معتوب کتابیں

پیش ِ نظر کتاب ’’معتوب کتابیں‘‘ دنیا بھرکی اُن 140 کتابوں کی رودادہے جو مختلف زمانوںاورمختلف علاقوںمیں پابندیوں کا نشانہ بنیں۔ ان 140 کتابوں میں سے بعض معتوب کتابیں ایسی بھی ہیں جو کسی ایک ملک میں پابندی کی زد میں آئیں جب کہ دنیا کے باقی خطوں میں وہ بآسانی دستیاب رہیں، یا کسی ایک صوبے میں زیرِ عتاب آئیں مگر دوسرے صوبوں میں فروخت ہوتی رہیں۔ بعض کتابیں حکومتی پابندیوں کی زد میں آئیں اور بعض کتابیں عوام الناس کے غیظ و غضب کا نشانہ بنیں۔ بعض کتابوں کو جلایا بھی گیا۔

ان معتوب کتابوں میں کچھ ایسی بھی ہیں جو عارضی طور پر عتاب کا نشانہ بنیں مگر بعد میں ان پر عائد پابندی اٹھالی گئی۔ اسی طرح سماجی اخلاقیات کے معیار کی تبدیلی نے ایسی بہت سی کتابوں کو جو ممنوعہ تھیں، مقفل الماریوں سے نکال کر لائبریریوں، کتب خانوں اور کتابوں کی دنیا کی زینت بنادیا ہے، اور بہت سی ایسی کتابیں ادبی نصاب کی مطلوبہ فہرست ِ مطالعہ میں شامل ہوچکی تھیں۔

یہ کتابیں اپنے موضوع اور نوعیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے خاصی مختلف ہیں۔ کچھ تخلیقات مقابلتاً محدود سنسرشپ کی زد میں آئیں، اور کچھ کتابیں سنسرشپ کی وسیع اور متاثر کن تاریخ رکھتی ہیں۔ کتابوں پرپابندی کی زد میں صرف کتابیں ہی نہیں آئیں بلکہ کہیں کہیں ان کے مصنفین بھی زیرِ عتاب آئے، اور بعض کو تو سزائے موت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کہیں ان کتابوں کا ناشر قتل ہوا، کہیں مصنفین کے قتل کے فتوے جاری ہوئے، اور کہیں ان کا منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر جلوس نکالاگیا۔ اس کے برعکس بیسویں صدی میں ایسی کئی کتابوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا، ان کے مصنفین کو ادب کے نوبیل انعام سے سرفراز کیا گیا، اور اردو سمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں ان کے تراجم کیے گئے۔

پیش نظر کتاب کے مرتبین نکولس جے کارو لائیڈس، مارگریٹ بالڈ اور ڈان پی سووا ہیں۔ جب کہ ترجمے، اضافے اور تدوین کی خدمت ممتاز شاعر اور محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری (تمغۂ امتیاز) نے انجام دی ہے۔ جعفری صاحب کی تحقیق کا خصوصی موضوع ادب، لسانیات اور پاکستانیات ہے۔ تحقیق کے شعبے میں آپ کی درجِ ذیل تصانیف مشہور ہیں:

’’پاکستان کرونیکل‘‘، ’’پاکستان کی اردو فلمی صنعت‘‘، ’’بیسویں صدی سال بہ سال‘‘، ’’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘‘، ’’قائداعظم کی ازدواجی زندگی‘‘، ’’پاکستان کا قومی ترانہ: کیا ہے حقیقت، کیا ہے فسانہ؟‘‘، ’’سوز خوانی کا فن‘‘، ’’کراچی کی عزاداری اپنی یاد میں‘‘، ’’پاکستان کی ناکام سازشیں‘‘، ’’366 دن‘‘، ’’پاکستان کی انتخابی سیاست‘‘، ’’لیاقت علی خان قتل کیس‘‘، ’’پاکستان کی ناکام سازشیں‘‘ وغیرہ۔

جعفری صاحب حرفِ آغاز میں لکھتے ہیں:

