فوقتاً وہاں سیکورٹی فورسز پر حملے کرتی ہے، سیکورٹی حکام کو ہدف بناتی ہے، ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔
ایرانی بلوچستان میں قومی حقوق اور مذہبی تحفظ کے مؤقف وعنوان سے عبدالمالک ریکی متحرک ہوئے، جنہوں نے 2002ء میں جنداللہ کے نام سے گروہ منظم کیا اور پاکستان سے ملحقہ ایران کے سرحدی علاقوں میں درجنوں بڑے حملے کیے۔ دسمبر 2005ء میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے قافلے پر حملہ کیا، جو ناکام رہا۔ مارچ 2006ء میں جنداللہ نے زاہدان زابل سڑک پر 23 مسافروں کو اتار کر قتل کردیا۔اس واقعے کے بعد جنداللہ کو شہرت ملی۔ 2007ء کے بعد تنظیم کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ اکتوبر 2009ء میں جنداللہ نے سرحدی شہر زاہدان میں پاسدارانِ انقلاب اور مقامی عمائدین کی مجلس میں خودکش بم دھماکا کیا جس میں پاسدارانِ انقلاب کے نائب سربراہ اور5کمانڈروں سمیت چالیس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔ تب ایران نے پہلی بار کھل کر پاکستان، امریکہ، برطانیہ اور مغرب پر جنداللہ اور عبدالملک ریکی کی حمایت کا الزام لگایا۔ ایران نے پاکستانی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ محمود احمدی نژاد نے پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں پر جنداللہ کی معاونت کا الزام لگایا، حالاں کہ پاکستان نے جنداللہ کے خلاف کئی مواقع پر ایران کا ساتھ دیا۔ اگست2007ء میں پاکستانی فورسز نے ایران سے اغوا ہونے والے 21 سرکاری اہلکاروں کو پاک ایران سرحد کے قریب مند کے پہاڑوں سے بازیاب کرکے ایران کے حوالے کیا۔ پاکستان نے عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالحمید ریکی سمیت 17 اغوا کاروں کو حراست میں لیا۔ پاکستان نے 14جنوری2008ء کو عبدالحمید ریکی کو ایران کے حوالے کردیا تھا، جنہیں 24مئی2010ء کو زاہدان میں پھانسی چڑھا دیا گیا۔ عبدالمالک ریکی کے بھائی کے لیے اُس وقت کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں بلوچ نیشنل فرنٹ نے تحریک چلائی، وہ اُسے اُس کے اصل نام کے بجائے غلام حیدر رئیسانی کے نام سے پکارتے تھے اور اپنے مظاہروں میں حکومتِ پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ بلوچستان کے شہری کو غیر قانونی طور پر ایران کے حوالے کررہی ہے۔ اُس وقت بلوچ نیشنل فرنٹ اور عبدالمالک ریکی میں بہتر تعلقات تھے۔ تاہم بعد میں بلوچ مسلح تنظیموں اور جیش العدل میںپنجگور اور کیچ میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔اکتوبر 2018ء میں جیش العدل نے تفتان سے ملحقہ ایران کے سرحدی علاقے میرجاوا سے 12 ایرانی بارڈر گارڈ کو اغوا کیا،جن میں سے دس کو بازیاب کرالیا گیا۔ اُس وقت پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ اہلکاروں کی بازیابی پاکستان کے تعاون سے ہوئی۔تاہم دو اہلکاروں عباس عابدی اور مجید ناروئی کو جیش العدل نے دو سال بعد فروری 2021ء میں ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بعد رہا کردیا۔ بدلے میں ایران نے جیش العدل کے چار قیدیوں کو ایرانی جیلوں سے رہا کیا۔عبدالمالک ریکی کو فروری 2010ء میں دبئی سے کرغیزستان جاتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ ایران کی فضائیہ نے اپنی حدود میں مسافر طیارے کو اترنے پر مجبور کیاجس میں مالک ریکی سفر کررہے تھے، اور جلد ہی موت کی سز ا دی۔ تب پاکستانی سفیر نے کہا کہ مالک ریکی کی گرفتاری پاکستان کے تعاون کے بغیرممکن نہیں تھی۔ جون 2008ء میں پنجگور سے ملحقہ ایران کے علاقے حق آباد میں پولیس چوکی سے جنداللہ نے سولہ ایرانی سیکورٹی اہلکاروں کو اغوا کیا تو اس کی ذمہ داری کوئٹہ پریس کلب فون کرکے قبول کی گئی۔
