خودنوشت سوانح حیات اردو ادب کی ایک نثری صنف ہے۔ یہ مصنف کی اپنی زندگی کی داستان ہے جسے وہ خود تحریر کرتا ہے۔ اپنی زندگی کے حالات، واقعات، سماجی، سیاسی و معاشرتی پس منظر کی عکاسی ہمیں اکثر سوانح عمری میں نظر آتی ہے۔ مصنف خود ہی مجرم، گواہ اور جج ہوتا ہے۔ سوانح حیات کا یہی حسن ہے کہ وہ قاری کو شروع سے اخر تک جوڑے رکھتی ہے۔ زیرنظر داستانِ حیات معروف مصنف، اسکالر اور تحریکِ اسلامی کے سینئر داعی رضی الدین سید کی داستانِ حیات ”گزر گئی زندگی اپنی“ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو چار برس کی بیتی نہیں، بلکہ پون صدی کا قصہ ہے۔ اس قصے میں ابتدائے پاکستان کی وہ داستان رقم ہے جس کی عمر پچھتر سال ہے، اور خوش قسمتی سے مصنف کی عمر بھی پاکستان کے لگ بھگ ہے۔ رضی الدین سید کے والدین 1947ء میں جب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تو ان کی عمر چھے ماہ تھی۔ آپ کے والدین کا تعلق الٰہ آباد سے تھا۔ الٰہ آباد سے ٹنڈو آدم تک کے سفر کی روداد جو رضی الدین سید نے اپنے والدین سے سنی، پھر آپ کا بچپن، لڑکپن ٹنڈوآدم میں گزرا اس کا خوب ہی نقشہ کھینچا ہے۔ کتاب کی مرتبہ مہوش خولہ نے ”اپنے احساسات“ کے عنوان سے لکھا ہے کہ سوانح حیات اپنے اندر ایک تاریخ، ایک جغرافیہ، ایک ناول، ایک گفتگو، حالاتِ حاضرہ، شخصیت، عہدہ، تعارف اور سبق سب کچھ سموئے ہوئے ہوتی ہے“۔ مصنف نے ٹنڈوآدم سے کراچی منتقلی کی روداد کو بھی بہت خوبصورتی سے تحریر کیا ہے۔ رضی الدین سید کا رجحان بچپن ہی سے دین داری کی طرف تھا۔ دین سے وابستگی انہیں اپنے والدین اور خاندان سے ملی جسے بعد میں تحریکِ اسلامی یا جماعت اسلامی نے تقویت دی جس کا احوال مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ کراچی میں لسانیت کی جڑیں کب، کیسے اور کیونکر بڑھیں، اس کی سیاسی وجوہات پر بھی مصنف کی گہری نظر ہے۔ مصنف کے ادبی سفر کا آغاز بھی بچپن سے ہی ہوا۔ بچوں کے رسالے ”تعلیم و تربیت“اور ”بچوں کی دنیا“ پڑھ کر بڑے ہونے والے رضی الدین سید آج تین درجن سے بھی زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہیں اردو اور انگریزی کے ساتھ فارسی و عربی زبانوں سے بھی محبت ہے۔ رضی الدین سید کی یہ سوانح حیات معلومات، احساسات، خیالات اور ملک کے سیاسی، سماجی حالات کا آئینہ ہے۔ یہ کتابیں مختلف موضوعات پر ہیں لیکن رضی الدین سید نے یہودیت کو اپنا خاص موضوع بنایا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین جاری جنگ کے بارے میں ان کی ایک دو نہیں کئی کتابیں ہیں جو بڑی تحقیق کے بعد لکھی گئیں۔ المختصر رضی الدین سید نے اپنی سوانح عمری کو کتابی شکل دے کر نئی نسل اور نوجوانوں کو پڑھنے، سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھایا ہے۔