مولانا محمد ایوب دہلویؒ ایک عظیم علمی شخصیت تھے۔ ایک ایسی شخصیت جو بیک وقت علومِ قرآنی اور تشریحِ حدیث میں جہاں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی وہاں درویشی اور بے نیازی ان کے ظاہر و باطن پر حاوی تھی۔ وعظ و تقریر ان کا مشربِ علمی تھا، اس لیے تحریر کی جانب طبیعت مائل نہیں تھی۔ اپنے نطق و کلام سے علم کی گرہیں کھولتے رہتے تھے۔ اب ایسے افراد دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی تو عرب تاجروں کے ساتھ آئی تھی، مگر اسلام کی دعوت سے اس خطے میں بسنے والوں کے دلوں کو مسخر کرنے اور اس دعوت کو عام کرنے کے لیے علمائے کرام اور صوفیائے عظام کی ذاتی زندگیوں کے صاف ستھرے کردار نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس خطے کی ایک ہزار سالہ تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ علما و صوفیہ نے قرآن فہمی، احادیثِ مبارکہ اور سیرتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی جمع و تدوین، اسوۂ صحابہ اور علم الکلام کی نکتہ رسی میں جو اہم ترین خدمات انجام دیں اس کی مثال دنیا کے کسی اور خطے میں شاذ و نادر ہی موجود ہو۔ اس مختصر مضمون میں اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم ان میں سے کچھ اہم اور بڑے ناموں کے ذکر سے صرفِ نظر کر کے آگے بڑھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ علامہ عبدالحق محدث دہلویؒ، حضرت مجدد الف ثانیؒ، ملا عبدالحکیم سیالکوٹیؒ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، مولانا فضل امام خیر آبادی اور بحرالعلوم کے نام سے شہرت پانے والے ملا عبدالعلی فرنگی محلی سے لے کر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ، مولانا شاہ اسحق دہلویؒ، مولانا عبدالحکیم ٹھٹھویؒ، مولانا احمد علی محدث سہارنپوریؒ، مولانا شاہ عبدالقادر دہلویؒ، علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا ثنا اللہ امرتسری، مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی، مولانا عبدالحق حقانیؒ، علامہ انور شاہ کاشمیریؒ، علامہ غلام دستگیر قصوریؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ، مولانا مسعود عالم ندویؒ اور بعد کے لاتعداد علما کی خدمات ہماری علومِ اسلامی کی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔ بیسویں صدی کی اوّلین دہائیوں میں بھی ایسے دیدہ ور اور صاحب ِبصیرت علما منظرِعام پر آئے جنھوں نے جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی موضوعات کی تفہیم و اشاعت کو اپنا مقصدِحیات بنایا اور ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے جو آج بھی ہمیں دین کے حوالے سے ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ ماضیِ قریب کے علما میں سے ایک عالمِ دین مولانا محمد ایوب دہلویؒ تھے جو اپنے عہد کے جید اور باعمل بزرگ تھے، خدا نے ان کو بلا کا طبّاع ذہن دیا تھا۔ علومِ اسلامیہ کے تمام مضامین میں ان کو مہارتِ تامہ حاصل تھی۔ خصوصاً منطق، فلسفہ و حکمت اور علم الکلام کی نکتہ رسی میں تو بلاشبہ وہ اپنے عہد کے رئیس المتکلمین تھے۔
