زندگی ہو یا سفر… سکون اور ٹھیرائو کا نام نہیں، بلکہ یہ چلنے پھرنے، بھاگنے دوڑنے اور کچھ گزرنے سے عبارت ہے۔ سفر زندگی کو خوب صورت اور روشن بناتا اور انگیخت کرتا ہے۔ انسانی زندگی بھی ایک سفر کی طرح ہے۔ انسان دنیا میں آتا ہے اور پھر واپسی کے لیے رختِ سفر باندھ لیتا ہے، بقول شاعر
لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
نہ اپنی خوشی آئے نہ اپنی خوشی چلے
سفر اور مسافرت میں بھی انسان کے جذبات و احساسات ہی ہوتے ہیں البتہ مقصدِ سفر انسان کو ہم دوشِ ثریا کرتا ہے۔ سفرنامہ نگار اپنے مقصدِ سفر کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے یا پھر اپنے قارئین کو۔
’’ہنگامِ سفر‘‘ سید عامر محمود کا 22 شہروں پر مبنی مربوط سفرنامہ ہے جو خوب صورت پیراہن لیے ہوئے نمودار ہوا ہے۔ سید عامر محمود سفر کے رسیا ہیں اور گہرے مشاہدے اور مطالعے کے حامل۔ ان کے پائوں میں چکر ہے جو انہیں متحرک اور فعال رکھتا ہے۔ وہ کوئی مستقل سفرنامہ نگار ہیں اور نہ مستقل ادیب، لیکن ان کا اسلوب دلچسپی لیے ہوئے ہے جو توجہ کھینچتا ہے۔ نیکی اور بھلائی کے کام سے وابستہ سید عامر محمود ہر لمحہ نیکیاں اور بھلائیاں سمیٹتے ہیں۔ وہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ساتھ بطور چیف ایگزیکٹو ڈائریکٹر وابستہ ہیں اور پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز تمغہ امتیاز کے حامل، جو محروم طبقات کے لیے ان کی معیاری تعلیمی خدمات کے اعتراف میں ان کو دیا گیا۔
سید عامر محمود نے اپنے مطالعے اور مشاہدے کے ساتھ ہنگامِ سفر کو پہلے فیس بک کی زینت بنایا۔ مختصر مختصر مگر دلچسپ اور فیس بک کی ضرورت کے پیش نظر ایسی تحریریں جن کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ اس میں ان کے اسلوب، الفاظ کے چنائو اور مشاہدے کا گہرا دخل رہا جس نے ان کے سفرنامے کو ایک نیا آہنگ اور جوبن بخشا اور قاری کو اپنے سحر میں لے لیا، البتہ کہیں بھی ان کا موضوع سے فوکس اِدھراُدھر نہیں ہوپایا۔ انہوں نے جتنا لکھا خوب لکھاہے اور پڑھنے کے لائق لکھا۔
ہنگام سفر میں بخارا، سمرقند، استنبول، ایتھنز، وینس، روم، فلورنس، اشبیلیہ، قرطبہ، پراگ، ایمسٹرڈیم، پیرس، سینٹ اینڈریوز، فورٹ ولیم، اوسلو، ٹورنٹو سے آئس لینڈ تک شہروں کا ذکر ہوا۔ یہ چند شہر دنیا کے ایسے شہر ہیں جو تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان شہروں کی خوب صورتی، ان کے ساتھ وابستہ تاریخی اشخاص اور عمارتوں کا تذکرہ ہر کہیں موجود اور ہر کسی کے لیے اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔
سفرنامہ نگار اپنے موضوع سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتے، ایک ماہر لکھنے والے کی طرح انہوں نے ان موضوعات کو نبھایا۔ جن شہروں پر لکھا راستے میں آنے والے دوسرے مقامات اور پڑائو کے بارے میں معلومات، ان کے تہذیب و تمدن، کلچر، رہن سہن، بودوباش اور طرز تعمیر کا تعارف ڈوب کر کرایا۔ ہنگام سفر میں موجود بے ساختہ پن، مشاہدے کی گہرائی، منظرکشی اور مظرنگاری جس میں جذبات تک کا خاص اہتمام ہے، پڑھنے والے کی توجہ بھٹکنے نہیں دیتے۔ اگر مسافر کا جذبۂ سفر قائم ہو، دل کی لگن اور عزم جواں ہو تو ہنگام سفر جیسے کتنے ہی سفرنامے معرضِ وجود میں آنے کے منتظر اور بے قرار ہیں۔ ابھی کتنی ہی منزلیں اور پڑائو سید عامر محمود کے منتظر ہیں۔ انہوں نے ہنگامِ سفر کی تختی سجاکر ایک نئی طرز ایجاد کی اور سفرنامے کی نئی طرح ڈالی ہے۔
ہنگام سفر سید عامر محمود کا پہلا سفرنامہ ضرور ہے مگر اس میں وہ لوازمات کماحقہٗ موجود ہیں جو کسی بھی سفرنامے کو اعتبار بخشتے ہیں، اور امید کی جانی چاہیے کہ وہ اپنے اسفار میں پہلے کی طرح دوسروں کو شرکت کا موقع دیتے رہیں گے اور پڑھنے والے کو ہر سال ایک نیا سفرنامہ پڑھنے کو ملتا رہے گا۔