ان قوموں کی داستانِ عبرت ناک ہے جنہوں نے خیر کے عوض شر مول لیا
’’ہم نے اس سے پہلے موسیٰؑ کو کتاب دی تھی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا تھا اس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل نہ بنانا، تم ان لوگوں کی اولاد ہو جنہیں ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا اور نوحؑ ایک شکر گزار بندہ تھا۔ پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم بپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔‘‘ (بنی اسرائیل)
یہودیوں کا کہنا تھا کہ وہ اللہ کی منتخب کردہ اور برگزیدہ امت ہیں، ان کے پاس اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے، وہ ہدایت اور حق ہے جو ابراہیمؑ سے موسیٰؑ تک اللہ کے فرستادہ سچے رسولوں کے ذریعے پہنچتا رہا ہے۔ وہ اللہ پر، اللہ کی کتاب پر، اللہ کے رسولوں پر، اللہ کے فرشتوں پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے پاس ایک باضابطہ شریعت تھی، اللہ کا نازل کردہ امر اور قانون تھا۔ وہ اپنے عالموں، فقیہوں اور ولیوں پر فخر کرتے تھے۔ یہ سب کچھ تھا مگر صدیوں سے ان کا یہ حال تھاکہ ہر طاقتور جو اطرافِ عالم سے اٹھتا اُن کو پیوندِ خاک بناتا ہوا گزر جاتا تھا۔ ان کے مقدس شہر اُن لوگوں کے قبضے میں تھے جن کو وہ کافر سمجھتے تھے۔ وہ غیروں کی غلامی کا بوجھ کاندھوں پر اٹھائے ذلت و خواری کی زندگی بسر کررہے تھے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟
اگر ان کے پاس کلمۂ حق تھا، اگر وہ اللہ کی نازل کردہ ہدایت سے سرفراز ہوئے تھے، اگر وہ اللہ کے محبوب و برگزیدہ بندے تھے تو ان کو غالب ہی رہنا چاہیے تھا۔ حق کی قوت اور اللہ کی پشت پناہی کے ہوتے ہوئے ان کا مغلوب ہوجانا حیرت انگیز تھا۔ ان کے زوال کا اصل سبب بس یہی تھا کہ انہوں نے کتاب رکھتے ہوئے کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ ہدایت کے ہوتے ہوئے گمراہی و ضلالت کی راہوں پر چلتے رہے تھے۔ اللہ کے منتخب و برگزیدہ ہوتے ہوئے غیر اللہ سے رشتے جوڑ رکھے تھے۔ اللہ کو ایک مانتے تھے مگر خود کو خلقِ خدا کا مالک و مختار بنائے ہوئے تھے۔ دوسروں کے حقوق غصب کرتے اوراپنے ذخیرے بھرتے رہتے تھے۔
اللہ نے ان کو زمین پر جو قوت و اقتدار بخشا تھا اس سے انہوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ ان کو یہ قوت اور یہ غلبہ اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے ملک میں اللہ کے قانون کو نافذ کریں، اللہ کی زمین پر اس کی مرضی کو غالب رکھیں، اپنے شہروں اور بستیوں میں نیکیوں کو رواج دیں، اپنے معاشرے کو فسق و فجور سے پاک رکھیں، لوگوں کے درمیان عدل و انصاف سے فیصلے کریں۔ مگر وہ نشۂ اقتدار میں سب کچھ بھول گئے، اپنے شہروں کو برائیوں سے بھر دیا، اپنے معاشرے کو بدکاریوں سے آلودہ کردیا، ظلم و ستم کو اپنا شعار بنا لیا، اللہ کے قانون کو معطل کرکے اپنی مرضی اور خواہش کو قانون اور ضابطہ بنادیا، اللہ کی کتاب میں تحریف کی، اس کے لفظوں کو بھی بدلا اور اس کے مطالب کو بھی مسخ کیا، جو بات ان کے حق میں جاتی تھی اس کی تلقین کی اور اس پر خود کو حامیِ دین بنا کر فخر و ناز کیا، مگر اللہ کے جو احکام ان کے آڑے آتے تھے انہیں یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ احکام ان کے زمانے کے لیے نہیں ہیں اور وہ ان کے مکلف اور پابند نہیں بنائے گئے ہیں۔
جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ اللہ احکم الحاکمین سے بغاوت کر بیٹھے اور اُن راہوں پر چل پڑے جو انحراف و ضلالت کی راہیں تھیں تو ان کے رب خداوند نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان پر ظالموں اور جابروں کو مسلط کردیا۔ مگر جب وہ بری طرح پامال کردیے گئے تو رحمتِ الٰہی نے ان کو موقع دیا کہ وہ سنبھلیں اور دوبارہ راہِ راست پر آجائیں۔ چنانچہ ان کو پھر ایک بار غلبہ و تسلط عطا کیا گیا۔ مگر جب وہ قوت و دولت پا چکے تو پھر حلقۂ اطاعت کو توڑ کر نافرمان و گناہ گار بن گئے، اور وہی کچھ کیا جو اس سے پہلے کرچکے تھے۔ جب ان کی بدکاریوں اور ان کے ظلم و ستم سے خلقِ خدا عاجز آگئی تو ان پر اللہ کا عذاب دوبارہ نازل ہوا اور وہ اپنی ہر بستی اور اپنے ہر شہر سے کھدیڑے گئے اور ہر زور آور نے ان کو رگیدا۔
آخرکار جب ان سے پہلی سرکشی کا موقع پیش آیا تو اے بنی اسرائیل ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔ یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہوکر ہی رہنا تھا۔ اس کے بعد ہم نے تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔
دیکھو تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔ (بنی اسرائیل)
پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے، اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔
ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھر اپنی سزا کا اعادہ کریں گے اور کافر نعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے، جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ شہادت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے، اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔
انسان خیر مانگنے کے بجائے شر مانگتا ہے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل)