انتخابات: غیر یقینی حالات اور سیاسی آنکھ مچولی کا کھیل

انتخابات 2024ء کا جائزہ لیا جائے یا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی نوعیت کی چند خبروں کے ساتھ معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم سب مجموعی طور پر یہ سمجھ سکیں کہ انتخابات کا ڈراما یا تماشا کن چیزوں کو بنیاد بناکر سجایا جارہا ہے۔ اگرچہ ملک کی سیاسی اور انتخابی تاریخ یہی رہی ہے کہ پہلے سے انتخابات کے نتائج ترتیب دے کر انتخابی میدان سجایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انتخابات کے نام پر بننے والی حکومت عوام کے ووٹوں کے بجائے کسی اور کی حمایت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے سیاسی، جمہوری اور انتخابی کھیل کی کوئی ساکھ ملکی یا غیر ملکی سطح پر قائم نہیں ہوسکی۔ لیکن مجال ہے کہ ہمیں اس پر کوئی پریشانی لاحق ہو اور ہم یہ سوچ بچار کریں کہ کیسے اپنے انتخابی نظام کی ساکھ کو قائم کریں تاکہ ہمارا جمہوری نظام ترقی کی بنیاد پر آگے بڑھ سکے۔

نوازشریف اور جہانگیر ترین سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کے لیے اہل ہوگئے ہیں اور ان کی تاحیات نااہلی ختم کردی گئی ہے۔ اور یہ فیصلہ کرتے وقت آئین و قانون سے زیادہ سیاسی مصلحت کو بالادستی حاصل تھی۔ نوازشریف جب نااہل ہوئے اور ان کو جبری بنیادوں پر سیاست سے بے دخل کیا گیا تھا اُس وقت بھی یہ معاملہ قانون سے زیادہ سیاسی تھا۔ اب بھی جب نوازشریف کے سر سے تاحیات نااہلی کی تلوار ہٹائی گئی ہے تو یہ قانون سے زیادہ طاقتور اداروں کی سیاسی مصلحتوں کی فتح ہے۔ اس فیصلے کی حمایت ہونی چاہیے کیونکہ تاحیات نااہلی کسی بھی طور پر درست نہیں، لیکن جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ سیاسی تھی۔ جس لندن پلان کا ذکر عمران خان کرتے ہیں یہ اسی کی ایک جھلک ہے۔ جب نوازشریف لندن سے ایک خاص ڈیل کے تحت پاکستان تشریف لائے اُسی وقت ہوگیا تھاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سے سودے بازی کے بعدواپس آئے ہیں، اور ان کی راہ میں جو بھی سیاسی، انتظامی اور قانونی رکاوٹیں ہیں ان کو ختم کرنا ’’ڈیل‘‘ کا حصہ ہے۔ اب لوگوں نے دیکھ لیا کہ جتنی بھی رکاوٹیں تھیں ان کا خاتمہ کردیا گیا ہے، اور نوازشریف کے لیے اب ایک ہی شرط ہے کہ وہ انتخاب جیت کر ایوانِ وزیراعظم کی طرف حلفِ وفاداری کے تحت بڑھیں۔ ماضی میں ہماری عدالتیں نوازشریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت میں کھڑی تھیں، اور آج عمران خان کی مخالفت اور نوازشریف کی حمایت میں کھڑی ہیں۔ یہی وہ ستّر سے زیادہ برسوں کا کھیل ہے جو پاکستان کی سیاست میں کھیلا جارہا ہے۔ 2018ء میں نوازشریف نااہل تھے اور عمران خان اہل تھے، اور اب نوازشریف اہل ہیں اور عمران خان نااہل۔ کہانی وہی ہے بس کردار اس کہانی میں بدل گئے ہیں، اور اب عمران خان کے ساتھ وہی کچھ کیا جارہا ہے جس کا سامنا ماضی میں نوازشریف کو کرنا پڑا تھا۔

