سال 2023ء رخصت ہوا، اور 2024ء کا سورج طلوع ہوچکا۔ ایک اور سال گزر گیا، جو بہت سی اچھی اور بری یادیں بھی چھوڑ گیا۔ گزرے سال کا جائزہ لیا جائے تو بحیثیتِ مجموعی شاید زیادہ اچھی باتوں کا تذکرہ ممکن نہ ہوپائے۔ گزشتہ سال قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا رہا۔ سب سے بڑا المیہ اس سال اسرائیل کے غزہ پر حملے رہے۔ سال تو ختم ہوگیا لیکن اسرائیلی سفاکی اور جارحیت نہ جانے کب ختم ہوگی! فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، تین ماہ میں غزہ کھنڈر بن گیا، لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے، اسکول ڈھیر ہوگئے، یہاں تک کہ اسپتال بھی نہیں بچے۔ یہ سال فلسطینیوں، پوری مسلم اُمہ بلکہ پوری دنیا کے لیے غم کا سال رہا۔ سب افسردہ ہیں، بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، جنگ بندی کی کوئی صورت کارگر نہیں ہو رہی، اسرائیل ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے۔
پاکستان کے لیے 2023ء مجموعی طور پر غیر معمولی حد تک ’’مہنگا‘‘ سال رہا۔ مہنگائی 40 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ پاکستان میں روزمرہ استعمال کی اشیا اورپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا، جبکہ رہی سہی کسر بجلی اور گیس کے بلوں نے نکال دی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی جانب سے مالی سال 2022-23ء کی سالانہ رپورٹ جاری کردی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی دھچکوں کے سبب غیر معمولی معاشی چیلنجز کا سامنا رہا۔ رپورٹ کے مطابق اِس مالی سال میں معاشی ساختی کمزوریوں نے مہنگائی کو مسلسل بڑھایا، شرح سود بہت زیادہ رہی جبکہ قومی پیداوار کم ہوئی۔ پالیسی ریٹ بڑھا کر معاشی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا، روپے پر دبائو کم کرنے کے لیے مقامی طلب اور درآمدات میں کمی کی گئی، اِسی کوشش سے بیرونی قرض کی ادائیگیاں کی گئیں۔ نگران حکومت کی طرف سے سخت معاشی فیصلوں پر عمل درآمد جاری رہا، جبکہ ڈالر کی اسمگلنگ پر کریک ڈائون کے باعث روپے کی گرتی قدر کو سنبھالا گیا، پیٹرول کی اسمگلنگ کو رو کنے کی کوشش کی گئی۔ مشکل ترین معاشی حالات کے باوجود معاشی نظم میں بہتری کی بدولت گزشتہ سال کے آخر تک کچھ معاشی اشاریے مثبت ہونا شروع ہوچکے تھے۔ قوم نئے سال میں معاشی، سیاسی، سماجی اور دیگر حوالوں سے کن امکانات اور خدشات کے ساتھ قدم رکھ رہی ہے، عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کی رپورٹ اس حوالے سے آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل کام نہیں کررہا، وہ اپنے ہم عصر ممالک سے معاشی لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے، غربت میں کمی کے حوالے سے ہونے والی نمایاں پیش رفت اب واپسی کا سفر طے کرتی نظر آرہی ہے اور ترقی کے ثمرات سے صرف ایک محدودطبقہ ہی محظوظ ہو رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سرکردہ تنظیم یو این ڈی پی کی تازہ ترین رپورٹ میں شائع ہونے والے پالیسی ویژن آرٹیکل میں عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے لکھا کہ پاکستان میں اِس بات پر وسیع اتفاقِ رائے موجود ہے کہ ایسی تمام پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے ترقی کی رفتار متاثر ہوئی،جن کا فائدہ مخصوص افراد کو ہوا، لیکن اِن پالیسیوں کے باعث معیشت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ آئے۔ اُن کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہے، ماحولیاتی تبدیلی کے دھچکوں اور قدرتی آفات کے ممکنہ تباہ کن اثرات پہلے ہی ظاہر ہوچکے ہیں۔ عالمی بینک کے عہدیدار نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ زرعی خوراک اور توانائی کے اہم شعبے میں پالیسی کی ناکامیوں اور بگاڑ کو دور کیا جانا چاہیے، زراعت میں سبسڈی اور قیمتوں کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے چھوٹے کسان کوکم قیمت والے کاشت کاری کے نظام نے جکڑ رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماحول کو نقصان پہنچانے والے پیداواری طریقوں سے بھی نجات حاصل کرنی چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات سے معاشی استحکام کی جانب مستحکم پیش رفت ممکن ہے، تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نجی شراکت داری میں اضافہ اور قابل ِ تجدید پیداوار کے ذریعے بجلی کے اخراجات کا مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔یہ یقینا آج کا ایک اہم سوال ہے۔ حقائق کا درست اِدراک اور اس کے مطابق اقدامات ہی حالات میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں، جبکہ ہوش مندی کا راستہ اختیار نہ کرنے کی صورت میں مسائل کی دلدل کا مزید گہرا ہوجانا لازمی ہے۔
