دائرۂ علم وادب پاکستان کے اشتراک سے منعقدہ ورکشاپ میں ملک بھر سے خواتین کی شرکت
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا!
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبے’ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘ کے زیراہتمام اور دائرہ علم وادب پاکستان کے اشتراک سے چار روزہ ورکشاپ برائے ’’خواتین اہلِ قلم‘‘21 تا 24دسمبر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس فیصل مسجد میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کا افتتاحی اجلاس ڈائریکٹر آئی آر ڈی جناب حسن آفتاب، رابطہ کار دائرہ علم وادب پاکستان احسن حامد کی صدارت میں ہوا۔تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسولؐ مقبول کے بعد جناب حسن آفتاب نے ورکشاپ کی غرض وغایت بیان کی۔
اس کے بعد پہلا پروگرام صحافی، کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف جمال عبداللہ عثمان کا تھا۔ اُنھوں نے شرکا کو مثالی انٹرویو کی خصوصیات سے روشناس کروایا، انٹرویو کے حوالے سے چند تکنیکی مسائل بتائے اور کچھ دلچسپ واقعات شیئر کیے۔
گیارہ بجے مطالعاتی دورہ تھا۔ اُسی حساب سے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا۔ اقبال آڈیٹوریم فیصل مسجد سے ایک کوسٹر سے، پروگرام کے منتظم اور امیرِ سفر جناب اعظم طارق کوہستانی اور کیمرہ مین محمدابرار کے ساتھ اکادمی ادبیات پاکستان روانہ ہوئے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے شرکا نے اکادمی ادبیات پاکستان کا مطالعاتی دورہ کیا۔ انھوں نے اکادمی کے مختلف شعبے دیکھے، خاص کر ’’ایوانِ اعزاز‘‘ میں خصوصی دلچسپی لی۔ بعدازاں اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عاصم بٹ اور مدیر اردو اختر رضا سلیمی نے وفد کو اکادمی کا تعارف کرایا، اور اغراض و مقاصد، پاکستانی زبانوں کے ادب کے فروغ، ادیبوں کی فلاح و بہبود، اکادمی کے بین الاقوامی ادبی روابط، اور بین الاقوامی سطح پر اکادمی کے تراجم کے حوالے سے منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ اختر رضا سلیمی، مدیر اردو نے اکادمی کی مطبوعات و رسائل بشمول سہ ماہی ادبیات، ادبیا ت اطفال اور صوبائی ادبیات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور خواتین لکھاریوں کی طرف سے اکادمی سے متعلق سوالات کے جواب دیے۔
تقریباً بارہ بجے کے قریب ادارہ فروغِ قومی زبان پاکستان روانہ ہوئے۔ حکومتِ پاکستان کی قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن وفاقی وزارتِ تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، قومی ورثہ اور ثقافت کے ماتحت ادارہ ہے جس کا نصب العین ملک میں اردو زبان کی ترویج ہے۔ اس ادارے کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان ’’اردو‘‘ کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اُردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔ ادارے نے اپنے مقاصد کی بجاآوری کے لیے اب تک سات سو کے قریب عنوانات کے تحت کتابیں شائع کی ہیں جس میں ایک سو سے زائد لغات، فراہنگ اور کشاف شامل ہیں۔ قومی انگریزی اردو لغت، قانونی انگریزی اردو لغت، فرہنگ تلفظ، اردو چینی لغت وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ مذکورہ لغات کے علاوہ چار درجن سے زائد کتابیں ادارے کی ویب سائٹ پر آن لائن موجود ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر اس ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل ہیں جنھوں نے اپنے دفتر میں خواتین اہلِ قلم کا شکریہ ادا کیا اور بعد ازاں قیمتی نصیحتیں کرکے رخصت کیا۔ ادارے کی انتظامیہ کی طرف سے پروگرام میں شریک تمام اہلِ قلم کو یادگار مجلات وجرائد کا تحفہ دیا گیا۔