ابہام پیدا کرنے کے لیے دوسری بڑی خبر سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کی قرارداد کی منظوری تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کے کھیل کا اصل کردار چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی تھے۔ وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خاص بندے سمجھے جاتے ہیں، اور ان کی مرضی کے بغیر سینیٹ سے اِس قرارداد کی منظوری ناممکن تھی۔ سینیٹ سے پاس ہونے والی اس قرارداد کو کسی سیاسی تنہائی میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اگرچہ بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نمایاں ہیں، اس قرارداد کی منظوری کی مخالفت میں پیش پیش ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ جو بھی کھیل کھیلا جارہا ہے اس میں ان بڑی جماعتوں کی کسی نہ کسی سطح پر رضامندی شامل ہے۔ اس قرارداد کی منظوری کا ایک پس منظر بھی ہے۔ یہ بات پہلے بھی لکھی تھی کہ لاہور میں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات میں اسی نکتے پر زور دیا گیا تھا کہ موجودہ حالات میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات ان جماعتوں کے حق میں نہیں ہیں، اور اگر ہمیں انتخابات کے التوا کا راستہ اختیار کرنا پڑے تو وہ غلط نہیں ہوگا۔ اسی طرح آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کا انٹرویو موجود ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر انتخابات کچھ دن کے لیے ملتوی کردیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔ مولانا فضل الرحمٰن کی کھل کر پریس کانفرنس اور دو صوبوں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے حالات کے پیش نظر انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ، اور اب سینیٹ کی قرارداد اپنے مؤقف کی حمایت میں پیش کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے، اور اس ایجنڈے میں ان کو کسی نہ کسی سطح پر نوازشریف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسی طرح علمائے کرام اور کاروباری طبقات کی جانب سے آرمی چیف سے مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے معیشت کو درست کیا جائے اور انتخابات کا انعقاد کچھ عرصے کے لیے ملتوی کردیا جائے۔

پی ٹی آئی کا بنیادی مطالبہ انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا ہے جو اُن کے بقول اُن کو نہیں مل رہی، اور ابھی تک اُن کے انتخابی نشان بلے کا بھی معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، دیکھنا ہوگا کہ ان کو بلے کا نشان ملتا ہے یا ان کی جماعت کو عملی بنیادوں پر انتخابی عمل سے بطور پارٹی باہر نکال دیا جاتا ہے۔ اگرچہ نگران حکومت، الیکشن کمیشن، پی ٹی آئی مخالف جماعتوں اور عمران خان مخالف میڈیا کے بقول ملک میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ان کے بقول یہ سارا کھیل پی ٹی آئی کا اپنا پیدا کردہ ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا ہے کہ پی ٹی آئی کے 76 فیصد لوگوں کے کاغذات قبول ہوگئے ہیں اور پی ٹی آئی جھوٹ کے سہارے پر کھڑی ہے۔ لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا معاملہ سپریم کورٹ میں موجود ہے اور ہمارے چیف جسٹس کو بھی سب اچھا ہی لگ رہا ہے۔ حالانکہ اِس بار انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ ماضی سے بہت آگے کا ہے، اور ڈیجیٹل میڈیا میں وہ تمام جھلکیاں موجود ہیں جن میں پی ٹی آئی کے لوگ کئی طرح کی مشکلات میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بقول جو76فیصد کاغذات منظور ہوئے ہیں ان میں بیشتر افراد دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت ہے۔ جس بڑے پیمانے پر آر اوز نے کاغذات مسترد کیے اس پر الیکشن ٹریبونل میں موجود ججوںنے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا اور پی ٹی آئی کے خاصے لوگوں کو ریلیف ملا ہے اور ان کو انتخاب لڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے سابق سربراہ عمران خان جو جیل میں ہیں اُن کا لکھا ہوا ایک مضمون عالمی شہرت یافتہ جریدے ’دی اکنامسٹ‘ میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے انتخابات کی شفافیت اور پی ٹی آئی پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھاکر تمام حلقوں کو ان واقعات کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس مضمون نے خاصی شہرت حاصل کی ہے اور عالمی اور ملکی سطح پر بھی اس کا چرچا ہے۔ عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مضمون ان ہی کا ہے اور اس کے لیے انہوں نے ڈکٹیشن کا سہار ا لیا، اوراب ان کے بقول آنے والے چند دنوں میں ان کی ویڈیو بھی آنے والی ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا زمانہ ہے اوراس میں بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوازشریف کی نااہلی کے خاتمے کے بعد ملک میں برطانیہ اور امریکہ کے سفیر بہت سرگرم ہوگئے ہیں اور اُن کے بقول انتخابات میں سب کو حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے، کسی کو بھی میدان سے باہر نہ رکھا جائے۔ عمران خان کے اس مضمون کو بنیاد بناکر اُن کے مخالفین ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد بدلے کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور وہ ہر طاقتور کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں اور ان سے اقتدار میں آنے کے بعد بدلہ لینے کا پیغام بھی دے رہے ہیں۔