معروف ادیب اور مولانا محمد ایوب کے معاصر ملا واحدی نے مولانا محمد ایوب دہلویؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ تنہا شخص ہیں جنھوں نے اپنے استاد مولانا محمد اسحق رامپوری سے پورا فیض حاصل کیا، اور ایک چیز تو ایسی حاصل کرلی کہ مولانا محمد اسحق پر بھی فوقیت لے گئے، یعنی مولانا محمد ایوب علمی اور دقیق مضامین ایسی عام فہم زبان میں بیان کرتے کہ بے پڑھے لکھے مسلمان اور اسلام سے ناواقف غیرمسلم بھی سمجھ لیتے تھے۔‘‘ مولانا نے قرآن فہمی کے متلاشی اہلِ علم کی تشنگی بھی دور کی اور کم علموں کو بھی سادہ اور سہل زبان میں قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے کی راہ دکھائی۔ مولانا کی فکر کی اساس قرآن پاک اور حدیثِ نبویؐ پر تھی۔ قرآن پاک کی قدیم و جدید کوئی ایسی تفسیر نہ تھی جو آپ کی نظر سے نہ گزری ہو اور جس کا حوالہ وہ اپنے بیان میں نہ دیتے ہوں۔ ان کی مجالس کی انفرادیت یہ تھی کہ وہاں ہر ایک سوال اٹھاتا اور تسلی بخش جواب پاتا تھا۔ مولانا کی مجلس میں سوال اٹھانا معیوب نہیں، مستحسن تھا۔
مولانا ایوب دہلویؒ نے 1888ء میں دہلی میں تجارت پیشہ برادری کی پراچہ فیملی میں جناب عبدالرحمن کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد محترم عبدالرحمٰن پراچہ دہلی میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ مولانا نے بھی تحصیلِ علم کے بعد تجارت ہی کو ذریعہ معاش بنایا۔ مولانا دہلی میں ساڑھیوں کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ پھر کراچی آکر پہلے کپڑے کی تجارت، بعدازاں ایم اے جناح روڈ لائٹ ہائوس کے قریب شرافت اینڈ کمپنی کے برابر کی دکان میں لیدر گڈس سوٹ کیس اور ہینڈ بیگ کی فروخت شروع کردی تھی۔ کاروبار سے ان کی دلچسپی بس اتنی ہی تھی کہ اس سے سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ گھریلو اخراجات پورے ہوجائیں اور روز کی دال روٹی کا انتظام ہوجائے۔ اس سے زیادہ کاروبار، کی اُن کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ مولانا دکان دو چار گھنٹے کے لیے ہی کھولتے تھے۔ جیسے ہی روز کی ضروریات کے مطابق آمدنی ہوجاتی دکان بند کرکے نکل پڑتے۔ عموماً ظہر کی نماز سے قبل دکان بند کرکے قریبی مسجد میں نماز ادا کرتے اور گھر جاکر کھانا کھاتے، بعدازاں قرآن پاک کے مطالعے میں مستغرق رہتے۔ مولانا کا معمول تھا کہ وہ کھانا اپنے گھر پر افرادِ خانہ کے ساتھ کھاتے۔ کسی نے ان کو گھر سے باہر کسی دوسرے کے دسترخوان پر کھاتے پیتے نہیں دیکھا۔ مولانا گھر کا سوداسلف خود خرید کر لاتے۔ پسند کا گوشت خریدنے کے لیے دو میل پیدل چل کر جاتے۔ مولانا کو اعلیٰ درجے کا قورمہ پکانے میں کمال حاصل تھا۔ ایک بار دہلی میں ہمدرد دواخانہ کے مالک حکیم عبدالحمید اور ملا واحدی کی درخواست پر قورمہ تو پکا دیا، مگر خود ان کے ساتھ نہیں کھایا۔ حکیم عبدالحمید اور ملاواحدی نے کھانے پر اصرار کیا تو جواب میں کہا کہ میرا معمول ہے کہ میں گھر والوں کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں، آپ اصرار کرکے میرے معمولات میں فرق نہ ڈالیں۔
مولانا ایوب دہلویؒ نے ابتدائی تعلیم اس زمانے کے رواج کے مطابق دہلی کی جامع مسجد میں حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کے بعد اپنے عہد کے نہایت جید عالم مولانا محمد اسحق رامپوریؒ سے قرآن و حدیث، تفسیر وفقہ، منطق و فلسفہ میں تحصیلِ علم کیا۔ مولانا عبدالسلام نیازیؒ بھی مولانا اسحق کے شاگرد تھے۔
مولانا محمد اسحق رامپوریؒ منطق، فلسفہ اور علم کلام میں خیرآبادی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا محمد ایوب دہلویؒ کی فکر بھی خیرآبادی مکتبہ فکر کی نمائندہ تھی۔ آپ فقہ حنفی کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ چاروں فقہی مسالک کو درست سمجھتے اور کسی ایک کی پابندی کو ضروری، مگر اندھی تقلید کے قائل نہیں تھے۔ عظمتِ صحابہؓ کے بارے میں ان کا قول تھا کہ بعد کے تمام علما اور صوفیہ کا مرتبہ ایک ادنیٰ صحابیؓ سے بھی کم ہے۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں کہ ’’مسلمانوں کے انحطاط کا باعث کیا ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا تھا کہ ’’جب سے مسلمانوں نے تقلید پر اتفاق و اتحاد کیا اور تدبر فی القرآن سے ہٹ گئے، وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوکر بکھر گئے۔