حضرت ابوطالب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین چچا تھے، جنھوں نے حضرت عبدالمطلب (آپؐ کے دادا)کے انتقال کے بعد آپؐ کی پرورش اور دیکھ بھال کی، اپنی حقیقی اولاد سے زیادہ آپؐ سے محبت کی، اعلانِ نبوت کے بعد اشاعتِ اسلام کی کوششوں میں آپؐ کا ساتھ دیا اور مشرکینِ مکہ کو صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک دَم میں دَم ہے، بھتیجے کی حمایت اور حفاظت کرتا رہوں گا۔
جنابِ ابوطالب اپنے بھتیجے کی ذاتِ بابرکات کی برکتوں سے بھی خوب واقف تھے۔ ایک موقع پر جب مکہ مکرمہ میں قحط پڑا اور لوگوں نے جناب ِ ابوطالب سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے رحمتِ عالم ﷺ کو ساتھ لیا اور دیوارِ کعبہ کے ساتھ جاکھڑے ہوئے۔ چچا نے دعاکی، بھتیجے نے آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر کچھ اشارہ کیا، اسی وقت ہر طرف سے بادل امنڈ آئے اور ارضِ مکہ کو سیراب کرگئے۔
ابوطالب نے اپنے اس شعر میں اسی جانب اشارہ کیا ہے:
وَأَبْیَضَ یُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْہِہِ
ثِمَالُ الْیَتَامَی عِصْمَۃٌ لِلأَرَامِلِ
(وہ سفید رنگ والا، جس کے چہرے کے صدقے بارش برس جاتی ہے، یتیموں کا ملجاو ماویٰ اور بیوائوں کا محافظ ہے)
رسول اللہ ﷺ بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ جس سال(10 نبوی میں) آپ کا اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا، اس سال کو آپ نے ’’عام الحزن‘‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔
البتہ حضرت ابوطالب ایمان لے آئے تھے یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، کیوں کہ احادیثِ مبارکہ میں دونوں طرح کی روایات، حضرت ابوطالب کے ایمان لانے سے متعلق بھی اور ایمان نہ لانے سے متعلق بھی موجود ہیں۔ علمائے کرام نے اس مسئلے پر مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں۔ جو علماء آپ کے ایمان کے قائل ہیں، ان میں علامہ سید محمد بن رسول برزنجی کی کتاب ’’بغیۃ الطالب‘‘، قاضی احمد زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ کی تصنیف’’اسنی المطالب فی ایمانِ ابی طالب‘‘، قاضی محمد برخودار ملتانی کی ’’القول الجلی فی نجاۃ عم النبی وابی العلی‘‘ اور علامہ صائم چشتی کی کتاب ’’عیون المطالب فی ایمانِ ابی طالب‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ جب کہ جو علماء ایمانِ ابوطالب کے قائل نہیں ہیں ان میں مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تصنیف ’’شرح المطالب فی مبحث ابی طالب‘‘ (جس پر پیشِ نظر کتاب میں تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے) قابلِ ذکر ہے۔
پیشِ نظر کتاب ’’حضرت ابو طالب… ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ کی علمی و تحقیقی کاوش ہے۔ ایمانِ ابوطالب سے متعلق ان کا نقطۂ نظر بالکل واضح اور دوٹوک ہے جس کا اظہاردرجِ ذیل الفاظ میں انھوں نے کتاب کے بالکل آغاز ہی میں کردیا ہے کہ:
’’حضرت سیدنا ابوطالب پہلے ثنا خوانِ مصطفیﷺاور اوّلین مومنوں میں سے ہیں۔ میری رائے میں حضرت سیدنا ابوطالب کے ایمان کو زیرِ بحث نہیں لایا جاسکتا بلکہ بحث اُس شخص کے ایمان پر ہونی چاہیے جو حضرت سیدنا ابوطالب کو مومن نہیں مانتا۔‘‘
اس کے بعد اس موضوع پر تبصرے کی کوئی گنجائش تو باقی نہیں رہ جاتی، البتہ کتاب کے مندرجات کا مختصر تعارف پیش کیا جاسکتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب درجِ ذیل 6 ابواب پر مشتمل ہے:
1۔ اسلام میں نسب کی اہمیت اور محبتِ اہلِ بیتِ رسولﷺ، 2۔ عدم ایمان کی روایات کا تجزیہ، 3۔ ایمانِ ابوطالب: قرآن و حدیث کی روشنی میں، 4۔ حضرت سیدنا ابوطالب: اکابرینِ امت کی نظر میں، 5۔ ایمانِ ابوطالب: کردار، اشعار، خطبات اور خدمات کی روشنی میں، 6۔ حاصلِ بحث
علاوہ ازیں ابتدا میں حضرت ابوطالب کا حمدیہ کلام (جس میں خدائے وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت پر ایمان اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرارموجود ہے) شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھی کتبِ تاریخ میں کئی اشعار اور خطبات منقول ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ابوطالب کے دل میں تصدیق بالنبوۃ موجود تھی اور انھوں نے زبان سے بھی اقرار کیا ہے۔
فاضل مصنف نے اپنے نقطہ نظر کے اثبات میں قرآن و حدیث سے مضبوط دلائل پیش کیے ہیں اور عدم ایمان کی روایات پر علمی و تحقیقی نقد کیا ہے۔
بہر صورت اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ حضرت ابوطالب کو رسول اللہﷺ سے بے مثال محبت تھی۔ دوسرے یہ کہ حضرت ابوطالب نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، اورنہ ہی دیگر اخلاقی و سماجی برائیوں میں مبتلا ہوئے۔ لہٰذا جو حضرات ایمانِ ابوطالب کے قائل نہیں ہیں، انھیں بھی چاہیے کہ وہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ان کے لیے کوئی ناشائستہ بات نہ کریں۔ اکثرمفسرین اور سیرت نگارانِ مصطفی ﷺ نے اس بات کا خیال رکھا ہے اور پیغمبر اسلام کے لیے حضرت ابوطالب کی خدمات اور قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اسی بات کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
’’حضرت ابوطالب کے ایمان کا مسئلہ اختلافی مسئلہ ہے، اور جو لوگ آپ کے ایمان کے قائل نہیں انھیں بھی یہ مناسب نہیں کہ اپنی زبان پر کوئی ناروا جملہ لے کر آئیں، کیونکہ اس سے حضرت علیؓ کی اولاد کو اذیت پہنچتی ہے اور بعید نہیں کہ حضور سرورِ دوعالم ﷺ کا دلِ مبارک بھی رنجیدہ ہوتا ہو۔ ہر عقل مند آدمی جانتا ہے کہ ایسے نازک مقامات پر احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ (روح المعانی، تفسیر سورۃ القصص:55)
کتاب لائقِ مطالعہ ہے اور اپنے موضوع پر کفایت کرتی ہے۔