یہ تاریخ کے پہلے انتخابات ہیں جو نہ صرف ابہام میں ہورہے ہیں بلکہ ان کے حوالے سے انتخابی مہم میں کوئی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کا اعلان تو کردیا گیا ہے مگر انتخابی مہم نہ ہونے کی وجہ سے ابہام بڑھ رہا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت انتخابات کے بارے میں آخری حد تک ابہام، یا غیر یقینی صورتِ حال برقرار رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈت انتخابات کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔اس حکمت ِعملی کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو مؤثر انتخابی مہم چلانے کا موقع نہ مل سکے۔ کیونکہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو وہ اسی ابہام اور کم انتخابی مہم میں ہی ہوں گے، تاکہ ووٹ ڈالنے کی شرح کو کم سے کم رکھا جاسکے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ انتخابات میں ٹر ن آئوٹ 40 فیصد سے زیاد ہ نہ ہو اور نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے سے گریز کریں۔ اس عمل کو یقینی بنانے کے لیے نوجوانوں میں خوف کی فضا قائم کی جائے تاکہ وہ ووٹ ڈالنے سے گریز کریں۔ حال ہی میں پیمرا نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر انتخابی سروے کے نتائج جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کردی ہے، کیونکہ تمام سروے کے نتائج ایک ہی جماعت پی ٹی آئی جسے سیاسی عتاب کا سامنا ہے، کے حق میں آرہے تھے جو کسی کو قبول نہ تھے۔

ایک دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ جن حالات میں ہم انتخابات کا راستہ اختیار کررہے ہیں ان حالات میں انتخابات کے نتیجے میں کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہوگی اور حالات انتخابات کے بعد اورزیادہ خراب ہوں گے۔اسی کو بنیاد بنا کر یہ بات کی جارہی ہے کہ موجودہ حالات میں انتخابات کی طرف جانے کے بجائے پہلے سب کے لیے سازگار حالات پیدا ہوں اورپھر انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے وگرنہ پہلے سے جو سیاسی تقسیم ہے وہ مزید گہری ہوگی۔ سینیٹرمشاہد حسین سید کے بقول اس وقت کوشش کی جارہی ہے کہ ایلیٹ اور اسٹریٹ میں موجود خلیج کو کم کیا جائے اوراس کے لیے مدر آف ڈیل کی طرف بڑھا جارہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عوام اور فوج کے درمیان جو خلیج بڑھ رہی ہے اس کو کم کیا جائے اور مفاہمت کی طرف بڑھا جائے۔ اسی طرح برادر سہیل وڑائچ کے بقول دو منصوبے زیر غور ہیں۔ اول، سول اورملٹری کی بنیاد پر ہم آہنگی کے ساتھ دس برس کا حکومتی منصوبہ، اور دوسر،ا اسٹیبلشمنٹ خود ہی معیشت کو بنیاد بنا کر کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ جو لوگ انتخابات کے بارے میں یقین نہیں رکھتے ان کے بقول اگر انتخابات منعقد نہیں ہوتے تو نیا نگران سیٹ اپ بھی آسکتا ہے اورموجودہ نگران وزیر اعظم اورکچھ اور لوگوں کی قربانی دے کر نئے لوگوںکے ساتھ نیا نظام لایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا بھی نام لیا جارہا ہے کہ وہ اسلام آباد کے لیے اہم ہوسکتے ہیں۔لیکن سہیل وڑائچ کا یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اگر مصالحت کی سیاست کی طرف بڑھنا ہے تو اس میں پی ٹی آئی کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی حکمت عملی کارگر نہیں ہوگی۔

یہ سارا منظر نامہ جو پیش کیاگیا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ ہم سیاسی استحکام کی طرف نہیں بلکہ مزید عدم استحکا م کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں سیاسی، معاشی اور سیکورٹی سمیت حکمرانی کے مسائل ہو ں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم آنکھ مچولی کے کھیل سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں اوراپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنا نظام لانا چاہتے ہیں جس کا کنٹرول بھی ہمارے ہی پاس ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس قیمت پر کیاجارہا ہے اور کیوں ہم اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں؟ ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ پاکستان ان حالات میں اس طرح کے کھیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہمیں سیاسی استحکام کی طرف بڑھنا ہے تو اس کی کنجی سیاسی اور معاشی استحکام ہے۔ اس کے لیے اس وقت ایک ہی راستہ ہے کہ ہم انتخابات کو اس حد تک قابلِ قبول بنادیں کہ اس انتخابی نظام کی ساکھ قائم ہوسکے،تاکہ ہم ان انتخابات کو بنیاد بنا کر ایسی حکومت تشکیل دے سکیں جو ملک کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کرسکے۔