مفتی طاہرالمکی: قرآنی انقلاب کے سب سے بڑے داعی

مفتی طاہر المکی قرآنی علوم کا انسائیکلو پیڈیا، علوم حدیث و فقہ کا سرچشمہ، عربی، فارسی اور اردو کے استاد الاساتذہ اور مخلص عالم دین تھے۔

علامہ طاہرالمکی کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے نہ صرف قرآن کی تعلیمات کو عام کیا بلکہ اس کی تفسیر اور تعلیم میں نئے دریچے کھولے۔ مفتی طاہرالمکی کے نزدیک فرقہ پرستی سے نجات حاصل کرنے کا واحد حل قرآنِ عظیم کی طرف رجوع ہے۔ تمام اختلافات قرآن کی روشنی میں بہت آسانی سے حل ہوسکتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن مجید ایک انقلابی کتاب ہے جس پر عمل کرکے صحابہ کرام نے انقلاب برپا کردیا تھا، رومن اور ایرانی سلطنتوں کی غلامی سے نجات مل گئی تھی۔ قرآن پاک کا یہ معجزہ کسی دور یا کسی شخصیت تک محدود نہیں ہے۔

آپ کے کارناموں میں سب سے نمایاں ادارۂ فکر اسلامی کا قیام تھا، جس کا مقصد تمام اسلامی علوم کو حسبِ استطاعت قرآن کریم کی روشنی میں دیکھنے کی علمی و تحقیقی جستجو کرنا تھا۔

اس ادارے کے تحت شائع ہونے والی کتابوں میں سے ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ کتاب ”فقہ القرآن“ بھی ہے جو کہ دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب زندگی کے متفرق مسائل کو قرآن کریم کی روشنی میں سمجھنے کے لیے ایک شاندار انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتی ہے۔

اس کتاب کی یہ دس جلدیں مختلف عنوانات سے معنون ہیں، جن میں عبادات، خاندانی معاملات، حقوقِ نسواں، حدود و تعزیرات رجم، وصیت و وراثت، عدلیہ اور اجماع، اور سیرتِ طیبہ کے ازدواجی معاملات شامل ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں ممتاز شخصیات اپنے شاندار تأثرات کا اظہار کرچکی ہیں جن میں نمایاں مولانا سعید احمد اکبر آبادی (سابق صدر شعبہ دینیات علی گڑھ یونیورسٹی و رکن مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند)، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا (مصنف فضائل اعمال)، مولانا محمد طاسین (ماہر اسلامی معاشیات و مہتمم مجلس علمی)، جسٹس قدیرالدین احمد (چیف جسٹس مغربی پاکستان و سابق گورنر سندھ)، جسٹس آفتاب حسین (سابق چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت)، جسٹس عبدالقدیر چودھری (سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ)، خالد اسحٰق ایڈووکیٹ (ماہر دستور و قانون) شامل ہیں۔

آپ کا دوسرا تجدیدی کارنامہ دارالمؤطا کا قیام تھا۔ اس ادارے کا مقصد اسلام کے مشہور ترین ائمہ اربعہ میں سے ایک، مدینہ کے امام مالک کی حدیث کی کتاب ”موطا“ جو حدیث کی پہلی مستند شہرت یافتہ کتاب ہے، کو عوام میں روشناس کرانا تھا۔ جمہور علما نے موطا کو طبقات کتبِ حدیث میں طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے اور چاروں ائمہ اربعہ اس کی عظمت و اہمیت پر متفق ہیں۔ امام شافعی کا اس کے متعلق یہ تبصرہ تاریخ حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں: زمین پر موطا امام مالک سے زیادہ کوئی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطا کے بارے میں لکھتے ہیں: حدیث میں موطا امام مالک سے زیادہ کوئی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے۔ اس کتاب کے نام سے منسوب اس ادارے کا نام دارالموطا ہے۔

شیخ القرآن والسنّہ حضرت علامہ مفتی طاہرالمکی خالد اسحٰق ایڈووکیٹ کے مشیر اسلامیات رہے اور شاہ بلیغ الدین کی سیرت فائونڈیشن کے نائب صدر اور ادارہ قرآنی مرکز کے صدر ہے۔کراچی سے لے کر تھاکوٹ تک متعدد قرآنی مراکز آپ کی زیر سرپرستی لوگوں کو قرآن کے نور سے منور کررہے ہیں۔آپ کے مختلف لیکچرز ARY Digital پر پیامِ رمضان کے ذریعے مقبولِ عام ہوچکے۔معروف علمی جریدہ ”ماہنامہ ساحل“ میں عالمِ اسلام کے اہم ترین علماء سے کیے گئے سوالات میں اہلِ علم کی طرف سے سب سے زیادہ پسندیدگی سے آپ کے جوابات کو دیکھا گیا جس کا اظہار سابق وفاقی وزیر مذہبی امور و ڈائریکٹر الدعوہ اکیڈمی محمود غازی صاحب کی طرف سے بھی اپنی تحریر میں کیا گیا۔

اسی عوامی دلچسپی کے پیش نظر ہفت روزہ اخبار جہاں میں آپ کا انٹرویو شائع ہوچکاہے۔

آپ کے قائم کردہ اداروں میں سے ایک الرحمان پبلشنگ ٹرسٹ ہے۔ اس ادارے کا مقصد امت کی علمی و فکری رہنمائی ہے،جس کے تحت یہ ادارہ علمی و فکری موضوعات پر تحقیقی مواد شائع کرتا رہتا ہے۔مفتی صاحب کے زیر سرپرستی اداروں نے قرآن و حدیث وسیرت پر چالیس سے زیادہ کتابیں شائع کی ہیں۔

علامہ طاہر مکی کا دعویٰ تھا کہ دنیا کی طاقتور قوم یا سلطنت بھی غداروں کی وجہ سے تباہ ہو سکتی ہے۔ جب تک اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں سے نجات نہ حاصل ہو جائے اُس وقت تک کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ میر جعفر اور میر صادق پر اعتماد کرنے والے شکست کھا گئے۔

مفتی طاہر مکی مذہبی انتہا پسندی اور روایت پرستی کے خلاف تھے۔ وہ مسلمانوں کے درمیان اتحادِ بین المسلمین کے بہت بڑے داعی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان فروعی اختلافات میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اعتدال اور درگزر کا راستہ اختیار کریں۔ وہ اکثر فرمایا کر تے تھے کہ وحدتِ امت کا نکتہ آغاز و انتہا صحابہ ہیں۔ انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملی طور پر کام کیا جس میں تجدیدی نوعیت کے دو کام سر فہرست ہیں۔

پہلا”عشرہ فاروقؓ و حسینؓ“۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یکم محرم کو شہید ہونے والی عظیم ہستی فاروق اعظمؓ اور دس محرم کو شہید ہونے والے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دن مناکر عملی طور پر اتحاد بین المسلمین کا ثبوت دیا جائے۔

دوسرا ”حضرت حسنؓ اور کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہؓ کا معاہدہ صلح“۔ ‎یہ مبارک معاہدہ 21 ربیع الاول 41ھ میں ہوا جس کے بعد پورا عالم اسلام متحد ہوگیا۔ اسے آج تک عام الجماعہ (اتحاد کا سال) کہا جاتا ہے۔ ‎ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کوششوں کو کامیابی عطا فرمائے۔ آمین