‘‘ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ فقہ حنفی کے مقلد ہونے کے باوجود اندھی تقلید کو امتِ مسلمہ کے حق میں درست نہیں سمجھتے تھے۔ آپؒ اپنے اس قلق کا بڑے دکھ کے ساتھ اظہار کیا کرتے تھے کہ ’’میں نے زندگی کا بڑا حصہ دوسرے علوم کے حصول میں ضائع کیا۔ اگر میں کلامِ پاک ہی کا مطالعہ کرتا رہتا، تو مجھے سارے علوم یہیں سے مل جاتے۔ یہ کتاب ساری کتابوں پر بھاری اور اس کا علم سارے علوم کا سرچشمہ ہے۔ اس کے مطالعے سے دل روشن ہوجاتا ہے اور کائنات کے اسرار و رموز سامنے آجاتے ہیں۔ وہ پردے جو خالق و مخلوق کے درمیان حائل ہیں بصیرتِ قرآنی سے کھلنے لگتے ہیں‘‘۔ مولاناؒ کے مواعظ اور تقاریر روایتی واعظوں کی طرح کی نہیں ہوتی تھیں، بلکہ قرآن پاک کے حوالے سے غوروفکر کی طرف مائل کرنے والی ہوتی تھیں۔ اندازِ بیان خالص علمی ہوتا اور طرزِ استدلال میں منطق، فلسفہ اور علم الکلام کی نکتہ آفرینی ہوتی تھی۔ زبان ایسی سہل اور سادہ استعمال کرتے جس سے عام آدمی بیان کا مقصد اور مفہوم بآسانی سمجھ لیتا تھا۔
ان کی مجالس اہلِ علم کے لیے ہوتی تھیں، مگر مجھ جیسے افراد بھی فکر کے کچھ نہ کچھ موتی لے کر اٹھتے تھے۔ اس ناچیز کو لڑکپن میں یعنی پچاس کی دہائی میں پہلی بار مولانا کے دیدار کا شرف حاصل ہوا تھا اور ان کی مجلس میں بیٹھنے کی پہلی بار سعادت اوائل جوانی یعنی ساٹھ کے عشرے میں حاصل ہوئی تھی جس کا ذریعہ میرے دوست حافظ عزیزالرحمن بنے تھے۔ حافظ عزیزالرحمن کے والد حکیم لطف الرحمن بقائی اور پھوپھا حکیم حافظ محسن الدین بقائی کا مطب ’’سلیمانی دواخانہ‘‘ ٹھٹھائی کمپائونڈ میں تھا۔ حکیم حافظ محسن الدین بقائی مولانا کے بچپن کے بے تکلف دوست تھے۔
مولانا کا معمول تھا صبح آکر دکان کھولتے تھے۔ جتنی دیر میں روز کے اخراجات جتنی آمدنی ہوجاتی، دکان بند کرکے چل پڑتے۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے ابھی مولانا دکان کھول ہی رہے ہیں کہ کوئی گاہک ایسا آگیا جس سے اتنی رقم حاصل ہوگئی کہ دن کے اخراجات پورے ہوجائیں تو مولانا دوبارہ دکان بند کرکے قریب ہی ٹھٹھائی کمپائونڈ میں اپنے دوست حافظ حکیم محسن الدین بقائی کے مطب پر چلے جاتے۔ مولانا کے پہنچتے ہی مطب میں مجلس جم جاتی تھی، ایسی ہی مجلس میں مجھے پہلی بار مولانا کی گفتگو سننے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ گفتگو کا موضوع تھا ’’خدا پر بندے کو یقینِ کامل کی کیفیت کب نصیب ہوتی ہے؟‘‘ مولانا سے یہ سوال مجلس میں موجود حاجی بشیر احمد نے کیا تھا، جس پر مولانا نے گھنٹے بھر قرآن و حدیث، سیرتِ طیبہ اور صحابہؓ کی زندگی کے واقعات کی روشنی میں سادہ اور عام فہم زبان میں ایسی سیر حاصل گفتگو کی تھی جس کی تاثیر آج بھی روزِاوّل کی طرح میرے دل پر نقش ہے۔
اللہ نے قناعت کی زندگی دے کر نفسِ مطمئنّہ سے سرفراز کیا تھا، جس نے انھیں زندگی بھر حُبّ ِمال اور حُبِّ جاہ سے محفوظ رکھا۔ جن افراد نے انھیں دیکھا ہے اور ان کی مجلسوں میں شرکت کی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ ان کی زندگی میں دنیا اور اہلِ دنیا سے اجتناب تھا۔ وہ خلقِ خدا سے تو بے پناہ محبت اور انسیت رکھتے تھے اور کسی حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کے لیے کسی دوست سے قرض لے کر ضروریات بھی اس انداز سے پوری کیا کرتے تھے کہ سائل کی عزتِ نفس کو مجروح نہ ہونے دیتے تھے، مگر اپنی ذات کے لیے کسی سے کبھی کوئی قرض لیتے اور نہ کوئی مدد قبول کرتے تھے۔ حالانکہ ان کی مجالس میں جہاں اہلِ علم کی کثرت ہوتی تھی، وہاں شرکت کرنے والوں میں صنعت و حرفت سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے نام بھی ہوا کرتے تھے، جن کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ وہ مولانا کی کوئی مالی خدمت کرسکیں، مگر مولانا نے کبھی کوئی پیشکش قبول نہیں کی۔ شیخ فضل حسن نے جن کے گھر مولانا اتوار کو درس دیا کرتے تھے، ایک بار مولانا کی خدمت میں کلفٹن میں نوتعمیر شدہ ایک گھر کی چابیاں کاغذ میں لپیٹ کر پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا یہ آپ کے گھر کی چابیاں ہیں۔ مولانا نے حیرت کے ساتھ چابیاں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میاں میرے تو گھر میں تالا ہی نہیں ہے، میں وہ چیز کیوں لوں جس کی مجھے حاجت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ضعیف العمری کی وجہ سے آخری دنوں میں مولانا کی صحت اچھی نہیں رہتی تھی۔ پیروں پر ورم بھی آگیا تھا۔ مگر پھر بھی وہ اسی فلیٹ میں رہے جو کئی منزلہ بلڈنگ کی آخری منزل پر تھا۔ مولانا کی زبان سے تو کسی نے یہ بات نہیں سنی، مگر ان کے قریبی ذرائع سے یہ روایت آتی ہے کہ مولانا فلیٹ تو کیا اپنے بستر کی جگہ بھی تبدیل نہیں کرنے دیتے تھے اور اصرار کرتے تھے کہ میرا بستر اسی جگہ رہنے دیا جائے۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی کہ اس جگہ انھیں خواب میں رسالت مآبؐ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ مولانا کی زندگی اور فکر پر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا بڑا گہرا اثر تھا۔ وہ اپنے مواعظ اور تقریروں میں اور تفسیر بیان کرتے وقت بھی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی رائے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔
مولانا عبدالعزیز محدث دہلویؒ بہت بڑے عالم تھے، اور ان کی ذات پر بریلوی، دیوبندی، خیرآبادی اور اہلِ حدیث کہلوانے والے غیرمقلدین کا بھی اتفاق و اتحاد تھا۔ مولانا کو اللہ نے مختصر اور مفصل گفتگو کرنے کا ملکہ دیا تھا۔ زبان و بیان پر تو قدرت تھی ہی، موضوع اور موقع محل کے اعتبار سے گفتگو کرتے تھے، وقت کم ہوتا تو پندرہ بیس منٹ میں بھی مدلل بات کرکے رخصت ہوجاتے۔ تفسیر قرآن بیان کرتے تو ایک آیت کی تفسیر میں کئی کئی گھنٹے لگاتے۔ حافظِ قرآن تھے اور حافظہ بلا کا تھا۔ قرآن پاک کی آیت کی تفسیر میں پہلے حدیث، سیرتِ طیبہؐ اور اسوۂ صحابہؓ پیش کرنے کے بعد قدیم وجدید مفسرین کی آرا کا ذکر کرکے کسی مفسر کی رائے سے اتفاق اور کسی سے اختلاف کرتے تھے۔ اختلاف میں حفظِ مراتب کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔ ویسے وہ بیک وقت جلالی اور جمالی صفت رکھنے والے بزرگ تھے۔ صبر و تحمل بھی بڑا تھا اور عجز و انکسار بھی تھا۔ ان کے درس میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہوتے تھے، اور جدید علوم کے وہ ماہرین بھی جو اپنے اپنے شعبوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے، ان ماہرین میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ملا واحدی، چودھری محمد علی (سابق وزیراعظم پاکستان)، ڈاکٹر محمود حسین، پروفیسر ایم ایم احمد، حکیم محمد سعید، حکیم احسن عباسی، اے کے بروہی، ماہرالقادری، پروفیسر حسن ریاض، جسٹس عبادت یار خان، جسٹس ظہورالحق، فضل احمد کریم فضلی، مہدی علی صدیقی (سیشن جج)، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، نواب صولت علی خان، ذاکر علی خان، مشتاق احمد یوسفی، مولانا حسن مثنیٰ ندوی، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، نصراللہ خان، مولانا حکیم قاری احمد پیلی بھیتی (معروف محقق، دانشور خواجہ رضی حیدر کے والد محترم)، حکیم قاری احمد (جن سے مولانا کے بہت قریبی مراسم تھے اور خود مولانا انھیں بہت عزیز رکھتے تھے)، سلیم احمد، احمد اسحق، ڈاکٹر ایوب قادری، سید محمود احمد مدنی، حکیم محسن الدین بقائی، اسماعیل احمد مینائی، اے کے سومار، شیخ فضل حسن، غلام احمد اسماعیل، حافظ محمد سعید سوت والے، سید گوہر علی شاہ گیلانی، حکیم محمود احمد برکاتی، حاجی مولابخش سومرو، خان بہادر حبیب الرحمن، شوکت علی دہلوی، حاجی محمد صالح دہلوی، اسلم ملتانی، محمود احمد خان، حاجی محمد صدیق، حکیم محمد عبداللہ، مراد خان جمالی، یوسف سیٹھی اور عبدالرحمن چھاپرا وغیرہ۔ سابق الیکشن کمشنر سندھ محمود احمد خاں نے مولانا کی ’’ختمِ نبوت‘‘ کے موضوع پر تقریر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔
کراچی میں مولانا محمد ایوب دہلویؒ کے درس کا سلسلہ ملا واحدی، محمد لطیف، اسد ملتانی، حکیم محمد سعید، شیخ فضل حسن، حافظ حکیم محسن الدین بقائی کے مطب سلیمانی دواخانہ اور لسبیلہ چوک پر صدیقی ٹرسٹ میں جاری رہا۔
مولانا محمد ایوب دہلویؒ کا انتقال 13 دسمبر1996ء کو کراچی میں ہوا اور تدفین میوہ شاہ قبرستان سے متصل جمعیت پنجابی سوداگران دہلی کے نجی قبرستان یوسف پورہ میں ہوئی تھی۔ مولانا نے نصف صدی سے زیادہ اپنی زندگی قرآن فہمی کو عام کرنے میں صرف کی۔ چھبیس ستائیس سال دہلی میں ہمدرد دواخانہ میں، ملا واحدی کے گھر، حکیم علی رضا خاں اور نواب فیض احمد خاں کے دیوان خانے میں وعظ کی مجالس سے خطاب کیا، بلکہ ملا واحدی کے گھر تو وہ روزانہ بیان کی محفل جماتے تھے۔ ملاواحدی نے لکھا ہے کہ 1947ء تک دہلی میں ان کی تقریروں کی تعداد چھ سات ہزار ہوگئی تھی۔ کراچی میں درس دیتے ہوئے ان کی تقریروں کا بڑا ذخیرہ ہمدرد فائونڈیشن کراچی میں، اور شیخ فضل حسن کے ہاں خاصی تعداد میں موجود تھا۔ کاش مولانا تقریر کی طرح تحریر کی طرف بھی توجہ دے پاتے تو آج ان کی تصانیف کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہوتا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنی تقریریں کسی کو تاجرانہ بنیاد پر شائع کرنے کی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس کام کے لیے کسی کو چندہ کرنے کی اجازت دی۔ مولانا کی جتنی بھی تقریریں کتابی شکل میں موجود ہیں وہ مولانا کے عقیدت مندوں نے اپنے ذاتی خرچ پر مفت تقسیم کے لیے شائع کی تھیں۔ مولانا کی تقریریں مکتبہ رازی اور صدیقی ٹرسٹ سے شائع ہوئی تھیں۔
صدیقی ٹرسٹ نے مولانا کی جو تقاریر شائع کیں ان پر یہ عبارت بھی واضح طور پر تحریر تھی کہ صدیقی ٹرسٹ اس کتاب کے لیے کسی سے چندہ وصول نہیں کرتا۔ مولانا کی تقریروں کا ایک مجموعہ تین جلدوں میں ’’مقالاتِ ایوبی‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، جس میں مسئلہ ختمِ نبوت، عورت نبیہ کیوں نہیں ہوسکتی، فتنہ انکارِ حدیث، مسئلہ جبروقدر پر تقاریر ٹیپ سے ٹرانسکرپٹ کرکے مدوّن کی گئی تھیں۔ رسالت مآبؐ کی بعثت کے حوالے سے تقریر ’’مقصودِکائنات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ اس پر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے بڑا پُرمغز پیش لفظ لکھا تھا۔ تفسیر قرآن کی دو جلدیں ’’تفسیر ایوبی‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھیں، جلد اوّل میں اعوذباللہ، بسم اللہ اور سورۂ فاتحہ کی تفسیر ہے، جبکہ دوسری جلد سورۂ بقرہ کے پہلے رکوع کی تفسیر ہے۔ تفسیر ایوبی سوا چار سو صفحات کی ہے۔ اب یہ ساری مطبوعات نایاب ہیں، اطلاع ہے کہ اب جناب احمد جاوید کی نگرانی میں ان کے احباب اس علمی ذخیرے کو شائع کرنے کا انتظام کررہے ہیں۔ مولانا کی ساری تقریروں کا ذخیرہ چھپ جائے تو یہ آنے والی نسلوں کو قرآن فہمی کی طرف راغب کرنے میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔
مولانا کے علمی کارناموں اور اس کے اثرات کے حوالے سے کسی مبسوط کام کی ضرورت ہے۔ مولانا کے حالاتِ زندگی پر بھی زیادہ تفصیل سے نہیں لکھا گیا ہے، کچھ معلومات جناب ملا واحدی کی کتاب ’’میرے زمانے کی دلی‘‘ میں ملتی ہیں، یا ڈاکٹر ناصرالدین صدیقی کی کتاب ’’بزرگانِ کراچی‘‘ میں۔ مولانا کے حالات کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیل سے سید محمود زین العابدین شاہ راشدی نے اپنی کتاب ’’انوار علمائے اہلسنت سندھ‘‘ میں لکھا ہے۔ اب شاید مولانا محمد ایوبؒ کی اولاد میں سے کوئی زندہ نہیں ہے۔ جب کہ ایک صاحب نے اطلاع دی ہے کہ ان کی ایک صاحبزادی حیات ہیں، راقم کی مولانا کے ایک داماد محمد فرید صاحب مالک ’’فریسکوسوئٹ‘‘ برنس روڈ کراچی سے راہ و رسم تھی۔ وہ بھی اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔ محمد فرید کے بیٹے اور پوتے حیات ہیں، وہی اس وقت فریسکو کے مالک ہیں۔ ان کے پوتے سے ملاقات ہوتی ہے، مگر ان کو کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ سابق صدر مملکت شیخ ممنون حسین کی بیگم مولانا کے داماد محمد فریدپراچہ کی سگی بھتیجی ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے پاس مولانا کے بارے میں کچھ مزید خاندانی معلومات ہوں۔
مولانا کی ایک بڑی انفرادیت یہ تھی کہ وہ دوسروں کے کام آتے تھے اور کسی پر یہ رازافشا نہیں ہونے دیتے تھے۔ میرے ایک نہایت عزیز دوست جناب غلام احمد اسماعیل نے مجھے بتایا تھا کہ مولانا نے کسی سے کبھی اپنی ذات کے لیے قرض نہیں لیا، جب بھی لیا کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ ان کے منہ سے ایک ہی جملہ نکلتا تھا کہ ’’میاں ہمیں تم سے کچھ ’’ناوے‘‘ کی ضرورت پڑ گئی ہے، ان شااللہ تعالیٰ اتنے دنوں میں رب العزت اس کی ادائیگی کا انتظام فرما دیں گے‘‘۔ مجال ہے کبھی ایسا ہوا ہو کہ زبان سے نکلی ہوئی تاریخ اور وقت پر مولانا رقم واپس کرنے نہ آئے ہوں، وعدہ ایفا کرنے میں مولانا ایک دن اور ایک گھنٹے کی تاخیر بھی کبھی نہیں ہونے دیتے تھے۔ مولانا کا طریقہ یہ تھا کہ جس کے لیے قرض لیتے تھے، اُس سے دریافت کرلیا کرتے تھے کہ ادائیگی کتنے دنوں میں ہوسکے گی؟ وہ جتنے دن بتاتا مولانا واپسی کا کچھ وقت زیادہ کردیتے، اگر اُس نے اپنے وقت پر ادائیگی کردی تو مولانا اسی دن واپس کردیتے، اگر دیر کردی تو مولانا قرض کی واپسی اس تاریخ کو ضرور کرتے جس کا مولانا نے وعدہ کیا تھا خواہ اس کے لیے کسی دوسرے سے ہی قرض لینا پڑتا۔ میرے دوست نے ایک بار مولانا سے درخواست کی کہ کسی خدمت کا موقع دیں تو جواب دیا کہ اپنے اردگرد دیکھیں اور جس ضرورت مند کی ضرورت پوری کر سکتے ہوں، کردیں۔
میں یہاں چند اقتباسات جناب ملا واحدی، جناب مشتاق احمد یوسفی اور نصراللہ خان کے مولانا پر لکھے گئے مضامین اور جناب احمد جاوید کے ایک انٹرویو سے نقل کررہا ہوں۔ جناب ملا واحدی نے اپنی کتاب ’’میرے زمانے کی دلی‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’مولانا محمد ایوبؒ، مولانا محمد اسحاقؒ رامپوری کے شاگرد ہیں۔ مولانا محمد اسحاق نے ساٹھ برس لوگوں کو پڑھایا، مدرسہ نذیریہ کے طلبہ نے ممکن ہے ان سے کچھ سیکھا ہو، لیکن مولانا کے تمام گھریلو شاگرد میری طرح کورے رہے۔ میں بھی مولانا محمد اسحاق کا شاگرد ہوں، اور مولانا محمد ایوب سے پہلے کا شاگرد ہوں۔ مولانا محمد ایوب تنہا شخص ہیں، جنھوں نے مولانا محمد اسحاق سے پورا فیض حاصل کیا… مولانا محمد اسحاق قرآن، حدیث، فقہ سب علوم میں یکتائے روزگار تھے، لیکن منطق اور فلسفہ و حکمت ان کا خاص مضمون تھا۔ منطق اور فلسفہ و حکمت کا انھیں اسپیشلسٹ کہنا چاہیے۔ مولانا محمد ایوب نے بھی منطق اور فلسفہ و حکمت میں کمال پیدا کیا تھا۔ منطقیوں کا دماغ عموماً مذہب کے خلاف جایا کرتا ہے، لیکن مولانا محمد اسحاق منطق سے اسلام کی تائید کا کام لیتے تھے۔ مولانا محمد ایوب کی بھی یہی روش ہے، اور اس روش پر چلنے کے مولانا محمد ایوب کو مولانا محمد اسحاق سے زیادہ مواقع ملے ہیں۔
مولانا کی تقریریں سننے سے اسلام کے متعلق کوئی شبہ باقی نہیں رہ سکتا۔ مولانا کو بولنے کی طرح لکھنے کا چسکا نہیں ہے۔ ورنہ اللہ نے امام غزالیؒ کا سا دماغ عطا کیا تھا۔ کسی کو اپنی عقل پر گھمنڈ ہو تو وہ مولانا محمد ایوب کی تقریریں سن لے، اسے اپنی عقل کی بے بضاعتی کا پتا لگ جائے گا۔ مولانا عقل و عرفان کے سمندر میں اس تہہ تک پہنچ جاتے ہیں جہاں بڑے بڑے مدعیانِ عقل نہیں پہنچ سکتے۔ مجھے مولانا محمد ایوب کی تقریروں سے بے حد فائدہ پہنچا ہے۔ میں ان کے اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ خواجہ حسن نظامی کے ذریعے اللہ نے مذہب کی طرف متوجہ فرمایا تھا، مولانا محمد ایوب کی تقریریں سنوا کر ایمان مستحکم کیا۔ مولانا محمد ایوب مجھ سے دس برس چھوٹے ہیں، لیکن میں انھیں اپنا بزرگ سمجھتا ہوں۔ میری تحریر میں تھوڑی بہت کوئی بات ہے، تو وہ خواجہ حسن نظامی کی پچاس سالہ ہم نشینی کا نتیجہ ہے، اور کسی قدر غوروفکر کرنا آیا ہے، تو مولانا محمد ایوبؒ کی چالیس سالہ صحبت سے آیا ہے۔ مولانا محمد ایوبؒ نے مولویت کو پیشہ نہیں بنایا، الحمدللہ میں چالیس سال سے مسلسل یہ تقریریں سن رہا ہوں۔‘‘
جناب مشتاق احمد یوسفی نے مولانا پر اپنے مضمون ’’ایک اوکھا انوکھا دکاندار‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ:
’’فقرواستغنا کا تذکرہ مولانا محمد ایوب دہلویؒ کے ذکر کے بغیر ادھورا رہے گا۔ میں نے مولانا کو اپنے عزیز دوست میاں فضل حسن کے ہاں دیکھا اور گھنٹوں بڑے شوق و ادب سے سنا۔ وہ ان کے ہاں اتوار کے اتوار تشریف لاتے تھے۔ فضل صاحب ان کے فرمودات بڑی عقیدت اور باقاعدگی سے ریکارڈ کرتے۔ حکیم محمد سعید کے پاس بھی ان کی باتیں بیسیوں کیسٹوں میں محفوظ تھیں جن کے کچھ حصے چھپ چکے ہیں۔ دور ہو یا قریب کہیں بھی جانا ہو، میں نے مولانا کو پیدل ہی آتے جاتے اور دسمبر اور جنوری میں بھی صرف ململ ہی کے کرتے میں دیکھا۔ دقیق سے دقیق نکتے کو باتوں ہی باتوں میں بہت سہل اور سجل پیرائے میں بیان کردیتے۔ جتنی آسانی سے وہ سمجھاتے اتنی ہی آسانی سے بات سمجھ میں آجاتی۔ جس موضوع پر گفتگو کرتے، اس کے اختتام پر فوراً اٹھ کھڑے ہوتے۔ چائے، مشروبات، کھانے اور کسی بھی قسم کی تواضع سے پہلے ہی بہ عجلت رخصت ہوجاتے۔‘‘
اپنے عہد کے منفرد کالم نگار اور صحافی نصراللہ خان (مرحوم) نے مولانا پر اپنے تعزیتی کالم میں لکھا تھا کہ:
’’اگرچہ مولوی محمد ایوبؒ تابعین اور تبع تابعین کے وقت کے بہت بعد پیدا ہوئے، لیکن ان قدسی صفات بزرگوں کے حالات کتابوں میں پڑھ کر اور مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں لگتا ہے، جیسے مولوی صاحب انہی میں سے ہیں۔ وہی صبروتحمل، وہی عاجزی و انکساری، وہی شانِ قلندری، وہی جلال، وہی جمال، وہی سادہ زندگی اور حصولِ اکل حلال، وہی خود تکلیفیں اٹھانا، دوسروں کا بھلا چاہنا اور ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنا۔ کلام پاک کے مطالعے سے کچھ لوگوں پر شریعت کی راہیں روشن ہوتی ہیں اور کچھ لوگوں پر طریقت کی۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جن پر یہ دونوں راستے بیک وقت روشن ہوجاتے ہیں، مولوی صاحب ان قدسی صفات بزرگوں میں سے تھے جن پر دونوں راستے روشن تھے۔‘‘
