کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن

خوشی کی بات ہے کہ برقی ذرائع ابلاغ کے کچھ لوگوں کا احساس جاگ اُٹھا ہے۔ اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں کچھ صاحبِ احساس بھی پائے جاتے ہیں۔ اُردو کی جن شیریں اور شائستہ اصطلاحات کو انگریزی کی گٹ پٹ اصطلاحات نے بے دخل کردیا تھا، بالخصوص خبروں سے… اب دھیرے دھیرے اُن کی واپسی ہونے لگی ہے۔ بعضے بعضے نشریاتی اداروں سے اب وزارتِ عظمیٰ، عدالتِ عالیہ اور افواجِ پاکستان جیسے الفاظ سنائی دینے لگے ہیں۔ تازہ خبر، مختصر خبریں اور خاص خاص خبریں جیسے الفاظ بھی انگریزی اصطلاحات کی جگہ لے رہے ہیں۔ بعض کالم نگار بھی فون کرکے انگریزی تراکیب کی متبادل اردو اصطلاحات اور تراکیب دریافت کرنے لگے ہیں۔ خالص اردو تراکیب استعمال کرنے سے ان کی تحریروں میں بھی شیرینی و شائستگی پیدا ہونے لگی ہے۔ رکاوٹوں کی جگہ روانی آگئی ہے۔ صحافت میں کچھ شائستگی آئے تو شاید سیاست میں بھی انگریزی اصطلاحات کی مارا ماری سے بچاؤ کی کوئی بہتر صورت نکل آئے۔ مثلاً ‘Level Playing Field’ کی جگہ اگر ’یکساں مواقع‘ کی مختصر سی ترکیب استعمال کی جانے لگے تو کیا عجب کہ جن لوگوں کو ‘Level Playing Field’نہیں مل رہی ہے، اُن کو یکساں مواقع مل جائیں۔ خیر، صحافت کے خوش رفتاری کی طرف مائل ہونے سے یہ امید ہوچلی ہے کہ یک دم تو نہیں، مگر رفتہ رفتہ قومی زبان اور قومی تشخص بحال ہوتا چلا جائے گا۔ آخر ہماری تمام اقدار بھی تو یوں ہی یعنی رفتہ رفتہ ہی غصب ہوئی تھیں۔ بقول مولانا اسمٰعیل میرٹھی مرحوم:

گیا ایک ہی بار سورج نہ ڈوب
مگر رفتہ رفتہ ہوا ہے غروب

پس ہماری اصطلاحات اور ہمارے الفاظ بھی یکبارگی نہیں، رفتہ رفتہ ہی طلوع ہوں گے۔ اچھی بات ہے کہ لوگ اردو لکھنے لگے ہیں۔ ان شاء اللہ اردو الفاظ کا درست استعمال بھی جلد ہی سیکھ لیں گے۔ ہم اپنی جامعہ میں اپنے شعبۂ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ اُردو میں روزنامچہ لکھا کیجیے۔ روزانہ کا مشاہدہ، آج کے دن ذہن میں در آنے والا کوئی نیا خیال یا کسی متاثر کُن شخصیت سے آج ہوجانے والی ملاقات پر اپنے تاثرات۔ سال بھر بعد آپ یہ روزنامچہ پڑھیں گے تو گردشِ ایام پلٹ آئے گی۔ تب آپ کو اپنی تحریر کی خامیاں بھی نظر آنے لگیں گی اور خوبیاں بھی۔ کیوں کہ سال بھر میں آپ کی تحریر میں اچھا خاصا ارتقا ہوچکا ہوگا۔ لہٰذا آج ہی سے:

کاغذ پر اُلجھاتے رہیے حرفوں کی زنجیر
آتے آتے آ جائے گا لکھنے کا انداز

لکھنے والے اور بولنے والے آج کل ذرائع ابلاغ پر غماز اور غمازی کا لفظ جگہ جگہ استعمال کررہے ہیں، مگر بالکل بے جگہ۔ایک ممتاز ماہر تعلیم نے فرمایا:

’’مسلمانوں کی پوری تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ جب تک انھوں نے علم سے رشتہ برقرار رکھا دنیا پرغالب رہے‘‘۔