تقریباً دو بجے نیشنل بک فائونڈیشن روانہ ہوئے۔ نیشنل بک فائونڈیشن پاکستان کا تعلیمی ادارہ ہے جس کا قیام 1972ء میں عمل میں آیا۔ پاکستان میں کتابوں کی اشاعت اور مطالعۂ کتب کے فروغ کے لیے سرگرم عمل اس ادارے کا صدر دفتر اسلام آباد میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کے صوبائی صدر دفاتر، علاقائی دفاتر اور کتب سیل پوائنٹس بھی کام کررہے ہیں۔ یہ ادارہ مختلف موضوعات پرکتب شائع کرنے کے علاوہ بچوں کے ادب کے فروغ میں بھی کوشاں ہے، علاوہ ازیں نابینا افراد کے لیے بھی بریل کتب شائع کرتا ہے۔ اس ادارے کے موجودہ سربراہ جناب مظہر حمید ہیں۔ شرکا اہلِ قلم کو سیکرٹری مراد صاحب نے نیشنل بک فائونڈیشن کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور خواتین لکھاریوں کی طرف سے کیے گئے سوالات کے جواب دیے۔
شام چار بجے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی نیوکمیپس روانہ ہوئے۔ وہاں میڈیا ڈپارٹمنٹ سے ڈاکٹر نائلہ رفیق نے مہمان نوازی کی اور خواتین اہلِ قلم کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے متعارف کروایا۔ نیو کیمپس میں علم و اَدب کے تحقیقی میدان میں آن لائن جدید ذرائع کے استعمال کے ذریعے اور نیٹ پر اپنا مطلوبہ مواد تلاش کرنے کے مختلف طریقوں سے لکھاریوں کو روشناس کرایا۔ اس سے لکھاریوں کو بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔ اس کاوش کو بہت پسند کیا گیا۔ بعد ازاں سوال جواب کا سیشن ہوا۔ نائلہ رفیق صاحبہ نے سینڈوچ سے شرکا کی تواضع کی۔
ساڑھے پانچ بجے خواتین لکھاری گیسٹ ہائوس کے لیے روانہ ہوئیں۔ اس کے بعد مغرب کی نماز ادا کی۔ تمام خواتین لکھاریوں کو گیسٹ ہائوس کے میس کے ہال میں رات کے کھانے کے لیے بلایا گیا۔
دوسرے دن 22 دسمبر بروزِ جمعہ مربی ڈاکٹرعادل ریاض نے ’’جدید ذرائع ابلاغ میں خواتین اہلِ قلم کے امکانات‘‘ کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کئی اہم باتوں سے روشناس کرایا۔ ان کی گفتگو سے لکھاریوں کو بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔ اس کاوش کو بہت پسند کیاگیا۔
تیسرا پروگرام اینکر پرسن فریحہ ادریس کا تھا۔ اُنھوں نے ’’خواتین قومی میڈیا کا حصہ کیسے بنیں‘‘کے حوالے سے اپنے ذاتی تجربات سے شرکا کو آگاہ کیا۔
نائلہ رفیق سے ہم ایک روز قبل اسلامی یونیورسٹی میں مل چکے تھے۔ ’’صحافتی اخلاقیات‘‘ان کا موضوع تھا۔ اُنھوں نے مثالوں کے ذریعے صحافتی اخلاقیات کی بُری اور اچھی مثالیں پیش کیں اور ساتھ میں سرگرمی کے ذریعے پریکٹس بھی کروائی۔
ایک بجے نماز ظہرکا وقفہ ہوا، اور دوپہر کا کھانا گیسٹ ہائوس میں تناول کیا گیا۔
چار بجے ’’کالم نگاری اور اس کے لوازمات‘‘کے موضوع پر ماہر لسانیات اور کالم کالم نویس احمد حاطب صدیقی نے کالم اور اس کے مشمولات سے شرکا کو متعارف کروایا۔
سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کے حوالے سے ڈاکٹر محسن زاہد نے اپنی پیشکش پیش کی۔ اس میں مختلف ادبی ویب سائٹس کا تعارف دیا۔ علامہ اقبالؒ کی مشہور و معروف نظم کی سمعی و بصری تفہیم دائرۂ علم و ادب اسلام آباد نے اپنی بنائی گئی فلم کے ذریعے پیش کی۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر محسن زاہد مصنف، سیاح اور ڈاکیومنٹری فلم میکر ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبالؒ کی شاعری پر اس قسم کی کئی فلمیں بناکر اپنے یوٹیوب ٹی وی چینل پر پوسٹ کی ہوئی ہیں۔ اس خوب صورت فلم کو دیکھ کر حاضرین محظوظ ہوئے اور اپنی عظیم الشان تاریخ کی بربادی کی کہانی پر آنسو بھی بہائے۔ اس کے بعد ساڑھے پانچ بجے وقفۂ آرام و طعام ہوا۔
بروز ہفتہ ساتواں پروگرام ’’مضمون نویسی میں مہارت کیسے حاصل کی جائے‘‘ تھا، جس سے ڈاکٹر تمیمہ صبیحہ نے متعارف کروایا۔ اس حوالے سے اُنھوں نے پریزنٹیشن کے ذریعے مضمون نویسی کے لوازمات سے آگاہ کیا کہ اسے کیسے دلچسپ اور مفید بنایا جاسکتا ہے۔
’’تخلیقِ اَدب میں وژن کا کردار‘‘کے حوالے سے ڈاکٹر فریال عنبرین شرکا سے مخاطب ہوئیں۔ ان کے سیشن میں ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنی ماں کی پہلی درسگاہ میں ہوں۔ اُنھوں نے بتایا کہ عربی زبان میں ’’قلم‘‘ کے معنی کاٹنے یا تراشنے کے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تراشنے اور کاٹنے سے ہی کوئی چیز انسانی استعمال کے قابل بنتی ہے۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ جہاں بہت اچھی کہانی کار ہیں، وہیں ان کے سفرنامے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا موضوع ’’اچھے سفرنامے کی خصوصیات‘‘ تھا۔ اُنھوں نے سفرنامے کا تاریخی جائزہ بھی لیا۔
’’اُردو افسانہ کیسے‘‘ کے موضوع پر قانتہ رابعہ نے افسانے اور اس کے فنی لوازم سے شرکا کو متعارف کروایا اور ان کے سوالات کے جوابات دیے۔ بعد ازاں اُنھوں نے اپنی کتب کے تحائف خواتین لکھاریوں کو پیش کیے۔
’’املا اور اس کے مسائل‘‘پر آسرا بتول صاحبہ نے شرکا کو سرگرمی کے ذریعے بتایا کہ عموماً لکھاری اپنی تحریروں میں کس قسم کی غلطیاں کرتے ہیں۔ اُنھوں نے شرکا کو نوٹس بھی فراہم کیے۔ اُمید ہے کہ شرکا ان غلطیوں کا ارتکاب اب نہیں کریں گے۔
دائرہ علم وادب کے چیئرمین ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر نے ’’کامیاب ادیب کی خصوصیات‘‘کے حوالے سے شرکا کی رہنمائی کی اور ادیب کو اپنا رشتہ اللہ سے مضبوط کرنے کا مشورہ دیا۔
خواتین میں مقبول ہوتی شاعرہ اور افسانہ نگار نجمہ ثاقب نے ’’فکشن کی نوعیت اور تقاضے‘‘شرکا کو سمجھائے اور شرکا کے سوالات کے جوابات دیے۔
خواتین اہلِ قلم کی چارروزہ ورکشاپ کی اختتامی تقریب میں جناب حسن آفتاب، احمد حاطب صدیقی، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر، احسن حامد، اعظم طارق کوہستانی اور منصور علی شاہ شریک ہوئے۔ اس تقریب کی صدارت جناب حسن آفتاب نے کی۔
اس ورکشاپ کے دوران مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کا مقابلہ منعقد کرایا گیا تھا۔ مقابلے میں پوزیشن لینے والے شرکا کو نقد رقم اور انعامات سے نوازا گیا۔ بعد ازاں تمام شرکا میں سرٹیفکیٹ تقسیم کیے گئے۔
’’خواتین اہلِ قلم ورکشاپ‘‘ کا اختتام جناب احمد حاطب صدیقی کی دعا پر ہوا۔