گزشتہ جمعے کو حروفِ ربط ’میں‘ اور ’کو‘ پر بات ہوئی تھی۔ بات ایسی تھی کہ پڑھتے ہی ہمارے ایک باتونی دوست آدھمکے۔ ہم اپنی فکرِ سخن میں غلطاں و پیچاں و حیراں و پریشاں تھے کہ کوئی موضوع نہیں مل رہا، کیاکریں؟ موصوف نے آتے ہی اپنی گفتگو کا ربط پچھلے کالم کے حروفِ ربط سے جوڑ دیا: ’’میاں! تم فقط دو حروف کو رو رہے ہو، یہاں ایک تیسرا حرفِ ربط بھی ہے جو آج کل شدید بے ربطی کا شکار ہے‘‘۔
جھنجھلا کر کہا: ’’تینوں حروف پر چار حرف۔ تمھیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں‘‘۔
سب بھول بھال کرپوچھنے لگے: ’’ارے ہاں! بھائی یہ بتاؤ کہ وہ چار حروف کون کون سے ہوتے ہیں جو لوگوں پر بھیجے جاتے ہیں؟‘‘
اُسی بیزار لہجے میں جواب دیا: ’’ل ع ن ت‘‘۔
ایک ایک کرکے اِن حروف کی گنتی کی۔ چار کا عدد پورا ہوگیا تو مطمئن ہوکر بولے:’’اب ایک قصہ سنو، بیزاری دور ہوجائے گی‘‘۔
چار و ناچار سننا پڑا اور واقعی بیزاری دور ہوگئی۔ اُن کے سنائے ہوئے قصے کا لُبِّ لُباب یہ تھا کہ ان کے عملے کا ایک نوبیاہتا نوجوان ، جس کی شادی کو فقط سال بھر ہوا تھا، ہفتے بھر سے غائب تھا۔ اُس کا غیاب جس روز حضوری میں تبدیل ہوا اور وہ نوجوان چمکتے چہرے کے ساتھ ان کے دفتر میں طلوع ہوا تو اِنھوں نے اُس کو ڈپٹ کر اس کا استقبال کیا اور پوچھا:’’میاں! ہفتے بھر سے کہاں غائب تھے؟‘‘
نوجوان نے پُر مسرت لہجے میں جواب دیا: ’’سر! بیگم بیمار ہیں۔ مختلف جگہوں سے مختلف ٹسٹ کروانے پڑے۔ کبھی اس اسپتال سے، کبھی اُس اسپتال سے، کبھی کسی لیبارٹری سے، کبھی کسی لیبارٹری سے۔ پورا ہفتہ بس اسی بھاگ دوڑ میں گزر گیا‘‘۔
ان کا ناریل چٹخ گیا: ’’بیگم بیمار ہیں اور تم دانت نکال رہے ہو۔ اتنی جلدی عاجز آگئے؟ دو دن ہوئے نہیں کہ نعلین در بغلین؟‘‘
لڑکا بوکھلا گیا: ’’سر!… وہ… وہ … ماشاء اللہ سے بیمار ہیں‘‘۔
خبر خوشی کی تھی مگر خفا ہوکر ایسے بھڑکے جیسے ان پر کوئی شدید صدمہ ٹوٹ پڑا ہو:
’’ماشاء اللہ سے؟… ماشاء اللہ سے؟…کیا مطلب؟… یوں کہو کہ ماشاء اللہ بیگم بیمار ہیں‘‘۔
نوجوان نے پھر گڑبڑا کر معذرت کی: ’’ معاف کیجیے سر! بس اچانک سے یہ جملہ نکل گیا‘‘۔
اب تو اور بھڑک اٹھے: ’’یک نہ شُد، دو شُد۔ ماشاء اللہ سے… اچانک سے… یہ تم نے کون سی اُردو ایجاد کی ہے؟‘‘
’’سر! ایجاد نہیں کی۔ میں نے ٹی وی سنا ہے‘‘۔
لڑکا ایسا حواس باختہ ہوا کہ جہاں ’سے‘ استعمال کرنے کا محل تھا، وہاں بھی مارے ڈر کے حذف کربیٹھا۔
صاحبو! ٹی وی سے آج کل ایسی ہی حواس باختہ اُردو سنائی دیتی ہے۔ مگر لڑکا بھی کیا کرے؟ ’سے‘ کے استعمال کی کوئی حد ہی نہیں۔ تاہم ’ماشاء اللہ‘ اور’ اچانک’ کے بعد ’سے‘ لگانا حد سے گزر جانا ہے۔ ہاں ’اللہ کی منشا سے‘کہہ لیجے اور ’اچانک سے‘ کی جگہ’ کھٹ سے‘۔ ڈاکٹر علم الدین غازی نے ’سے‘ کے استعمال پر مفصل مضمون لکھا ہے۔ اس مضمون ’سے‘ ہم نے بھی استفادہ کیا ہے، جتنا ہم ’سے‘ ہوسکا۔
حرفِ جر یا حرفِ ربط ’سے‘ ایک تو ابتدا اور آغاز کے موقعے اور محل کی نشان دہی کے لیے آتا ہے۔’ہم کل سے کام شروع کریں گے‘۔ یا ’’اِلٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا‘‘۔ دوسرے ربط و تعلق کے لیے بھی ’سے‘ بولتے ہیں جیسا کہ خمارؔ بارہ بنکوی بولے:
