اعلام القرآن (مجموعہ مضامین)

پیشِ نظر کتاب دارالمصنفین اعظم گڑھ کے سابق رفیق اور ماہر لسانیات مولانا ابوالجلال مرحوم (1894ء۔1984ء) کی جدید اثری تحقیقات کی روشنی میں ’’اعلام القرآن‘‘ کے موضوع پر اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے۔

مولانا مرحوم کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے ساتھ قدیم زبانوں عبرانی اور سنسکرت کے بھی ماہر تھے۔ عبرانی پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ اعلام القرآن میں عبرانی مآخذ کے براہِ راست حوالے اور جابجا عبرانی بائبل اور صحف ِبنی اسرائیل کے اقتباسات درج کیے ہیں۔ اہلِ کتاب کے مآخذ و مصادر پر مولانا پوری دستگاہ رکھتے تھے اور اہل ِکتاب کے مقدس اسفار براہِ راست پڑھتے اور سمجھتے تھے۔ مولانا مرحوم کئی علوم میں یکتا تھے، البتہ لسانیات، علم الاشتقاق اور تقابل ِادیان مولانا کی دلچسپی اور تحقیق کے خاص موضوعات تھے۔ مولانا کی تحقیقات، بالخصوص مضامین ِاعلام القرآن اور تنقیدی تبصرے ’باب التقریظ والانتقاد‘ کے عنوان سے ماہنامہ ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) کے صفحات کی زینت بنے۔

1949ء میں سید سلیمان ندوی کی فرمائش پر مولانا مرحوم نے ’’اعلام القرآن‘‘ کے نام سے کتاب لکھنا شروع کی تھی جس کے وہ چند ہی مضامین لکھ پائے تھے کہ یہ سلسلہ رک گیا، اور بوجوہ یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی۔ پیشِ نظر کتاب میں وہ تمام مضامین شامل ہیں جو مولانا نے اس سلسلے میں پون صدی پہلے لکھے تھے اور ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ) میں شائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر مضامین بھی شاملِ کتاب ہیں جو قرآنِ مجید کی تشریح و تفسیر پر مبنی ہیں۔ قرآن مجید کی تشریح و تفسیرکے حوالے سے مولانا مرحوم جمہور علماء سے مختلف رائے رکھتے تھے جس کا اظہار ان کے مقالات و مضامین میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ مضامین علمی و تحقیقی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور اپنی پہلی اشاعت ہی پر پاک و ہند کے نامور اہلِ علم ودانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔

قرآن مجید میں بیان کردہ انبیائے کرام علیہم السلام کے واقعات میں غیر معمولی اختصار پایا جاتا ہے، جسے بالعموم مفسرین اسرائیلی روایات سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ مولانا قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کو بے سروپا دیومالائی اور مافوق الفطرت قصے کہانیوں کے بجائے عقلی دلائل اور جدید اثری تحقیقات کی روشنی میں دیکھتے تھے اور سابقہ طرزِ بیان سے اختلاف بھی رکھتے تھے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مختلف آیات ِ مبارکہ کی تفسیر میں تحریف شدہ اسرائیلی روایات و قصص کے تسلسل نے ان کی حقیقی افادیت کو اوجھل کردیا ہے۔

مولانا مرحوم پر جن جن اہلِ علم نے قلم اٹھایا، انھوں نے ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ کوئی ان بکھرے ہوئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل میں شائع کردے تاکہ قاری کو مختلف پرانے رسائل کی تلاش نہ کرنا پڑے جو اب کمیاب ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سعادت جناب معظم جاوید بخاری کے نصیب میں لکھی تھی۔ انھوں نے اپنی تلاش و جستجو سے مولانا مرحوم کے اس موضوع پر تقریباً تمام دستیاب مضامین کو مرتب کردیا ہے۔ علاوہ ازیں مولانا مرحوم کے نواسے جناب یحییٰ بن زکریا صدیقی کی معاونت سے مولانا کے چند غیر مطبوعہ مضامین بھی کتاب میں شامل کردیے ہیں۔ اس طرح اس موضوع پر مولانا کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کا ایک عمدہ مجموعہ مرتب اور شائع ہوگیا ہے، جس کے لیے فاضل مرتب لائق ِ تحسین ہیں۔ بخاری صاحب اس سے قبل مولانا کے دیگر متفرق مضامین کو ’’جمع المتفرقات‘‘ کے عنوان سے مرتب اور شائع کرچکے ہیں، جس کا ذکر ان ہی صفحات (فرائیڈے اسپیشل، 28جولائی 2023ء) میں کیا جاچکا ہے۔

پیش نظر کتاب میں مولانا ابوالجلال ندوی کے درجِ ذیل مضامین شامل ہیں:

1۔ آغازِکلام، 2۔ اللہ، رحمٰن، رحیم، 3۔ تخلیقِ آدم کے مراحل، 4۔ عربی زبان کا فلسفہ لغت، 5۔ آذر۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد، 6۔ داستانِ خلیل علیہ السلام، 7۔ بکہ مبارکہ، 8۔ شہر بابل، 9۔ ہاروت و ماروت، 10۔ گو سالہ سامری، 11۔ السّامری، 12۔ ایذائے موسیٰ علیہ السلام، 13۔ حضرت ایوب علیہ السلام، 14۔ الرّوم، 15۔ بشاراتِ دانیال علیہ السلام، 16۔ سورہ روم کا اندازِ استدلال، 17۔ سنگِ شبام، 18۔ نمل اور نملۃ، 19۔ طٰس۔ نشان زدہ مستحق ِنجات لوگ، 20۔ یدِ بیضاء و عصائے موسیٰ علیہ السلام، 21۔ ذکرِ سلیمان علیہ السلام، 22۔ وادی نمل، 23۔ قصہ نملہ، 24۔ النمل کی وجہ تسمیہ، 25۔ ملکہ سبا، 26۔ فزعِ اکبر۔ سورہ سبا، 27۔ ذوالکفل علیہ السلام، 28۔ مریم بنتِ عمران، اخت ہارون علیہ السلام، 29۔ تاریخِ یمن پر ایک سطر، 30۔ کتبات حصن غراب، 31۔ عمرو بن عامر عرف مزیقیا کے عہد کا سیل ِعرم، 32۔ جنت ِسبا، 33۔ اسرائیل، وجہ تسمیہ اور تاریخ، 34۔ اصحاب الاخدود، 35۔ اصحاب الفیل کا واقعہ، 36۔ اصحاب الفیل کا واقعہ (تصحیح)، 37۔ ذو حجر، 38۔ فرقلیط موعود اور محمدﷺ، 39۔ عدد السنین والحساب۔

ان میں دو مضامین ایسے بھی ہیں جو مولانا مرحوم کے ابتدائی زمانے کی تحریریں ہیں، جب معارف میں شائع ہونے والے مضامین پر ان کا نام شائع نہیں ہوا کرتا تھا۔ مولانا نے ایک طویل مقالہ سورہ نمل پر لکھا تھا جو رسالہ ’طلوعِ اسلام‘ میں بڑی قطع و برید کے بعد شائع ہوا۔ یہ مقالہ اپنی مکمل صورت میں آٹھ عنوانات کے ساتھ اس کتاب میں بھی شامل ہے۔

قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کے باب میں مولانا مرحوم کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اسے یکسر نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا بجا طور پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ تشنگانِ علم و تحقیق مولانا کی عالمانہ اور سیر حاصل تشریح و تفسیر سے ضرور مستفید ہوں گے۔