رزائل اخلاق

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کو کسی شخص کے بارے غلط خبر پہنچتی تو آپ یہ فرماتے کہ فلاں شخص کو کیا ہوگیا (یعنی نام نہ پکارتے) بلکہ یوں فرماتے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے وہ اس طرح کرتے ہیں۔
(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب4788)

٭چوری اور ڈاکا:
قرآن اور حدیث نے چوری کی کوئی خاص تعریف بیان نہیں کی بلکہ اسے معروف اور عام فہم معنوں میں لیا ہے۔ کسی دوسرے کی رکھی ہوئی چیز کو اس کی اجازت کے بغیر چھپا کر لے لینا، یا اس کی عدم موجودگی میں اس چیز کو تصرف میں کرلینا چوری ہے، جبکہ کسی کی چیز کو اس کی موجودگی میں زبردستی چھین لینا ڈاکا ہے۔ رہزنی بھی ڈاکے کی ایک شکل ہے یعنی کسی راہ چلتے شخص یا کارواں پر حملہ کرکے ان سے نقدی یا ان کی اشیا چھین لینا۔ چوری اور ڈاکا ایک بہت بڑی سماجی، معاشی اور اخلاقی برائی ہے جس کی دنیا کے ہر قانون اور ضابطہ اخلاق نے نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس کی سزا بھی مقرر کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص اپنی محنت سے جو چیز کماتا ہے یا حاصل کرتا ہے، دوسرا (یعنی چور یا ڈاکو) بغیر کسی جائز محنت کے اس پر قبضہ کرکے پہلے کو اس سے محروم کردیتا ہے۔ اگر اس برائی کا سدباب نہ کیا جائے تو کسی کو اس کی محنت کا پھل نہ ملے۔

قرآن نے مومنوں کو ایک دوسرے کا مال باطل اور ناجائز طریقوں سے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر188 میں ارشاد ہے: ’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے نہ کھائو اور نہ ہی اسے حاکموں تک (بطور رشوت) پہنچائو تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ تم جانتے بوجھتے ناجائز طور پر کھا جائو‘‘۔ اسی طرح سورہ النسا کی آیت نمبر29 میں ہے: ’’اے مومنو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے نہ کھائو مگر یہ کہ تم آپس کی رضا مندی سے تجارتی لین دین کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو…‘‘۔ چوری (یا رہزنی، ڈکیتی) انہی باطل طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اسلام نے جو بنیادی انسانی حقوق دیئے ہیں ان میں جائداد کی ملکیت اور تحفط کا حق بھی ہے۔ چونکہ چوری (یارہزنی) اس بنیادی انسانی حق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لہٰذا اسلام نے چور کی سزا ہاتھ کاٹنا رکھی ہے جو ایک بہت بڑی سزا ہے۔ مزیدبرآں اگر چوری کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے تو چوری کا مال واپس کرکے یا مالک مال سے معافی حاصل کرکے چور سزا سے نہیں بچ سکتا۔ چور کو سزا ضرور دی جائے۔ تاہم وہ اللہ سے توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ اس کو آخرت کی سزا سے معاف کردے گا۔

چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اسلامی حدود قوانین میں داخل ہے۔ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نبیؐ نے چوری کی یہ سزا ایک ڈھال کی چوری یا اس کی مالیت (عموماً ایک چوتھائی دینار) کے برابر چیز کی چوری پر مقرر فرمائی ہے۔ تاہم پھل، سبزیاں، پکے ہوئے کھانوں، کھانے پینے کی دوسری معمولی اشیا پر قحط کے دنوں میں چوری، جہاد کے دوران چوری، محرم رشتے داروں کے گھروں سے چوری پر یہ سزا نہیں دی جاتی۔

ظہور اسلام کے وقت اہل عرب میں چوری کی عادت اتنی عام تھی کہ مسلمان ہونے والوں سے اس بات کی بیعت لی جاتی تھی کہ وہ چوری سے باز آجائیں۔ عورتوں کی بیعت جس میں چوری نہ کرنے کا عہد لیا جاتا تھا ،سورہ الممتحنہ کی آیت12 میں دی گئی ہے، جبکہ مردوں کی بیعت کا ذکر نبیﷺ کی احادیث میں ہےجس میں مردوں سے بھی چوری نہ کرنے کا وعدہ لیا جاتا تھا۔

ڈاکا زنی بھی چوری کی طرح انسان کے جائداد کی ملکیت اور تحفظ کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا فقہا و علما نے اس کی بڑی سخت سزا سورہ المائدہ کی آیت نمبر33 کے تحت مقرر کی ہے۔ ڈاکو کو زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں شمار کیا گیا ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے یا سولی دی جائے یا اس کے ہاتھ پائوں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا اسے جلاوطن کیا جائے۔

آیاتِ قرآن مجید:
1: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ یا تو وہ قتل کردیئے جائیں یا انہیں سولی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو جلاوطن کردیا جائے۔ (المائدہ: 33)

2: اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ ڈالو۔ یہ ان کے فعلوں کی سز اہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ہے۔ اور اللہ زبردست (اور) صاحب حکمت ہے۔ اور جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہوجائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (المائدہ:39-38)

3 :اے پیغمبر جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھ پائوں سے کوئی بہتان باندھیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (الممتحنہ 12:60)

احادیث نبویؐ:
1: حضرت عائشہؓ نبیؐ سے روایت کرتی ہیں: ’’چور کا ہاتھ ایک چوتھائی دینار یا زیادہ مالیت کی چوری کرنے پر کاٹا جائے‘‘ (بخاری، مسلم)

2:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ : ’’نبیؐ نے ڈھال جس کی قیمت تین درہم تھی، چوری کرلینے پر چور کا ہاتھ کاٹا۔ (بخاری، مسلم)

3 :حضرت رافعؓ بن خدیج سے روایت ہے، وہ نبیؐ سے روایت کرتے ہیںکہ ’’پھل چرانے اور کھجور کے سفید گاھبے میں ہاتھ کا کاٹنا نہیں ہے‘‘۔ (ترمذی، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ) 4:بسرؓ بن ارطاۃ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ’’غزوہ میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں‘‘ (ترمذی، دارمی)

5:سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش کو مخزومی عورت کے واقعہ نے سخت فکر میں ڈالا جس نے چوری کی تھی۔ کہنے لگے کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون گفتگو کرے، پھر کہنے لگے: اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے ہیں، وہی جرأت کرسکتے ہیں۔ اسامہ نے آپؐ کے ساتھ کلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ کی حدوں کی سفارش کرتا ہے؟ پھر آپؐ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کردیا کہ جب کوئی معزز آدمی چوری کرتا اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب چوری کرتا اس پر حد قائم کرتے۔ اور اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمدؐ چوری کرے میں اس کا ہاتھ کاٹ دو“ (بخاری، مسلم)