انتخابی نشان سے محروم تحریک انصاف

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کی ’’اہم شخصیت‘‘ سے ملاقات کے بعد انتخابی مہم کا آغاز

پاکستان میں انتخابی سرگرمیاں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ کچھ عناصر کی طرف سے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش بھی مسلسل کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں اس نوعیت کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہوں گے ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپر چھاپنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے، پچیس کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے جائیں گے۔ انتخابی عملے کے طور پر خدمات انجام دینے والے سرکاری ملازمین کی تربیت کا عمل بھی جاری ہے۔ انتخابی عمل کا اہم ترین مرحلہ انتخابی نشانوں کی الاٹمنٹ کا ہے، جو اِن دنوں تحریک انصاف سے متعلق فیصلے کی وجہ سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد یہ معاملہ طے ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف اگرچہ فیصلے سے مطمئن اور خوش نہیں، تاہم وہ نظرثانی کی اپیل تو کرے گی مگر انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی۔ بیرسٹر گوہر علی خان بھی کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں عمران خان کا پیغام ہے کہ گھبرانا نہیں ہے، ڈٹے رہنا ہے، آپ کو پُرامن رہنا ہے، اشتعال میں نہیں آنا ہے۔ بیرسٹر گوہر علی واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ عمران خان کے ترجمان ہیں، ان کی کہی ہوئی بات ہی عمران خان کا اصل پیغام سمجھی جائے گی۔

دیکھنا ہے کہ فروری 2024ء میں ہونے والے عام انتخابات معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود کی سیاست میں کس قدر استحکام لانے کا باعث بنیں گے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں سیاسی تجزیہ کاروں کے درمیان سوال موجود ہے کہ جو کچھ بھی کرنے کی ضرورت ہے وہ نومنتخب حکومت کرپائے گی؟ اور ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرپائے گی؟ اقتصادی ترقی، سیاسی استحکام اور جمہوری اقدار کسی بھی جمہوری ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جمہوریت، آزادیِ اظہار، انصاف اور عدل شہریوں کے یکساں حقوق کی ضمانت ہیں، لیکن شفاف الیکشن کے لیے نگراں سیٹ اپ کی حکمت عملی کہیں نظر آرہی ہے؟ سیاسی میدان میں ایک ہی سمت میں ساری مہم جوئی جمہوریت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔

تحریک انصاف سے اُس کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد اس کے امیدوار آزاد حیثیت میں انتخاب لڑیں گے۔ الیکشن کمیشن کو انٹراپارٹی انتخابات میں شفافیت کا معاملہ ملک کی دیگر تمام سیاسی جماعتوں میں بھی دیکھنا ہوگا، اگر دوسری کسی اور سیاسی جماعت کو اسی معیار پر نہ پرکھا گیا تو الیکشن کمیشن کے بارے میں بہت ہی سنجیدہ سوالات اٹھیں گے۔

سپریم کورٹ میں جو کارروائی ہوئی، جسے براہِ راست نشر بھی کیا گیا، اس مقدمے کی سماعت میں تحریک انصاف اپنا مؤقف درست ثابت نہیں کرسکی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کے سامنے کئی گھنٹوں پر مشتمل طویل سماعت ہوئی، جس کے بعد تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ سنایا۔ فیصلے کا متن یہ ہے:

’’تحریک انصاف کے داخلی انتخابات پارٹی کے اپنے آئین اور قوانین کے مطابق نہیں کرائے گئے، پارٹی کے اندر ارکان کو اُن کے جمہوری اور آئینی حق سے محروم رکھا گیا، اس لیے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا، اس کی اپنی آئینی حیثیت ہے۔ وکلا پر مشتمل پارٹی کی موجودہ قیادت نے اصل انتخابی نشان نہ ملنے کی صورت میں پی ٹی آئی این کے نام سے بنائی گئی سیاسی جماعت کے انتخابی نشان ’بیٹسمین‘ پر اپنے امیدواروں کو الیکشن لڑوانے کا پلان بی تیار کیا تھا، لیکن یہ منصوبہ بھی ناکام ہوگیا، کیونکہ قانوناً ایک امیدوار بیک وقت دو جماعتوںکا نمائندہ نہیں ہوسکتا۔ یوں پلان بی کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملک بھر میں اب الگ الگ انتخابی نشان الاٹ کیے گئے ہیں، جماعتی حیثیت باقی نہ رہنے کی وجہ سے تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں پر بھی اپنے امیدوار نہیں لاسکے گی۔ کئی قانونی ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں نے انتخابی نشان سے پارٹی کی محرومی کو بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا ہے۔ تحریک انصاف کی لیڈر شپ وکلا کے ہاتھ میں ہے، جو غریب عوام کے نہیں اشرافیہ کے مقدمے لڑتے ہیں اور انہیں عوام کی نبض کی رفتار کا علم کہاں! بیرسٹر گوہر کہتے ہیں:

