عام انتخابات سے متعلق بے یقینی کیوں؟

عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اور الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق ملک میں عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے مگر ابھی تک انتخابی گہماگہمی دکھائی دیتی ہے نہ اس کا ماحول ابھی تک بن سکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سابق وفاقی وزیر خورشید شاہ نے اسلام آباد میں احتساب عدالت کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران نواز لیگ کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس لیے باہر نہیں نکل رہی کہ شاید اُسے کہا گیا ہے کہ انتخابات نہیں ہوں گے، لیکن اگر انتخابات نہ ہوئے تو دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہوگی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی ثمر باغ دیر پائین کے اپنے انتخابی حلقے میں انتخابی دفتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ جن جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں وہ ملک میں جمہوری استحکام نہیں چاہتیں، بعض جماعتیں انتخابات ملتوی کرنے کی خواہش رکھتی ہیں، یہ حسبِ سابق انتخابی نتائج کے حوالے سے بھی ’این آر او‘ کے انتظار میں ہیں۔ جہاں تک سراج الحق صاحب کے بیان کا تعلق ہے، دیگر جماعتیں بھی شاید ڈھکے چھپے انتخابات کے التوا اور ’این آر او‘ کے لیے کوشاں ہوں، مگر پی ڈی ایم اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن تو مختلف جواز فراہم کرکے کھلے بندوں انتخابات کے التوا کی تحریک چلا رہے ہیں۔

8 فروری کو انتخابات کا اعلان عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن نے صدرِ مملکت سے مشاورت کے بعد کیا تھا۔ عدالتِ عظمیٰ ہی کی مداخلت پر کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان بھی کردیا۔ 8 فروری کو عام انتخابات سے متعلق اپنے حکم میں عدالتِ عظمیٰ نے یہ تاکید بھی کی کہ ذرائع ابلاغ اور دیگر ادارے اس قسم کا کوئی تبصرہ یا رائے زنی نہیں کریں گے جس سے 8 فروری کو انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات جنم لے سکیں۔ مگر اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ اس ضمن میں سب سے پہلے ایک ایسے ادارے کے سربراہ کی جانب سے خدشات کو تقویت دی گئی جسے ملک کا سب سے منظم ادارہ قرار دیا جاتا ہے اور جس سے دیگر اداروں خصوصاً عدالتِ عظمیٰ کی ہدایات کی عزت و توقیر کا خیال رکھنے کی سب سے زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے گزشتہ ماہ امریکہ کا دورہ کیا، اس دوران انہوں نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں پاکستانی نژاد امریکی برادری کی تقریب میں بھی شرکت کی جس میں سوال و جواب کی نشست میں پہلی بار آٹھ فروری کے انتخابات کے التوا کا اشارہ دیا گیا، پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ لاجسٹکس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کچھ دن کے لیے آگے پیچھے ہوسکتے ہیں، تاہم رکیں گے نہیں بلکہ ہر صورت مارچ میں ایوانِ بالا سینیٹ کے انتخابات سے قبل ہوجائیں گے۔ آٹھ فروری کے انتخابات کے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دیتے پاک فوج کے سربراہ کے اس بیان کے بعد گزشتہ جمعہ کے روز مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا میں منظور کی گئی ایک قرارداد نے ان شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔ 5 جنوری کو ایوانِ بالا کا اجلاس معمول کی کارروائی کے بعد ملتوی ہوگیا تو نماز جمعہ کے بعد سو کے ایوان میں سے صرف 14 ارکان کی موجودگی میں کارروائی شروع کردی گئی اور کورم پورا نہ ہونے کے باوجود سینیٹر دلاور خان کی ایوان میں پیش کردہ ایک قرارداد صرف 11 ارکان کی حمایت سے منظور کرواکر انتخابات سے فرار کی راہ سُجھائی گئی۔ آٹھ فروری کے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی اس کوشش کے بارے میں سینیٹ سیکرٹریٹ نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی شام قرارداد کی منظوری کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا اور قرارداد کی نقول صدر مملکت، نگران وزیراعظم، الیکشن کمیشن، وزارتِ قانون و انصاف اور دیگر متعلقہ محکموں کو بھی ارسال کردی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے جمعہ کے روز تو اس قرارداد کو بے معنی قرار دے کر مسترد کردیا اور آٹھ فروری کو ہر صورت عام انتخابات کے عزم کا اعادہ کیا، مگر اس سے اگلے ہی روز اس قرارداد کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن کا اجلاس بلا لیا گیا۔ ایوانِ بالا کے چیئرمین اور قرارداد کو منظور کرنے والے چند ارکان نے یہ کارروائی کن حلقوں کے اشارے پر کی، اس بارے میں وضاحت کی ضرورت نہیں۔ تاہم اس قرارداد کی پراسرار حالات میں منظوری نے ان خدشات کو تقویت ضرور بخشی کہ اشرافیہ میں کسی نہ کسی سطح پر انتخابی عمل کو ملتوی کرنے کی کھچڑی پکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسی روز یہ قرارداد پیش کی کہ ملک میں آئین و دستور کے تابع 8 فروری کے عام انتخابات بروقت منعقد کرواکر عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور 5 جنوری کی غیر جمہوری اور غیر دستوری قرارداد کو کالعدم تصور کیا جائے۔ مگر ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود سینیٹر مشتاق احمد خان کی قرارداد کو ایوان میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی زیربحث لایا گیا ہے۔ یہ طرزعمل بھی اربابِ اختیار کی نیتوں کے فتور کا پتا دیتا ہے۔

آئین اسمبلی توڑے جانے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی پابندی عائد کرتا ہے مگر پنجاب اور صوبہ خیبر میں ایک سال سے، جب کہ وفاق اور سندھ و بلوچستان میں چھ چھ ماہ سے نگران حکومتیں غیر آئینی طور پر ایوانِ اقتدار میں براجمان ہیں۔ یہ نگران حکومتیں خصوصاً پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ ہر روز نت نئے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح اور تیز رفتاری سے ان پر عمل درآمد میں مصروف ہیں مگر انتخابات کے لیے غیر جانب دارانہ اور آزادانہ ماحول فراہم کرنے کی اصل ذمہ داری پر ان نگران حکمرانوں کی قطعی کوئی توجہ نہیں۔

اسی طرح اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت انتخابات میں یکساں میدانِ عمل، انتخابی نشان، مختلف امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے اور دیگر امور سے متعلق کیسوں میں تاخیر و التوا بھی انتخابات کے متعلق عدالتِ عظمیٰ کے حکم پر عمل درآمد اور 8 فروری کو انعقاد سے متعلق غیر یقینی کی کیفیت اور شکوک و شبہات کو تقویت فراہم کررہے ہیں جو کسی طرح بھی ملک کے جمہوری مستقبل، معاشی استحکام اور سیاسی بقا و سلامتی کے مفاد میں نہیں۔
(حامد ریاض ڈوگر)