معروف ادیب، شاعر، دانشور اور مذہبی اسکالر جناب احمد جاوید نے فرائیڈے اسپیشل کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے مولانا محمد ایوب دہلویؒ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ:
’’رہی بات مولانا ایوب دہلویؒ کی، تو بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری روایت کے آخری متکلم تھے۔ ان کے زیادہ موضوعات کلامی تھے، معقولی تھے۔ اگر کبھی متکلم کی حیثیت سے ان کا جائزہ لیا گیا، تو وہ ہماری علم الکلام کی روایت میں سب سے آگے کے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ مذہبی فکر کے جو مسائل لاینحل چلے آرہے تھے ان میں ایک مسئلہ جبروقدر تھا۔ اس طرح کے مسائل کو مولانا ایوب دہلویؒ نے اس طرح حل کیا کہ ان کی دشواری پڑھنے یا سننے والے کی نظر سے غائب ہوگئی۔ عقل اپنے آپ کو پورے کا پورا ایمان کے تابع رکھنے کا ارادہ رکھنے کے باوجود اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے سے عاجز رہ جائے، تو جو شخص عقل کی اس نارسائی کو دور کرے گا وہ اصل میں متکلم ہوگا۔ متکلم کہتے ہی اُسے ہیں جو عقل کے ایمانی کردار کو اس کے دیگر وظیفوں پر غالب رکھ کر دکھا دے۔ مولانا ایوب دہلویؒ گزشتہ سو، دو سو برس کی روایت میں شاید سب سے بڑا مذہبی ذہن ہیں، جنھوں نے عقل کی نارسائی کا ازالہ کیا اور عقل کو ایمانی بننے کے لیے جن دلائل کی ضرورت تھی، وہ دلائل فراہم کیے۔ لیکن افسوس، چوں کہ بڑے موضوعات سے ہماری مناسبت ختم ہوچکی ہے اور مولانا کے مخاطبین معمولی لوگ تھے اور اس کے بعد اس معمولی پن میں اضافہ ہوتا چلا گیا، تو اب تو نہ کسی کو جبروقدر مشکل محسوس ہوتا ہے، اور نہ آسان، کیوں کہ وہ اس سے واقف ہی نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کی تعریف وتوصیف سامنے نہیں آسکی۔ مولانا پر مجھے یہ اعتماد رہا ہے اور ہے کہ ایمانیات میں، عقل کی ہر مشکل میں، اسے قائل کرنے کی جیسی قوت ان میں تھی وہ میں نے کسی کی تحریر میں دیکھی نہ تقریر میں۔ یہ ان کا امتیاز تھا۔ شخصیت کے اعتبار سے وہ بہت بڑے آدمی تھے، یعنی بلند کردار اور عمیق علم کو اگر ایک شخص میں جمع دیکھنا ہے، تو آپ مولانا ایوب دہلویؒ کو دیکھیں، یہ تھے مولانا ایوب دہلویؒ۔‘‘
افسوس، یہ تمام باتیں مولانا ایوب دہلویؒ کے ساتھ ختم ہوگئیں، جب کہ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی کراچی مذہب و ادب کے حوالے سے منفرد تھا۔ یہ شہر صوفیہ، علما، بزرگانِ دین اور ادباوشعرا کا مسکن تھا۔ جگہ جگہ علمی، فکری اور دینی مجالس کا انعقاد ہوا کرتا تھا اور لوگ بلاتفریقِ مسلک و مذہب ان میں شریک ہوا کرتے تھے۔ یہ صورتِ حال ستّر کی دہائی تک برقرار رہی۔ مذہبی اور غیرمذہبی انتہاپسندی بالکل نہیں تھی۔ برداشت، تحمل اور درگزر جیسے رویّے عام تھے، لوگ ان رویوں سے اخلاص کے ساتھ وابستہ تھے اور انہی رویوں کی بنا پر شہر میں امن و امان کی صورتِ حال قائم تھی۔ بعد میں یہ صورتِ حال مضمحل ہوتی گئی اور رفتہ رفتہ انتہاپسندی کا عفریت ہر طرف ناچنے لگا، اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے امن و امان ہی نہیں اس شہر سے علم بھی اٹھ گیا ہے۔ اہلِ علم معدوم ہو گئے ہیں۔ ہر طرف ایک خوف اور بے کیفی عود کر آئی ہے۔ اے اللہ تُو ہمارے شہر اور ہمارے ملک کو اپنی اصل کی طرف لوٹا دے تاکہ ہماری نئی نسلیں علم و اخلاق سے آراستہ ہو سکیں۔ (آمین)