’’کتابوں اور علم کی ترسیل پر پابندی کی کہانی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسان کی۔ چین میں ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا اصل نام ونگ چنگ اور معروف نام شی ہوانگ ٹی تھا، جس کے معنی ہیں پہلا شہنشاہ۔ وہ چاہتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کا آغاز اُس کے عہد سے ہو۔ اسی سبب سے اُس نے اپنے ملک کی گزشتہ تاریخ اور بادشاہوں کا ذکر ختم کرنے کے لیے حکم جاری کیا کہ ایسی تمام کتابیں نذرِ آتش کردی جائیں جن میں ماضی کا ذکر ہو۔ اس حکم کی زد میں کنفیوشس کی کتابیں بھی آئیں۔ موصوف نے حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ موجودہ زمانے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے ماضی کی اہمیت بڑھائیں گے انھیں ان کے اہلِ خانہ سمیت قتل کردیا جائے گا۔

اسی طرح جب 48 ق م میں جولیس سیزر نے اسکندریہ کا محاصرہ کیا تو اسکندریہ کے شہرۂ آفاق کتب خانے کو تباہ کردیا۔ 391ء میں تھیوفلس اعظم کے حکم سے عیسائیوں نے اس کتب خانے کی کتابوں کو نیست و نابود کردیا، کیوں کہ ان کے خیال میں ان سے کفر پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ رہی سہی کسر اورلین کے عہد میں خانہ جنگی کے دوران پوری کردی گئی۔

کتابوں پر پابندی کا یہ سلسلہ برصغیر میں بھی جاری رہا۔ یہاں پہلے پہل اخبارات پابندیوں اور بندش کا نشانہ بنے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد حکومت نے انڈین پریس ایکٹ 1910ء کی طرز پر مختلف قوانین نافذ کیے جن کی زد میں اخبارات کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی آنے لگیں۔ یہاں زیادہ تر مذہبی اور سیاسی تصانیف پابندی کی زد میں آئیں۔ ‘‘

پیشِ نظر کتاب میں شامل ’’معتوب کتابوں‘‘ کی فہرست بڑی محنت اور جستجو کے بعد تیار کی گئی ہے۔ جعفری صاحب نے ہر کتاب کا تعارف، مصنف کی مختصر سوانح عمری، کتاب کا خلاصہ، طباعت کی تاریخ اور کتاب پر سنسر کی پابندی یا کسی اورظلم و ستم کے بارے میں تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ان کتابوں کو درجِ ذیل چھے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:

1۔ سیاسی بنیادوں پر معتوب ادب، 2۔ مذہبی بنیادوں پر معتوب ادب، 3۔ جنسی بنیادوں پر معتوب ادب،4۔ سماجی بنیادوں پر معتوب ادب، 5۔ چند اور معتو ب کتابیں، 6۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والی کچھ معتوب کتابیں

ان معتوب کتابوں میں جارج اورویل کی ’’اینیمل فارم‘‘، ایڈولف ہٹلر کی ’’میری جدوجہد‘‘، کرٹ وونے گٹ جونیئر کی ’’سلاٹر ہائوس فائیو‘‘، ٹامس پین کی ’’ایج آف دی ریزن‘‘، ڈپٹی نذیر احمد کی ’’امہات الامہ‘‘، بروک کول کی ’’بھیڑ بکریاں‘‘، جون ہووارڈ گریفن کی ’’مجھ جیسا سیاہ فام‘‘، چارلس بودلیئر کی ’’بدی کے پھول‘‘، نواب حکیم مرزا شوق لکھنوی کی ’’مثنوی زہرِ عشق‘‘، منشی پریم چند کی ’’سوزِ وطن‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

کتاب کا انتساب بجا طور پر پاکستان کے نامور صحافی، مصنف اور آزادیِ صحافت کے علَم بردار ضمیر نیازی مرحوم (م:2004ء) کے نام کیا گیا ہے، جو دنیا بھر میں سنسر کا نشانہ بننے والی کتابوں کی روداد”Books in Chains, Libraries in Flames”کے نام سے لکھنے کے خواہش مند تھے، مگر زندگی نے انھیں مہلت نہیں دی۔

اردو زبان میں اس عمدہ اور منفرد کاوش پر فاضل مترجم، مدون اور مصنف لائق ِ تحسین ہیں۔