عبدالمالک ریکی کی پھانسی کے بعد جنداللہ نے نام بدل کر جیش العدل کے نام سے کام کرنا شروع کردیا۔ جیش العدل کے سربراہ حاجی ظاہر ناروئی بلوچ سے عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالرئوف ریکی کے اختلافات پیدا ہوگئے، جس کے بعد اس نے جیش النصر کے نام سے دھڑا قائم کرلیا۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالرئوف ریکی اور جیش العدل کی قیادت میں اختلافات فروری 2014ء میں ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے علاقے ’’جیکی کور‘‘ سے اغوا ہونے والے پانچ اہلکاروں میں سے ایک کے قتل کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ باقی چار اہلکاروں کو بعد ازاں 4 اپریل کو رہا کردیا گیا تھا۔ مالک ریکی کا بھائی عبدالرئوف ریکی اور بھتیجا 2014ء میں مارے گئے۔کہا جاتا ہے کہ ان کا کوئٹہ میں ہدفی قتل ہوا۔ ایران نے عبدالرئوف ریکی کی موت کو جیش النصر اور جیش العدل کی اندرونی لڑائی قرار دیا۔ تاہم جیش العدل نے اس کی تردید کی اور کہا کہ رئوف ریکی کے ساتھ اختلافات ضرور تھے لیکن ان کی نوعیت ایسی نہ تھی کہ نوبت تصادم تک پہنچتی۔ عبدالرئوف ریکی کی موت کے دو سال بعد 2016ء میں جیش العدل اور جیش النصر نے دوبارہ اتحاد کرلیا۔
2010ء میں مالک ریکی کی گرفتاری کے بعد جنداللہ کمزور ہوئی، اس کے بعد 2012ء میں ظاہر نارروائی اور ملا عمر و دیگر سینئر ارکان نے جنداللہ کا نام بدل کر جیش العدل کے نام سے تنظیم بنائی۔ جیش العدل نے بھی کئی مہلک حملے کیے۔ 2012ء میں اپنے قیام کے بعد سے اس تنظیم نے تین سو سے زائد حملوں میں ایران کے سیکڑوں سیکورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔ سبزکوہ جنداللہ کے نائب سربراہ ملاہاشم کا علاقہ بتایا جاتا ہے جو 2018ء میں ایران کے شہر سراوان میں ایرانی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں پانچ ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ (جیش العدل اور دیگر مسلح تنظیمیں پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتی ہیں، دوسری بات جو واقعی ناقابلِ فہم اور پیچیدہ نہیں ہے، یہ ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کی سرحد پر آباد بلوچ دہری شہریت کے حامل ہے، اگر شہریت نہ بھی ہو تو باڑ لگنے اور دیگر رکاوٹوں کے باوجود سرحد کے آر پار آنا جانا ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں ہے۔ دونوں طرف کی آبادیاں قومی، نسلی، تہذیبی، مذہبی ارتباط کی حامل ہیں۔ باہمی رشتوں میں منسلک ہیں۔ ان کی تجارت اور کاروبار جڑا ہوا ہے۔
ایران اس سے پہلے درجنوں بار پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرچکا ہے، خاص کر 2013ء اور 2014ء میں ایران کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیاں معمول تھیں۔ 2013ء کے آخری تین مہینوں میں 9 حملوں میں 5 افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ اکتوبر 2013ء میں سراوان میں پاسدارانِ انقلاب پر ایک خونریز حملے کے بعد ایرانی فورسز نے پاک ایران سرحد پر پاکستانی علاقے پنجگور میں گھس کر 2 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ چند ہفتوں بعد نومبر 2013ء میں ایران نے جیش العدل کے رہنما ملا عمر کے گھر پر حملہ کیا، جس میں وہ بچ گئے۔ یہ ایران کا پاکستان میں پہلا میزائل اور ڈرون حملہ تھا۔ اس حملے میں ایرانی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تمپ میں پاکستانی سرحد کے کوئی پچاس ساٹھ کلومیٹر اندر ملا عمر ایرانی کے گھر کو ہدف بنایا گیا۔ اس حملے میں ملا عمر کی تین سالہ بیٹی کی موت ہوئی اور خواتین اور بچوں سمیت سات رشتے دار زخمی ہوئے۔ ایران نے البتہ اعلانیہ اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی۔ ملا عمر ایرانی کے بھائی مولا بخش درخشاں نے 1990ء کی دہائی میں’’سپاہ رسول اللہ‘‘کے نام سے عسکریت پسند گروپ کی بنیاد رکھی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی عبداللہ کو ایران نے پھانسی دے دی تھی۔ مولا بخش کی وفات کے بعد ملا عمر نے تنظیم کی قیادت سنبھالی، بعد ازاں جنداللہ سے اتحاد کرلیا۔ ملاعمر نے جنداللہ کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ملا محمد عمر ایرانی نومبر2020ء میں پاکستانی فورسز سے مقابلے میں دو بیٹوں سمیت مارا گیا۔ کارروائی بلوچستان کے علاقے تربت میں سیٹلائٹ ٹائون کے مقام پر عمل میں لائی گئی تھی۔2014ء میں پنجگور میں ایرانی گولہ باری سے ایف سی کے ایک اہلکار کی موت ہوئی۔ دسمبر 2014ء میں پاکستانی سرحد کے قریب جیش العدل کے حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے دو افسران اور ایک اہلکار کے قتل کے واقعے کے بعد ایرانی سیکورٹی فورسز نے پاکستانی حدود میں چالیس سے زائد مارٹر گولے داغے جس سے کیچ میں سات پاکستانی شہری زخمی ہوگئے۔ اسی سال کیچ کی تحصیل مند میں ایرانی فورسز کی فائرنگ سے ایف سی کا ایک صوبیدار جاں بحق اور کئی اہلکار زخمی ہوگئے تھے جس پر پاکستان نے سخت احتجاج کیا تھا۔ 2017ء میں پنجگور میں پاکستان کی فضائیہ نے پہلی بار ایرانی جاسوس ڈرون مار گرایا تو یہ سلسلہ کچھ کم ہوا۔ 2019ء میں چاغی کی حدود میں فنی خرابی کے باعث ایرانی جاسوس ڈرون گرا۔ ایران نے 2014ء میں چار ایرانی سیکورٹی اہلکاروں کے اغوا کے بعد بھی پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکی دی۔ مغویوں کو بعد ازاں بازیاب کرالیا گیا۔ اس کے بعد ایران یہ دھمکیاں دہراتا رہا۔ ایران نے فروری 2019ء میں زاہدان میں پاسدارانِ انقلاب پر جیش العدل کے ایک بڑے حملے کے بعد پاکستان کے اندر کارروائی کی دھمکی دی اور اس کے بعد پاکستان کی سرحد کے ساتھ جنگی طیارے تعینات کردیے تھے۔ پاکستان بھی بلوچ مسلح تنظیموں کی کارروائیوں پر ایران سے کئی بار احتجاج کرچکا ہے۔ دسمبر 2018ء میں کیچ کے علاقے بلیدہ میں پاکستانی نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے قافلے پر کالعدم مسلح تنظیم کے ایک حملے میں 6 اہلکار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان نے ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کیا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ حملے میں ملوث تیس سے زائد حملہ آور ایران سے آئے تھے۔ اپریل 2019ء میں گوادر میں مکران کوسٹل ہائی وے پر 14 مسافروں کے قتل کے واقعے کے بعد اُس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قرار دیا تھا کہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر(براس) کے ایران میں ٹھکانے موجود ہیں۔ اسی طرح جنوری 2023ء میں پاکستان نے پنجگور میں ایک حملے میں 4 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ایرانی سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔
افغان سرحد کے بعد پاکستان نے 2018ء میں ایرانی سرحد کے ساتھ بھی باڑ لگانا شروع کی، جس کا بڑا حصہ مکمل ہوچکا ہے۔ پنجگور، کیچ اور گوادر سے ملحقہ سرحد پر 12 فٹ اونچی اور 9 فٹ چوڑی آہنی باڑ لگائی جاچکی ہے، اس کے علاوہ قلعے اور واچ ٹاورز بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ تاہم ندی نالوں میں باڑ کو نقصان پہنچنے اور دشوار گزار پہاڑوں میں اب بھی ایسے مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی آمدورفت ہوتی ہے۔