فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں! اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہوسکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کرکے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی رائے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیر ممکن بنادیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے رائے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کرکے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے، اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے ]برسوں[ میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کرکے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آئندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کردی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں ]سختیاں[ جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کررہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کررہے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
جب ایک معقول اور دل لگتی بات کو عمدہ اخلاق کے لوگ لے کر کھڑے ہوں، اور سخت سے سخت ظلم وستم سہنے کے باوجود اپنی بات ہر حالت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے چلے جائیں، تو لازمی طور پر اس کے تین نتائج رونما ہوتے ہیں:
ایک نتیجہ یہ کہ اس صورتِ حال میں بہت سے باہمت اور اُولوالعزم لوگ ہی اس دعوت کو علانیہ قبول کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایسا قیمتی سرمایہ ثابت ہوتے ہیں جو کسی دوسری صورت میں بہم نہیں پہنچ سکتا۔
دوسرا نتیجہ یہ کہ ظالموں کی پیدا کردہ اِس خوفناک فضا میں بکثرت، بلکہ بے اندازہ لوگ اس دعوت کو دل میں مان لیتے ہیں مگر آگے بڑھ کر اس میں شامل نہیں ہوتے۔ مخالف طاقت آخرکار اس کا خود نقصان اٹھاتی ہے۔ اسے قطعی اور حتمی شکست ہونے تک کبھی یہ پتا ہی نہیں چلنے پاتا کہ جس دعوت کو مٹا دینے کے لیے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اس کے حامی کہاں کہاں پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ اُس کی اپنی صفوں تک میں موجود ہوتے ہیں اور وہ اُن سے بے خبر رہتی ہے۔
تیسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی برتری اور دعوت کی معقولیت و صداقت اپنی فطری طاقت سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کے دشمن اُس کے پیروئوں پر جتنا زیادہ ظلم کرتے ہیں اُتنے ہی وہ ہر شریف النفس اور نیک طبع انسان کی نظر سے گرتے جاتے ہیں۔ اُس کے پیرو جتنی ہمت اور ثابت قدمی کے ساتھ ظلم برداشت کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنی حق پرستی سے بال برابر بھی نہیں ہٹتے، اُتنی ہی ان کی قدرومنزلت عام دیکھنے والوں ہی میں نہیں، بلکہ خود دشمنوں کی صفوں میں بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، اور پھر جب فیصلہ کن مقابلوں کا وقت آتا ہے تو قدم قدم پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں طرح طرح سے کام آتی ہیں جو دشمنوں کے جبر کی وجہ سے خاموش بیٹھے ہوئے تھے مگر دل سے اِس دعوت کے حامی تھے، یہاں تک کہ آخرکار چند مٹھی بھر ہٹ دھرم دشمن ہی میدان میں رہ جاتے ہیں جن کا ساتھ دینے والا تو درکنار ان کے پیچھے رونے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔
(’’تصریحات‘‘، ص 320-324)