28 نومبر 2023ء کی سہ پہر یہاں ملک کے نام ور شاعر، کالم نگار اور اردو ادب کے استاد پروفیسر ناصربشیر کے عمرے کے سفرنامے ’’پہلی پیشی‘ُ کی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی جس کی صدارت ملک کے ممتاز صحافی، تجزیہ کار، کالم نگار اور اینکر پرسن جناب سہیل وڑائچ نے کی۔ منفرد شاعر، نقاد اور ادبیاتِ اردو کے استاد جناب غلام حسین ساجد، سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار جناب نوید چودھری اور ممتاز صحافی، کالم نگار اور اینکرپرسن جناب نجم ولی خان مہمانِ خصوصی تھے۔ تقریب کی نظامت کا فریضہ اِس خاکسار ڈاکٹر عائشہ عظیم نے انجام دیا۔
تلاوتِ کلام پاک کے بعد پروفیسر عطاالرحمٰن نے ناصر بشیر کی ایک نعت نہایت خوش الحانی سے سنائی۔ ڈاکٹر عائشہ عظیم (راقم الحروف) نے نظامت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلی پیشی‘‘ عمرے کے سفر کی ایک زندہ اور شگفتہ روداد ہے۔ یہ ہر عمر کے لوگوں میں بہت جلد مقبول ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم عرصے میں اس کا تیسرا ایڈیشن چھپ رہا ہے۔ انھوں نے اس کتاب سے کچھ اقتباسات پڑھ کر سنائے تو حاضرین داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ سب سے پہلے پی ٹی وی کے ڈرامے ’’عینک والا جن‘‘ سے شہرت پانے والے اداکار حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ حسیب پاشا نے کہا: ’’پروفیسر ناصر بشیر کی کتاب ’’پہلی پیشی‘‘ اتنی بابرکت ہے کہ جو اس کا مطالعہ کرتا ہے اسے خانہ کعبہ کی حضوری اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کا بلاوا آجاتا ہے۔ میں نے یہ کتاب پڑھی تو مجھے بھی سرکارؐ کی طرف سے بلاوا آگیا۔‘‘ جناب حسیب پاشا کے بعد جیو نیوز کے پروگرام ’’خبرناک‘‘ سے نمایاں ہونے والے شگفتہ کار جناب امتیاز کوکب نے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’پروفیسر ناصر بشیر اس عہد کی ایک بڑی ادبی شخصیت ہیں۔ وہ جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے ہی بڑے نثرنگار ہیں۔ ’’پہلی پیشی‘‘ اس کا ثبوت ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ آپ ہی آپ دل میں اترتا جاتا ہے۔ ایسی کتاب شاید خود پروفیسر ناصر بشیر بھی دوبارہ نہ لکھ سکیں۔‘‘
ترغیباتی کلام کرنے والے ممتاز شخصیت طارق شریف زادہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ایک ایسی کتاب ہے جو عشقِ رسولؐ کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔ یہ کتاب پروفیسر ناصر بشیر نے دل کی روشنائی سے لکھی ہے، اس لیے اس میں تاثیر بھی ہے اور گیرائی بھی۔ اس کا متاثر کن اسلوب قاری کو اپنے حصار میں یوں جکڑ لیتا ہے کہ جو اسے پڑھنا شروع کرتا ہے ختم کرکے ہی دم لیتا ہے۔‘‘
گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور کے پرنسپل، اردو اور پنجابی کے شاعر اور سفرنامہ نگار ڈاکٹر اختر حسین سندھو نے پنجابی زبان میں دل نشیں خطاب کیا۔ انھوں نے کہا: ’’پروفیسر ناصر بشیر کے سفرنامے ’’پہلی پیشی‘‘ کے اسلوب میں سادگی ہے۔ بیان میں محبت اور عقیدت گندھی ہوئی ہے۔ ناصر بشیر نے لفظوں سے مکہ، مدینہ کی تصویرکشی کردی ہے۔وہ جزئیات نگاری میں کمال رکھتے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’’خبرناک‘‘ سے سامنے آنے والے ممتاز اداکار علی میر نے ’’پہلی پیشی‘‘ کے مصنف ناصر بشیر کے بارے میں کہا: ’’یہ کتاب پڑھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اردو نثر کا سفر ابھی جاری ہے۔ ناصر بشیر اگرچہ بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں لیکن اس کتاب میں وہ ایک بچے کی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے گلی کوچوں پر حیرت کی نظر ڈالتے ہیں اور اس حیرت کو من و عن بیان بھی کرڈالتے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے جتنی بار پڑھا جائے، لطف ملتا ہے۔ اس کے لفظ لفظ میں عقیدت سے لبریز حیرت اور محبت محسوس ہوتی ہے۔‘‘
تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب نجم ولی خان نے کہا:’’پروفیسر ناصربشیر نثر لکھیں یا شاعری… ہمیشہ حق سچ کی بات کرتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے حالات میں ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پاکستانیت، انسانیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا پرچار کرتے ہیں۔ استاد کے طور پر بھی وہ مقبول ہیں۔ ذمہ داری کو واقعی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