’’سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نظرثانی کی اپیل داخل کرنے کا فیصلہ کریں گے، جس طرح کے فیصلے کیے گئے ہیں ان سے الیکشن کی کوئی ساکھ نہیں رہے گی، الیکشن ایکٹ کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسری جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن قبول کرکے انہیں نشان دے دیا۔‘‘ مزید کہتے ہیں کہ ’’سپریم کورٹ میں تمام بنیادی دستاویزات دکھائی ہیں، اگر باریک بینی سے انٹرا پارٹی الیکشن میں داخل ہوجائیں تو کوئی کمی بیشی تو ہوگی۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف جانے والے پارٹی ممبر نہیں، شکایت کنندہ پارٹی کے ارکان نہیں تھے، ہم نے ساری دستاویزات عدالت میں جمع کرائی تھیں۔ انٹرا پارٹی انتخابات میں چھوٹی موٹی کوتاہیاں ضرور رہ جاتی ہیں، عدالت کو انٹرا پارٹی الیکشن کے معاملے میں پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اگر کسی کو پارٹی سے الگ کرنے پر شکایت ہے تو وہ سول کورٹ جاسکتا ہے،کسی کو پارٹی سے نکالنے کا معاملہ سپریم کورٹ کو تو نہیں دیکھنا، بانی ممبر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ پارٹی ممبر رہے گا۔ سپریم کورٹ ہمیں جرمانہ کرسکتی تھی۔ عدالت سے کہا تھا اے این پی کی طرح ہمیں بھی جرمانہ کرکے نشان دے دیں۔ ہم نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ دوبارہ الیکشن کرا دیں گے۔ 2020ء میں انٹرا پارٹی انتخابات کووڈ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے تھے، لیول پلیئنگ فیلڈ دور کی بات، اب پلیئنگ فیلڈ ہی نہیں رہی۔ ہمارے جو امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے وہ الیکشن کے بعد آزاد نہیں رہیں گے۔ انتخابی نشان اس لیے چھینا گیا تاکہ ہمیں مخصوص نشستیں نہ ملیں۔ اس طرح الیکشن کی کوئی ساکھ نہیں رہے گی۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نظرثانی کا فیصلہ کریں گے۔‘‘

بہرحال اب سپریم کورٹ اپنا فیصلہ دے چکی ہے، اور یہ فیصلہ تحریک انصاف اور ملک کے سیاسی منظرنامے کا بہت اہم موڑ ہے۔

ملکی سیاست کا دوسرا بڑا واقعہ سینیٹ میں الیکشن ملتوی کیے جانے سے متعلق قراردادوں کا جمع کرایا جانا ہے۔ اب تک ایک قرارداد سینیٹ نے منظور کی ہے، اس کے بعد ایک قرارداد جمع کرائی گئی کہ الیکشن ملتوی نہ کیے جائیں، جس کے بعد تین قراردادیں پھر جمع کرائی گئیں کہ الیکشن ملتوی کردیا جائے۔ الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد سینیٹر ہلال الرحمان نے جمع کرائی جو فاٹا سے آزاد سینیٹر ہیں۔ سینیٹر ہلال الرحمان کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ شدید سردی اور برف باری خیبرپختون خوا میں شہریوں کو سازگاز ماحول میں ووٹ ڈالنے سے روک رہی ہے، امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختون خوا میں امیدواروں کو دہشت گرد حملوں کا خدشہ ہے، صوبے کے ووٹرز اور امیدواروں میں احساسِ محرومی ہے۔ سینیٹر ہلال الرحمان نے کہا کہ خیبرپختون خوا میں الیکشن کی تاریخ غیر موزوں ثابت ہورہی ہے، لہٰذا عام انتخابات کو 8 فرروی کے بجائے موزوں تاریخ تک ملتوی کیا جائے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے سینیٹ قرارداد پر انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کرلی۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ سیکرٹریٹ کو مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ قرارداد کا اجلاس میں جائزہ لیا، الیکشن کمیشن نے صدر سے مشاورت کے بعد پولنگ کے لیے 8 فروری 2024ء کی تاریخ مقرر کی۔ الیکشن کی تمام تیاریاں مکمل کررکھی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے نگران وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ ماضی میں بھی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات موسم سرما میں ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن 8 فروری کوانتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں بھی یقین دہانی کروا چکا ہے، اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کے لیے عام انتخابات کو ملتوی کرنا مناسب نہیں ہوگا۔

الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد اب بات واضح ہوگئی کہ انتخابات سر پر ہیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم شروع کرچکی ہیں، لیکن مسلم لیگ(ن) نے ابھی انتخابی مہم شروع نہیں کی۔ تحریک انصاف کے انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کے بعد نوازشریف نے اسلام آباد میں ایک ’’اہم شخصیت‘‘ سے ملاقات کی جس میں مسلم لیگ (ن) کے لیے حکمتِ عملی پر بات چیت ہوئی ہے۔ اس ملاقات کے بعد مسلم لیگ(ن) نے باضابطہ طور پر انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ انتخابی مہم میں نوازشریف اور مریم نواز کی تقاریر بہت اہم ہوں گی، انہی سے مسلم لیگ(ن) کے اصل بیانیے اور آئندہ کی حکومتی پالیسیوں کا اظہار ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کے بارے میں تو صورتِ حال واضح ہے، وہ اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت میں طاقتور حلقوں سے اپنی وابستگی اور اپنے بارے میں اُن کی پسندیدگی کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔

اسلام آباد میں تیسری سب سے بڑی اور اہم پیش رفت سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجازالاحسن کا استعفیٰ ہے۔ لیکن استعفیٰ دیے جانے کے باوجود ان کی جان بخشی ہوتی نظر نہیں آرہی، کیونکہ نگران حکومت نے ریٹائرڈ ججوں کو کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی سے تحفظ دینے کا قانون عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ نگران حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ مستعفی ہونے والے سپریم کوٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنائے گئے اس مؤقف کے بعد کیا گیا ہے کہ مستعفی ہونے کے بعد اب حکومت قانوناً جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کا ایک اہم اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا، جس میں مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے جمع کرایا گیا تحریری جواب پڑھ کر سنایا گیا۔ اپنے تحریری جواب میں انہوں نے کہا کہ ’’سپریم جوڈیشل کونسل صرف سپریم کورٹ کے جج کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے، ریٹائرڈ جج کے خلاف نہیں‘‘۔ جوڈیشل کونسل میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر عافیہ شہر بانو فیصلے کے خلاف اپیل دائر کررہے ہیں، جس میں ریٹائرڈ ججوں کو تحفظ دینے والے قانون کو ختم کرنے کی استدعا کی جائے گی۔ اب حالات بدل گئے ہیں اور یہ قانون بن کر رہے گا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھی گئی ہے مگر جسٹس اعجازالاحسن نے استعفیٰ دینے سے قبل جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں شرکت سے معذرت کرلی تھی۔ جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے یہ ریمارکس اہم ہیں کہ کوئی جج ادارے کی ساکھ تباہ کرکے استعفیٰ دے جائے اور ہم کارروائی نہ کریں! ظاہر ہے یہ کارروائی جاری رہے گی۔ اور موجودہ چیف جسٹس کی شہرت یہی ہے کہ انصاف، قانون اور آئین کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں ہیں۔

پاکستان کے معاشی استحکام پروگرام کے تحت گزشتہ برس جون میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے ساتھ پی ڈی ایم حکومت نے تین ارب ڈالر قرض کا اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت واشنگٹن میں منعقدہ جائزہ اجلاس میں 70کروڑ ڈالر کی دوسری قسط جاری کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ اقدام حکومتِ پاکستان پر اظہارِ اعتماد ہے جسے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے اس کے بدلے میں سخت ترین اقتصادی فیصلے کرنا پڑے۔ پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حکومت مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ برقرار رکھے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں گے۔ درآمدات و برآمدات میں توازن لایا جائے گا اور روپے پر پڑنے والے اثرات کو انتظامی اقدامات کے ذریعے روکنے سے گریز کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے آئی ایم ایف کو مالی سال 2024ء کے بجٹ پر مستقل مزاجی سے قائم رہنے کی یقین دہانی اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل ایڈجسٹمنٹ اور زرمبادلہ کی نئے سرے سے آمد کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا، جس کے بعد متذکرہ 70 کروڑ ڈالر کی قسط کے اجرا کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے پیکیج کی بقیہ رقم کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی ہے جو آئندہ ماہ فروری میں متوقع ہیں۔