انتخابات جمہوریت کا لازمی حصہ ہیں، لیکن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات مرکزی عامل ہے جو کسی ملک کو جمہوری بناتا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کہتی ہے کہ ’’جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی حکومتیں اپنے اقتدار کو حاصل آئینی حدود کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں سے محروم کررہی ہیں، مغرب میں جہاں سے جمہوری ریاستیں ارتقا پذیر ہوئیں، جمہوریت سے مراد لبرل جمہوریت ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں نہ صرف آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں بلکہ قانون کی حکمرانی، اختیارات کی علیحدگی اور بنیادی انسانی اور سیاسی آزادیوں کا بھی تحفظ کیا جاتا ہے‘‘۔ آنے والے انتخابات کے حوالے سے اہلِ پاکستان کو یہ معروضات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جمہوری عمل کے لیے درکار انتخابات کا کوئی بہت اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتا۔ 1947ء میں اپنے قیام کے 23 سال بعد تک ملک میں کوئی عام انتخابات نہ ہوئے۔ جب 1970ء میں فوجی حکومت کے دور میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو ان کے نتائج کی کوکھ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جنم لیا۔ پاکستان میں 1977ء میں انتخابات ہوئے، لیکن دھاندلی کی وجہ سے نتائج پر تنازع کھڑا ہوگیا اور ملک مارشل لا کی گرفت میں پھر آگیا۔ اس کے بعد مارشل لا کے تحت 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ ضیاالحق 1988ء میں طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوگئے تو ملک میں ایک بار پھر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ 1990ء میں دوبارہ انتخابات کی سیج سجائی گئی، لیکن وہ بھی غیر متنازع نہیں تھے۔ 1993ء اور 1997ء کے انتخابی نتائج بھی ہارنے والوں نے مسترد کردیے۔ 2002ء میں انتخابات ہوئے، اس کے بعد 2008ء، 2013ء اور 2018ء کے انتخابات کے نتائج بھی تنازعات سے پاک نہیں تھے۔ پاکستان کے ناہموار جمہوری ریکارڈ کا ایک طائرانہ جائزہ بتاتا ہے کہ اگرچہ ہر سیاسی جماعت اور سیاست دان آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتاہے، لیکن شاید ہی کوئی طے شدہ اصولوں کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہو۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ناگزیر ہیں، اور عام طور پر وہ اس سوال کو حل کردیتے ہیں کہ ملک پر حکومت کسے کرنی ہے؟ پارلیمنٹ کی مدت کے دوران اس سوال کا جواب مل چکا ہوتا ہے، لیکن اگر انتخابی نتائج کو مسلسل متنازع بنایا جاتا رہے، اور منتخب اراکین، پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے پس پردہ سازباز میں مصروف رہیں تو جمہوریت فروغ نہیں پا سکتی، اس کے لیے موجودہ حالات کے پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ملک کے موجودہ معاشی و سیاسی بحران کا اصل سبب 2013ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی آئینی حکومت کے خلاف بعض ریاستی اداروں سے وابستہ مقتدر شخصیات کی اپنے مخصوص ایجنڈے کی خاطر شروع کی گئی مہم جوئی تھی جو قومی معیشت کو پٹری سے اتارنے کا سبب بنی۔ اس کے بعد ریاستی اداروں کی بھرپور حمایت سے قائم ہونے والی حکومت کے دور میں معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا گیا اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب جاپہنچا۔ اس دور کے خاتمے کے بعد اتحادی حکومت قائم ہوئی جس نے آئی ایم ایف کی نہایت سخت شرائط قبول کرکے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے تو بچالیا لیکن معاشی بحران کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ ایک تازہ ترین جائزے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان نے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا ایک نیا مختصر مدتی اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا، لیکن یہ بندوبست مہنگائی کا طوفان لے آیا، مالیاتی پالیسیوں کو سخت کیا گیا تو شرح نمو منفی ہوگئی اور ملک میں مہنگائی کی شرح 43فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور ملک کو ایک ایسے شیطانی چکر میں ڈال دیا گیا ہے ۔ مالیاتی وسائل میں اضافے کی ضرورتیں مہنگائی کو بڑھا رہی ہیں ، جبکہ قرض کی ادائیگی اخراجات کی سب سے بڑی مد بن گئی ہے، اور اس شیطانی چکر سے نکلنے کا حل کوئی ریاستی ادارہ ، ماہرین معیشت ا ور سیاسی جماعتیں پیش کرنے میں ناکام ہیں۔