8 فروری کا دن جوں جوں قریب آرہا ہے، موسم میں بہتری محسوس ہونے لگی ہے، بادلوں کی اوٹ سے آفتاب نے چہرہ دکھانا شروع کردیا ہے جس کے سبب سردی کی شدت میں کمی نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیاست میں بھی انتخابات کا ماحول بننے لگا ہے، انتخابی جلسوں، جلوسوں، پوسٹروں اور بینروں وغیرہ کی بہار سے انتخابی گہما گہمی کا احساس ہونے لگا ہے۔ لالچ، دھونس اور دبائو کے حربوں سے مدمقابل امیدواروں کو اپنے حق میں دست بردار کروانے یا اپنی جماعت میں شامل کروانے کی اطلاعات عام ہیں۔ کل تک اقتدار کی برکات مل کر سمیٹنے والے، آج جعلی مقابلے کی فضا پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ جب موقع تھا تو بجلی کے بلوں، پیٹرول کے نرخوں اور اشیائے ضروریہ کی گرانی کے ذریعے عام آدمی کا جینا دشوار کیے رکھا، مگر آج نیا جال لائے پرانے شکاری… وہی صاحبانِ اقتدار و اختیار سیکڑوں یونٹ بجلی مفت فراہم کرنے اور مہنگائی کو مار بھگانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ عوام کی خاطر جوئے شیر نکال لانے اور دودھ و شہد کی نہریں بہا دینے کے ایسے وعدے کیے جا رہے ہیں جن کی حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
انتخابات کی اس فضا کا کمال یہ بھی ہے کہ کل تک دوسروں کو ’’سلیکٹڈ‘‘ کا طعنہ دینے والے آج خود ’’مدر آف آل سلیکٹڈ‘‘ ٹھیرائے جارہے ہیں اور ’’لاڈلا‘‘ کا اعزاز پانے کے لیے ’خلائی مخلوق‘ سے سازباز کے ملزم قرار پا رہے ہیں، جب کہ ’خلائی مخلوق‘ کا کل تک داغ دہلوی مرحوم کے الفاظ میں معاملہ یوں تھا کہ ؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
اور پھر قوم کو یہ مژدۂ جاں فزا سنایا گیا کہ ہم نے سیاست سے قطعی لاتعلقی اختیار کرنے، سیاسی معاملات میں بالکل دخل نہ دینے اور اپنے کام سے کام رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘ کے مصداق اب صورتِ احوال یہ ہے کہ اعلان کے قطعی برعکس تمام حجاب ہٹا دیے گئے ہیں، پردے سرکا دیے گئے ہیں اور جو کچھ ہو رہا ہے چلمن کی اوٹ سے نہیں، سب کے سامنے اور ببانگِ دہل ہورہا ہے، ہاں البتہ انتخاب چونکہ بدل چکا ہے، محبوب معتوب بن چکے اور معتوب محبوب قرار پائے ہیں، اس لیے کل تک جو اس صورتِ حال پر چیں بہ جبیں تھے، آج وہ مطمئن ہی نہیں شاداں و فرحاں ہیں اور انہیں کہیں کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی بلکہ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے، جب کہ کل تک جو اسی طرح کی صورتِ حال سے مستفید ہورہے تھے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا حق تصور کرتے تھے، آج انہیں موجودہ کیفیت سراسر ظلم اور عوام کے حقوق پر کھلا ڈاکا دکھائی دیتی ہے، کہ آج ان سے ان کی شناخت ہی چھین لی گئی ہے اور کھیل کے لیے یکساں میدان مہیا کرنے کے بجائے عملاً انہیں جبراً میدان ہی سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ ان حالات نے سیاسی کارکنان کے جذبات میں شدت بلکہ نفرت بھر دی ہے جس کی ایک نہایت خوف ناک شکل پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھیر میں دیکھنے میں آئی ہے جہاں باپ نے قطر سے چھٹیاں گزارنے گھر آئے ہوئے اپنے بیٹے کو محض اس لیے گولیوں سے بھون ڈالا کہ اس نے گھر پر تحریک انصاف کا جھنڈا لہرانے کی ضد کی تھی۔ کراچی میں بوری بند لاشوں کی سیاست اور بھتّہ مافیا کی شہرت رکھنے والی جماعت نے اقتدار میں اپنی سابق اتحادی جماعت کے خلاف اپنے کارکنوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ اس طرح کے بہت سے چھوٹے بڑے واقعات ملک بھر میں رونما ہورہے ہیں جن سے سیاست میں نفرت اور کشیدگی اپنی بلندیوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تیار کی گئی ایک رپورٹ میں شدید کشیدہ صورتِ حال کی نشاندہی اس طرح سے ہوتی ہے کہ ملک بھر میں 8 فروری کے انتخابات کے لیے قائم کیے گئے 89 ہزار پولنگ اسٹیشنوں میں سے 17 ہزار کو انتہائی حساس اور ساڑھے 30 ہزار کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ گویا انتخابات کے روز نصف سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر تصادم اور جان و مال کے نقصان کے خطرات منڈلا رہے ہوں گے۔ باہم مدمقابل سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں پائی جانے والی نفرت کی ایک جھلک سماجی ذرائع ابلاغ پر دونوں جانب سے ظاہر کیے جانے والے جذبات میں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے… ان حالات میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق کی یہ تجویز نہایت صائب اور بروقت ہے کہ ملکی سیاست میں موجود زہر آلود انتشار اور شدید نفرتوں کے خاتمے کے لیے وسیع تر قومی مذاکرات کا اہتمام کیا جائے تاکہ پُرامن، باوقار اور مستحکم پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس میں شک نہیں کہ سیاست میں موجود انتشار، تقسیم در تقسیم، نفرت اور کشیدگی کا بنیادی سبب الزام تراشی، گالم گلوچ اور تشدد ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوفناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ماضی میں اقتدار میں رہنے والی جماعتوں اور ان کے قائدین نے سیاسی و سماجی تقسیم کی خلیج کو وسیع تر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے اب ان ہی قائدین اور مقتدر اداروں خصوصاً الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفرتیں، کدورتیں اور دوریاں ختم کرنے پر توجہ دیں اور باہم مل بیٹھ کر ایک ایسے ضابطہ اخلاق پر اتفاق پیدا کریں اور اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائیں جس سے انتخابات کا پُرامن ماحول میں انعقادممکن ہوسکے اور ملک میں اخوت و محبت اور اتحاد و اتفاق کی فضا پروان چڑھائی جا سکے۔
(حامد ریاض ڈوگر)