حضرت! ’غماز‘ تو چغل خور کو کہتے ہیں اورمسلمانوں کی تاریخ کا چغلی کھانا کوئی قابلِ فخر بات نہیں۔ یہاں ’غماز‘ کی جگہ ’شاہد‘ یا ’گواہ‘ کا لفظ استعمال کرلیتے تونہایت مناسب ہوتا۔یوں بھی عربی زبان میں ’غامزہ، مغامزہ‘ کا مطلب ایک دوسرے کو طعنے مارنا، ایک دوسرے کو حقیر ثابت کرنا، بدگوئی کرنا یا ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنا ہے۔ ’غماز‘ یعنی چغل خور بھی عیب ہی بیان کرتا ہے۔ ’غماز‘ کا ایک مطلب آنکھ سے اشارہ کرنے والا بھی ہے۔ آنکھ سے اشارہ کرنا بھی گویا آنکھ سے چغلی کرنے ہی کے مترادف ہے۔ ’غماز‘ یا ’غمازی‘ کا لفظ ہمیشہ منفی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً: ’’اُس کی بوکھلاہٹ اُس کے دروغ کی غمازی کررہی تھی‘‘۔ یا ’’اس کی کینہ توز مسکراہٹ اُس کی باطنی خباثت کی غماز تھی‘‘۔ امتِ مسلمہ کے زوال کے زمانوںکی نقشہ کشی کرتے ہوئے،چمن کا بھید چمن سے باہر پہنچا دینے پراقبالؔ نے اپنی معرکہ آرا مسدس ’’شکوہ‘‘ میں پھولوں کو بھی چغل خور قرار دے ڈالا تھا:

بوئے گُل لے گئی بیرونِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمازِ چمن

پھرپھولوںہی پر نہیں، اقبالؔ نے تو فرشتوں پر بھی چغل خوری کا الزام عائد کردیا تھا۔ فرشتوں کی چغلی کھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

کی حق سے فرشتوں نے اقبالؔ کی غمازی
گستاخ ہے، کرتا ہے فطرت کی حنا بندی

قصہ مختصر یہ کہ کسی کی خامیوں، عیوب اور برائیوں کو ظاہر کرنا ’غمازی‘ ہے۔اور کسی کی خوبیوں، اچھی صفات اور نیکیوں کا اظہار کیا جائے تو شاید شہادت یا گواہی کہلائے۔ مزید یہ کہ اگر آپ ہماری خوبیاں اور نیکیاں کسی سے بیان فرمائیں گے تو اِسے آپ کا ’حسنِ ظن‘ کہا جائے گا، مگر مولانا حالیؔ نے ہمیں آپ سے ایسا مطالبہ کرنے اور مقبولیت کی ایسی خواہش رکھنے سے منع فرما دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

کرو نہ مقبولیت کی پروا، جو چاہو مقبولِ عام ہونا
رہو گے گر حسنِ ظن کے طالب، تو تم سے یاں بدظنی رہے گی

بد ظنی ہی غمازی پر اُکساتی ہے۔غماز کی اصل ’غمزہ‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے چشم و ابرو سے اشارہ کرنا۔مجازاً معشوقانہ ناز، نخروں اور اداؤں کے لیے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ادائیں بھی تو ایک طرح کا اشارہ ہی ہوتی ہیں، خواہ یہ اشارہ چشم و ابرو سے کیا جائے یا دست وانگشت سے۔ اگر آپ ہم سے پوچھ ہی بیٹھیں کہ ’’ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟‘‘ تو ہم عرض کریں گے صاحبو! سب ایک ہی چیز ہیں۔ غالبؔ نے بھی اشارت و ادا کو ساتھ ہی باندھا ہے۔ محبو ب کی بلاؤں سے بلبلا کر کہتے ہیں:

بلائے جاں ہے غالبؔ اُس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا

حکیم مومن خان مومنؔ کاشعر ہے:

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

اس شعر میں وہ محبوب کی تربیت کر رہے ہیں۔ اُسے دیکھنا سکھا رہے ہیں کہ مجھے کچھ ایسی ادا سے دیکھنا جس میں تحقیر ہو، تشنیع ہو، عیب جوئی ہو اورطعنہ زنی ہو۔یہ ’غمزہ‘ صرف محبوباؤں اور لیلاؤں تک محدود نہیں۔ لیلیٰ کے اونٹ کو بھی یہ ادائیں آتی ہیں۔ ذوقؔ کہتے ہیں:

عزیزو! ناقۂ لیلیٰ کے دیکھو گے شتر غمزے
اگر مجنوں کو مل جائے گی خدمت ساربانی کی

سو،کبھی کبھی اونٹ بھی موج مستی میں آکر اٹھلانے اور نخرے دکھانے لگتا ہے۔ آخر اسے بھی ناز نخرے دکھانے کا پورا پورا حق ہے۔ مگر نہ جانے کیوں اس کا یہ حق اہلِ لغت پر گراں گزرا۔ چناں چہ بے جا ناز نخرے دکھانے اور عیاری و مکاری کا مظاہرہ کرنے کو ’شتر غمزہ‘ کہاجانے لگا۔ نتیجہ یہ کہ ہماری دنیائے ادب، دنیائے صحافت اور بالخصوص دنیائے سیاست میں شتربھی بڑھے، شتر غمزہ بھی اور شترکینہ بھی۔