مقبوضہ کشمیر: بھارت کا جبر وستم جاری ہے

’’الجزیرہ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ متنازع جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کی زیرحراست تین کشمیری شہریوں کے قتل نے لوگوں میں غم و غصہ پیدا کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے

مقبوضہ جموں وکشمیر میں ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے علاقے بفلیاز میں فوج کی گاڑیوں پر حملے میں افسران سمیت کئی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔ بھارتی فوجی حکام کی طرف سے 5فوجیوں کے ہلاک اور متعدد کے شدید زخمی ہونے کی سرکاری سطح پر تصدیق کی گئی۔ مارے جانے والے فوجیوں میں سے 3 فوجیوں کے سر کٹے ہوئے تھے، جن کی تلاش میں ہندوستانی فورسز کئی روز تک راجوری پونچھ کے گھنے جنگلات میں جدید جنگی ٹیکنالوجی، ڈرونز، ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتی رہیں مگر انہیں کامیابی نہیں ملی، جس کے بعد علاقے کے عام شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ علاقے کے لوگوں نے گرفتاری کے دوران وڈیو بھی بنائی جس میں فوجی ان افراد کو اپنی گاڑیوں میں بٹھا رہے ہیں۔ اس دوران تین افراد کو بدترین تشدد کرکے قتل کیا گیا، جبکہ پانچ افراد کو شدید زخمی حالت میں اسپتال لایا گیا۔ تین افراد پر بہیمانہ تشدد کی وڈیو بھی لیک ہوئی ہے جس کے بعد پورے کشمیر میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ انتظامیہ کی طرف سے پونچھ اور راجوری میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی۔ جموں سے سری نگر تک سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔ پونچھ راجوری میں جگہ جگہ فورسز کی طرف سے ناکہ بندیاں کرکے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جانے لگا۔ اس واقعے کے حوالے سے’’الجزیرہ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ متنازع جموں وکشمیر میں بھارتی فوجیوں کی زیرحراست تین کشمیری شہریوں کے قتل نے لوگوں میں غم و غصہ پیدا کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

الجزیرہ نے مقتولین کے اہلِ خانہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ بھارتی فوجیوں نے 22 سالہ محمد شوکت، 45 سالہ محفوظ حسین اور 32 سالہ شبیر احمد کو ضلع پونچھ کے گائوں ٹوپا پیر سے حراست میں لیا تھا اور بعد میں ان کی لاشیں حوالے کی گئیں۔ محفوظ حسین کے بھائی نور احمد نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’’میرے بھائی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے، یہ کیسا انصاف ہے؟ وہ شدید تشدد سے مر گیا‘‘۔

نور احمد نے کہا کہ ’’فوجی میرے بھائی محفوظ کو اس کی بیوی اور والدین کے سامنے لے گئے۔ حکومت نے ہمارے لیے نوکریوں اور معاوضے کا اعلان کیا ہے، میرے بھائی کے چار بچے ہیں، لیکن ہم انصاف چاہتے ہیں، ان بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے‘‘۔ نور احمد نے کہا کہ ’’میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا کہ ہم کتنا غم محسوس کرتے ہیں، دنیا کا کوئی پیسہ ہمارے غم کا مداوا نہیں کرسکتا، حکومت ہمیں سب کچھ دے گی لیکن ہمارے زخم نہیں بھریں گے۔‘‘

بھارتی فوجیوں کے تشدد سے زخمی ہونے والے ایک شخص کی بیٹی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت چاہتی ہے کہ ہم سمجھوتہ کریں، لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے، فوجیوں نے میرے ابا اور دیگر لوگوں کو بجلی کے جھٹکے دیے، ان کے زخموں پر مرچیں ڈالیں‘‘۔

الجزیرہ نے لکھا کہ انتظامیہ نے مظاہرے پھیلنے کے خوف سے انٹرنیٹ سروس منقطع کردی اور علاقے میں پابندیاں عائد کردیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ بھارتی فوج کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کررہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کشمیر کے بنیادی مسئلے کو حل کرنے پر زور دیتے ہوئے مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کے اس پروپیگنڈے کو مسترد کیاکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔ فاروق عبداللہ نے سری نگر میں ایک تقریب کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی زندہ ہے اور اسے فوج یا پولیس کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے کہا کہ حالات معمول کے مطابق ہونے کا پروپیگنڈا کرنے، یا سیاحوں کی آمد کا پرچار کرنے سے عسکریت پسندی ختم نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ 2019ء میں دفعہ 370 کی منسوخی سے عسکریت پسندی ختم ہوگئی ہے، لیکن چار سال بعد بھی یہ موجود ہے اور اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک ہم اس کی جڑ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ وہ ریٹائرڈ پولیس افسر کے قتل پر ردعمل کا اظہار کررہے تھے جسے ضلع بارہ مولہ کے علاقے گانٹہ مولہ میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ جو لوگ حالات معمول کے مطابق ہونے کا دعویٰ کررہے تھے وہ اب خاموش ہیں۔ انہوں نے بنیادی وجہ کو حل کرنے کے بجائے سطحی طریقے سے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کو جموں و کشمیر میں خونریزی کو ختم کرنے کے لیے صحیح تناظر میں راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ انہوں نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر وہ واقعی عسکریت پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے نارملسی کا دعویٰ کرنے یا سیاحت کے بارے میں بات کرنے کے بجائے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ فوج یا پولیس کے استعمال سے عسکریت پسندی ختم نہیں ہوگی۔ ہمیں گہرائی میں جانا ہوگا اور اسے ختم کرنے کے لیے بنیادی وجہ کو حل کرنا ہوگا۔ پونچھ اور راجوری میں حالیہ واقعات کے بارے میں پوچھے جانے پرفاروق عبداللہ نے کہا کہ یہ حکومت کے ’’سب اچھا ہے’’کے دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ فاروق عبداللہ نے بھارتی فوج کی حراست میں تین شہریوں کے قتل کی عدالتی تحقیقات اور بہیمانہ قتل میں ملوث افراد کو مثالی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کا قتل ایک افسوسناک واقعہ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

دوسری طرف پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی کو سری نگر میں اُن کے گھر میں نظربند کردیا گیا ہے تاکہ انہیں ضلع پونچھ کے علاقے سرنکوٹ میں بھارتی فوج کی حراست میں شہید ہونے والے تین شہریوں کے اہلِ خانہ سے ملنے سے روکا جاسکے۔

وہ اپنی نظربندی سے قبل کہہ چکی ہیں کہ زمینی حقائق نے مودی حکومت کے جموں و کشمیر میں امن کے دعوے سے ہوا نکال دی ہے۔ محبوبہ مفتی سرنکوٹ جانے والی تھیں۔