بلوچ خواتین کا دھرنا تیسرے ہفتے میں ’’حق دو گوادر تحریک‘‘ کے رہنما ہدایت الرحمٰن بلوچ کی آمد

بلوچ عوام کے سیاسی و سماجی حقوق کے لیے اسلام آباد میں جاری بلوچ یک جہتی دھرنے کو اب دوسرا ہفتہ مکمل ہونے والا ہے۔ دھرنا مظاہرین کے مطالبات کی منظوری ابھی تک پائپ لائن میں ہے۔

رواں ہفتے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت ان مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کے لیے آئی اور اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا، اسی سلسلے میں ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک کے سربراہ اور جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان بلوچ اسلام آباد میں بلوچ خواتین کے احتجاجی کیمپ میں پہنچے جہاں بلوچوں کے لاپتا افراد کے لواحقین کے ساتھ دھرنے میں شریک ہوئے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور ’’حق دو گوادر کو‘‘ تحریک اور جماعت اسلامی کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ جماعت اسلامی کے ضلعی رہنما نصر اللہ رندھاوا اور دیگر رہنما بھی ہمراہ تھے۔ اس موقع پر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے پریس کانفرنس بھی کی اور حالات کا مکمل جائزہ پیش کیا، انہوں نے کہا کہ اگر خیراتی حکومت لاپتا افراد کی مظلوم بہنوں، بیٹیوں، بزرگوں، بچوں کی دادرسی نہیں کرسکتی تو کم ازکم ان کے زخموں پر نمک پاشی تو نہ کرے۔ ہم بلوچ جمہوری لوگ ہیں، دھرنے والے بھائی، بہنوں نے کوئی قانون ہاتھ میں نہیں لیا، پُرامن احتجاج کررہے ہیں، مگر آئے روز خیراتی وزرا اپنے بیانات کے ذریعے لاپتا افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں، انتظامیہ الگ ظلم کررہی ہے، کبھی ان پر تشدد کیا جاتا ہے، کبھی ان کا لائوڈ اسپیکر چوری کرتے ہیں،کبھی راشن نہیں پہنچنے دیتے، کبھی گھیراؤ اور تنگ کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کی دادرسی کی جائے، بات سنی جائے، ان کو اذیت دیتے ہیں۔ ان کے پیارے واپس کیوں نہیں کرتے؟ میں گوادر مکران بلوچستان کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے یہاں آیا ہوں۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو بتانے آیا ہوں کہ احتجاجی کیمپ میں موجود یہ مائیں، بہنیں تنہا نہیں ہیں، پورا بلوچستان ان کے ساتھ ہے۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں۔ اس طرح ریاست مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتی ہے۔ محبت نہیں، دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ اپنے حق کے حصول کے لیے یہاں آئی ہیں، دوماہ کے وفاقی و صوبائی خیراتی وزرا توہین آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ’’حق دو گوادر تحریک‘‘ کے سربراہ نے کہا کہ اگر کسی نوجوان نے کوئی جرم کیا ہے تو قانون کا راستہ اختیار کریں، اسے عدالت میں پیش کریں، ایف آئی آر درج کرلیں، لاپتاتو نہ کریں۔ عدالت جو سزا دے ان کو قبول ہوگی، مگر ماورائے عدالت لوگوں کو قتل کرنا، غائب کرنا کس آئین و قانون میں ہے؟ سالہا سال گزر جاتے ہیں، لوگ اپنے پیاروں کی راہ تکتے ہیں۔ والدین کو پتا نہیںہے کہ ان کے لاپتا بیٹے کا جرم کیا ہے۔ نہ انسانیت، نہ قانون، نہ عالمی ضابطے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اسلام آباد کی سرزمین پر بیٹھ کر بلوچستان کا مقدمہ پیش کررہا ہوں ۔ جبری گمشدگیوں سے ملک مستحکم نہیں ہوتا۔ تم ملک کو روزانہ کمزور سے کمزور تر کررہے ہو۔ نفرت کے بیج بورہے ہو۔ پیارے واپس کردو۔ بچے بازیاب کردو۔ لاٹھی اور طاقت کی زبان استعمال نہ کرو، محبت بانٹو۔ اسی لیے اسلام آباد آیا ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں حق دوگوادر تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ان حکومتی شخصیات کی کوئی حیثیت نہیں، ان سے جو کہا جاتا ہے وہ بول دیتے ہیں، ان کو ادراک نہیں کہ تین ماہ کی وزارتوں کے بعد انہیں بلوچستان کی سرزمین میں ہی رہنا ہے، یہ تین ماہ کی خیراتی وزارت میں اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں، نہ بات کرنے کی تمیز ہے نہ زبان کی تمیز ہے، نہ سلیقے کی بات کرسکتے ہیں۔ غم زدہ خاندانوں کے آنسو پونچھنے کے بجائے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں، وفاقی وصوبائی حکومتوں میں جعلی لوگ بیٹھے ہیں، بلوچستان میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ اپنی غیرت وعزت کی خاطرہماری تحریک جاری ہے۔ اسلام آباد کے حکمران بلوچستان کے وسائل کو مالِ غنیمت کے طور پر لوٹ رہے ہیں۔ مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ بلوچستان میں بھی ظالم سردار، چودھری، وڈیرے رہتے ہیں، جو خود عیاشی کررہے ہیں۔ یہ لندن، دبئی، عمان میں موجود ہیں، اسلام آباد کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر یہ ظالم سردار بھی بلوچستان کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ ان کے خلاف بھی ہم اپنے عوام کو منظم وبیدار کررہے ہیں۔