اقبال، افغانستان اور فلسطین

1929ء میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی۔ 17 جنوری 1929ء کو بچہ سقہ نے امیر امان اللہ خان، والی افغانستان کو ملک بدر کرکے کابل پر قبضہ کرلیا۔ پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ آخر جنرل نادر خان بچہ سقہ کی سرکوبی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اقبال انہیں جانتے تھے۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی۔

جنرل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے برعظیم کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی اس کے مخاطب ہیں:

’’اس وقت اسلام کی ہزارہا مربع میل سرزمین اور لاکھوں فرزندانِ اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درمند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو، کر گزریں‘‘۔

فلسطین میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے پُر تشدد غلبے اور خاص طور پر مسجد اقصیٰ کے ایک حصے پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے احتجاجی جلسے ہورہے تھے۔ 7 ستمبر 1929ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطے میں فرمایا:

’’یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مسلمانوں کا ضمیر حُبِ وطن سے خالی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حب وطن کے علاوہ مسلمانوں کے دل میں محبتِ اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کردیتا ہے اور کرکے چھوڑے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا…1914ء میں انگریز مدبروں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلہ کار بنایا، صہیونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے، ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کے مالکانہ تصرف کا دعویٰ کررہے ہیں۔ انہوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جارہے ہیں… اب حکومتِ برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقات حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کرلیا ہے، مگر میں اعلان کردینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں‘‘۔

(ازِحیات اقبال/ شائع کردہ اقبال اکادمی لاہور)

مجلس اقبال
ضمیر لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو ’’شہید جستجو‘‘ کردے

نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے اس شعر میں علامہ مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ یہ جو مُردہ دل ہوچکے ہیں اور ان کے دل میں کسی قسم کی تمنائیں اور آرزوئیں جنم نہیں لیتیں تُو ان کے دلوں میں امید و آرزو کے چراغ روشن کر، اور انہیں زندگی کا وہ شعور دے کہ یہ مقاصد کے حصول کے لیے جستجو اور جدوجہد کرسکیں، یعنی زندگی تو ہے ہی یہی کہ انسانوں کے دل زندہ ہوں، ان میں امیدیں اور آرزوئیں جنم لیتی ہوں اور ان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