یہ کہنا تھا اُن سے محبت ہے مجھ کو
یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں
یا جس طرح ناسخؔ نے بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے واسطہ قائم کرلینے پر ’خوشی سے‘ اعلان کیا:
بیعت خدا سے مجھ کو ہے بے واسطہ نصیب
’دستِ خدا‘ ہے نام مرے دستگیر کا
علت یا سبب بتا نے کے لیے بھی ’سے‘ کا استعمال عام ہے۔جوشِ تعلیل میںکسی نامعلوم شاعر کو غلط فہمی یا شاید خوش فہمی ہو گئی تھی:
ڈر گئے ہیں مرے نالوں سے مؤذن ایسے
اُنگلیاں کان میں ہنگامِ اذاں رکھتے ہیں
سبب اور علت کے معنوں میں ’سے‘ کا استعمال دیکھنے کے لیے ابوظفر زینؔ مرحوم کا یہ فقرہ بھی دیکھ لیجے:
’’مہمان ہر طرح سے خوشی کا باعث ہوتے ہیں۔ کسی کے آنے سے خوشی ہوتی ہے اور کسی کے جانے سے‘‘۔
’ذریعے سے‘ یا ’مدد سے‘ کا اظہار کرنے کے لیے بھی فقط ’سے‘ استعمال ہوتا ہے۔ فون پر ہونے والا ایک مکالمہ سنیے: ’’کہاں سے بول رہے ہو؟ منہ سے بول رہا ہوں‘‘۔ ’زمین پر بکھرے ہوئے انگارے چمٹے سے اُٹھالو‘۔ ’ماموں ہوائی جہاز سے کراچی گئے ہیں‘۔ اور آرزو لکھنوی کو تجسس تھا کہ ’’ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر؟‘‘ علاوہ ازیں مفعول کی علامت کے طور پر بھی ’سے‘ لگایا جاتا ہے، مثلاً ’خالد سے کہا‘ یا ’حامد سے پوچھا‘۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کے پیش کردہ درجِ ذیل مکالمات میں ’مجنوں‘ اور ’تجھ‘ مفعول ہیں، لیلیٰ ماں فاعل:
کہا مجنوں سے، یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تُو اگر کر لے ایم اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا دقّت میں بن جاؤں تری ساس
’کے ساتھ‘، ’کے ہمراہ‘ یا ’کے سنگ‘ کے معنوں میں بھی ’سے‘ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ’یہ دوا دودھ سے کھانی ہے اور یہ دوا پانی سے‘‘۔ جدائی اور دُوری کے معنی دینے کے لیے بھی: ’’کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات پھر نہیں آتی‘‘۔ دوبارہ یا پھر کے معنوں میں یوں بولتے ہیں: ’’اب سے یہ غلطی مت کرنا‘‘۔ سمت کے تعین کو ’مشرق سے، مغرب سے، شمال سے اور جنوب سے‘ بولتے ہیں، یا ’اوٹ سے‘:
سورج تو پتھر کی اوٹ سے آ نکلا
اب تم کس کا رستہ روکے بیٹھے ہو؟
’کے اندر سے‘ کہنا ہو تو اس موقعے پر بھی صرف ’سے‘ کہنے سے کام چل جاتا ہے، مثلاً ’صندوق سے بندوق نکال لو‘۔ شدت، زیادتی یا کثرت کے اظہار کے لیے کہا جاتا ہے کہ ’گرمی سے بُرا حال ہوگیا ہے‘۔ یا ’پیسے سے پاگل ہوگئے ہیں‘۔ بعض جگہ ’سے‘ نہ ہو تب بھی ’سے‘ سمجھ لیا جاتا ہے، یعنی محذوف گردانا جاتا ہے۔ استاد ذوقؔ کے اس شعر میں دوسرے مصرعے کے دوسرے ٹکڑے کو دیکھیے:
لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی سے آئے، نہ اپنی خوشی چلے
متضاد چیزوں میں موازنے کے لیے بھی ’سے‘ استعمال ہوتا ہے مثلاً ’خواص سے عوام تک‘۔ ’عالم سے جاہل تک‘۔ یا جیسا کہ فناؔ نظامی کانپوری کے ساتھ ایک حادثہ ہوتے ہوتے رہ گیا:
شیخ لے آیا تھا مے خانے سے مسجد کی طرف
وہ تو کہیے کچھ خدا کی مہربانی ہو گئی