تقریب کے دوسرے مہمانِ خصوصی جناب نوید چودھری نے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ناصر بشیر سے میرا تعلق تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ ہم دونوں 1990ء کی دہائی میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے نیوز روم میں ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ ناصربشیر تب بھی زبان و بیان پر اتنا عبور رکھتے تھے کہ نیوز روم کے بیشتر سب ایڈیٹر زبان کے معاملے میں ان سے راہ نمائی لیا کرتے تھے۔ ان کے عمرے کے سفرنامے کو مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے ایک نثری نعت کہا ہے تو غلط نہیں کہا۔ ان کی یہ نثری نعت قبولیت حاصل کرچکی ہے۔ نبی پاکؐ کی محبت اور عقیدت نے انھیں اپنے گروہ میں ممتاز و منفرد بنا دیا ہے۔‘‘
تقریب کے تیسرے مہمانِ خصوصی جناب غلام حسین ساجد نے کہا: ’’میں اُس ناصر بشیر کو جانتا ہوں جو ملتان کے ایک کالج میں طالب علم تھا۔ ناصربشیر ایک بین الکلیاتی مشاعرے میں حصہ لینے آیا۔ میں نے اسے بطور منصف دوسری پوزیشن دی تو اس نے یہ کہہ کر دوسرا انعام لینے سے انکار کردیا کہ وہ پہلے انعام کا حق دار ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے غزل خود کہی ہے اور پہلے نمبر پر آنے والے طالب علم نے کسی سے لکھوائی ہے۔ یہ تھا زمانۂ طالب علمی میں ناصر بشیر کا اعتماد۔ ’’پہلی پیشی‘‘ لکھتے ہوئے ناصر بشیر نے اپنی زبان دانی کا رعب جھاڑنے کی ہرگز کوشش نہیں کی۔ اس نے فارسی اور عربی کی بھاری بھرکم تراکیب استعمال کی ہیں نہ زبان و بیان کے مستعمل حربے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔ جو کچھ جیسا محسوس کیا، ویسا ہی بیان کردیا۔ اتنا عمدہ اظہار میں نے حج یا عمرے کے کسی سفرنامے میں نہیں دیکھا۔ یہ کتاب ناصر بشیر کے نامۂ اعمال میں لکھی گئی ہے اور یہی اس کی نجات کا باعث بنے گی۔‘‘
اس کے بعد پروفیسر ناصر بشیر کو خطاب کی دعوت دی گئی تو انھوں نے سب سے پہلے قاسم علی شاہ صاحب کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ’’پہلی پیشی‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا اہتمام کیا۔گفتگو کرنے والے تمام مہمانوں کے ساتھ حاضرین کرام کا بھی نام بنام شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے کہا: ’’مجیب الرحمٰن شامی میرے محسن ہیں۔ انھی کی توجہ اور محبت کے باعث میں عمرے اور حج کے سفر کے قابل ہوا۔ انھوں نے امریکہ سے مجھے فون کرکے عمرے پر جانے کی خوش خبری سنائی تھی۔ سنا ہے کہ ان دنوں بھی وہ بیرونِ ملک گئے ہوئے ہیں۔ شاید ایک بار پھر ان کا ویسا ہی محبت بھرا فون آئے اور میں ایک بار پھر عقیدتوں بھرے سفر پر روانہ ہوجائوں۔‘‘
آخر میں نامور صحافی اور تجزیہ نگار جناب سہیل وڑائچ نے ’’پہلی پیشی‘‘ کی تقریبِ پذیرائی سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے اخبارات میں کرنٹ افیئرز کے بارے میں قطعہ لکھنے کی ایک مضبوط روایت موجود ہے۔ نوائے وقت میں وقار انبالوی اور جنگ میں رئیس امروہوی قطعہ لکھتے رہے۔ اِن دنوں جنگ میں انورشعور صاحب قطعہ لکھ رہے ہیں۔ ان کے بعد اگر کرنٹ افیئرز پر کسی نے بڑی شاعری کی ہے تو وہ ناصر بشیر صاحب ہیں۔ عصری حالات کے بارے میں شاعری کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن میں ان کی شاعری پڑھ کر بہت حیران ہوتا ہوں کہ یہ آج کی صورتِ حالات کو کس طرح شاعری کی شکل میں بیان کردیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ناصربشیر صاحب بہت درد شناس آدمی ہیں۔ تمام ادیبوں، شاعروں کی زندگی، بیماری، خوشی اور موت کی خبر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے واٹس ایپ گروپ کی وساطت سے ہم تک یہ خبریں پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشی اور غم کے تعلق سے جوڑے رکھتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ مجھے ان کے عمرے پر جانے کی ساری بات کا علم ہے۔ مجھے مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ کس طرح وہ ان کی نعتیں پڑھ کر ان سے متاثر ہوئے اور کس طرح انھوں نے ان کی پہلی پیشی کا بندوبست کیا۔ ناصربشیر صاحب نے جس طرح روضۂ رسولؐ پر اپنی پہلی پیشی کا احوال بیان کیا ہے وہ بہت دل نشیں ہے۔ انھوں نے مکہ کے جلال کے ساتھ ساتھ مدینہ کے جمال کو بھی اپنی کتاب ’’پہلی پیشی‘‘ میں سمو دیا ہے۔ ناصر بشیر صاحب نے علامہ اقبال کی طرح عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر نعتیں کہیں اور یہ کتاب لکھی۔‘‘
یہ پُروقار اور پُررونق تقریب پُرتکلف چائے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