انتخابات کا نام نہاد ڈراما نتائج انتخاب سے پہلے ہی متنازع

8فروری 2024ء کا انتخابی دربار سجانے کا معاملہ سیاسی حلقوں میں زیربحث ہے۔ ایک عمومی رائے یہ بن رہی ہے کہ جو کچھ ان انتخابات کو بنیاد بناکر کیا جارہا ہے وہ کوئی نیا عمل نہیں۔ اس طبقے کے بقول یہی ہماری سیاسی اورانتخابی تاریخ ہے، اور اسی طرح انتخابات میں ماضی میں بھی سیاسی انجینئرنگ کی جاتی رہی ہے۔ اس کھیل میں بنیادی سوچ یہی ہے کہ ہمیں مصنوعی طرز کاایک جمہوری نظام چاہیے جو کنٹرولڈ بھی ہو اور بڑی طاقتوں کے زیر اثر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انتخابات کی شفافیت کا معاملہ ہمیشہ سے کمزور رہا ہے اورکوئی بھی انتخاب ایسا نہیں جسے تمام حلقوں میں شفاف مانا گیا ہو۔ لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ جو کچھ اگلے انتخابات کی صورت میں ہورہا ہے وہ کچھ کم نہیں، بلکہ اس میں ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ شدت کے پہلو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ انتخاب عملی طور پر ملک میں انتخابی عمل سے پہلے ہی متنازع ہوگیا ہے۔ اب اس انتخاب کے نتائج کچھ بھی ہوں اورکوئی بھی جیتے یا حکومت بنائے، اس میں دو مسائل سرفہرست رہیں گے۔ اول: انتخابات کے نتائج کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا، اور دوئم: انتخابات کے بعد کا منظرنامہ بھی قومی سطح پر نئے بحرانوں کو جنم دینے کا سبب بنے گا۔ اگرچہ بظاہر 8 فروری کو انتخابات ہونے ہیں، لیکن ایک بار پھر ملک میں انتخابات کے نہ ہونے پر قومی سطح پر نئی مہم چل رہی ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم انتخابات کی طرف نہیں بلکہ انہیں ملتوی کرنے کے کھیل کا حصہ بننے جارہے ہیں۔

پچھلے چند دنوں میں کاغذاتِ نامزدگی، انتخابی امیدواروں اور تجویز کنندگان اور تائید کنندگان سمیت اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ جو سلوک دیکھنے کو ملا اُس سے واقعی اندازہ ہوا کہ ہم کس بدترین کھیل کا حصہ بننے جارہے ہیں۔ اب ایک نیا سیاسی ڈراما یہ ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی کے 90 فیصد بڑے انتخابی امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی جانچ پڑتال کے نام پر مسترد کردیے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بطور جماعت انتخابی عمل میں حصہ لینے سے روکا جارہا ہے، اور جو بھی انتخابات میں پی ٹی آئی کے نام سے حصہ لینا چاہتا ہے اُسے ریاستی و حکومتی سطح پر سخت ترین حالات کا سامنا ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کو متنازع بنایا گیا اور پی ٹی آئی سے اُس کا انتخابی نشان واپس لیاگیا تو ایسے لگا کہ ایک کھیل کے تحت پی ٹی آئی کو بطور جماعت انتخابات میں حصہ نہیں لینے دینا، مگر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی کو عارضی طور پر انتخابی نشان بلے کی واپسی سے کچھ امید پیدا ہوئی کہ وہ بطور جماعت انتخابات میں حصہ لے سکے گی۔ اگرچہ بلے کے نشان کو عدالت میں چیلنج کیاگیا ہے اور یہ فیصلہ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ میں بھی جانا ہے، مگر اب جب پی ٹی آئی کے 90فیصد امیدواروں کو نااہل کردیا گیا ہے تو ایسے میں انتخابات کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے! اگرچہ جن کے کاغذات مسترد ہوئے ہیں وہ عدالتوں میں جارہے ہیں، اور دیکھنا ہوگا کہ وہاں ان کو کس حد تک ریلیف ملتا ہے، مگر ایک بات طے ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے راستے بند ہیں اور اسے انتخابات سے پہلے ہی یا تو باہر نکال دیا گیا ہے یا اسے کھیلنے کی اجازت نہیں مل سکے گی۔ 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر نکالا جارہا ہے اور جو لوگ 9مئی کے عمل میں شریک ہیں قانونی کارروائی اُن تک محدود نہیں،بلکہ یہ عمل پوری جماعت کے خلاف اور جماعت میں موجود افراد کے خاندانوں تک ہورہا ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی کو جوائن کریں۔ جبر کی بنیاد پر جو پریس کانفرنسیں ہوئی ہیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔اسِ بار پی ٹی آئی کی حکمت ِعملی یہ تھی کہ اگر اس کے افراد کو براہِ راست انتخاب لڑنے کی کسی بھی سطح پر اجازت نہ ملی تو ان کے گھر کے افراد ان ہی نشستوں پر انتخاب لڑیں گے۔لیکن ہم نے دیکھ لیا کہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت کو ہی نہیں بلکہ ان کے گھر کے افراد کو بھی حصہ لینے کی اجازت نہیںمل رہی۔

اب ان معاملات کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دنوںمیں سپریم کورٹ کیاکرتی ہے، اورکیا اُس کے فیصلوں سے انتخابی عمل کی ساکھ قائم ہوسکے گی یا عدالتیں بھی سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوں گی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو کسی ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ماضی میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے ساتھ یہ کھیل کھیلا گیا، اوراب پی ٹی آئی کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اورا س میں کچھ زیادہ مصالحہ لگادیا گیا ہے۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی ایک جماعت کو دیوار سے لگایا جاتا ہے توباقی جماعتیں یا تو خوش ہوتی ہیں یا اس پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب بھی کسی جماعت یا سیاسی نظام کے خلاف کوئی قدم اٹھایا جائے، یا کسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی بنائی جائے تو مجموعی طور پر تمام جماعتیں اس پر مضبوط بنیادوں پر آواز اٹھائیں، کیونکہ یہ عمل سیاست، جمہوریت اورآئین کی حکمرانی کے خلاف ہوتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں جب یہ سب کچھ مسلم لیگ (ن) کے خلاف ہورہا تھا تو پی ٹی آئی حالتِ جشن میں تھی، اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر مسلم لیگ (ن) کی خوشی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگر یہی روایت رہی تو مستقبل میں بھی ایک جماعت سیاسی عتاب میں ہوگی اور ایک جماعت پر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی ہوگی، اور یہ کھیل ماضی اور حال کی طرح مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ اس کھیل کا عملی نتیجہ سیاسی اور جمہوری عمل کی ناکامی ہوگی اور کسی کو بھی کچھ نہیں مل سکے گا۔آپ جتنے بھی سروے دیکھ لیں یا کروالیں اور جس کی بھی رائے لے لیں، کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہم شفاف انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سب کا مؤقف یہی ہے کہ ہم شفاف انتخابات کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ شفاف انتخابات ہمارے نصیب میں نہیں۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں اور سیاسی نظام کمزور ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ خاص طور پر جب لوگوں میںیہ سوچ اورفکر موجود ہو کہ جو بھی حکومت بنے گی اُس کا فیصلہ ووٹر کو نہیںبلکہ بڑی طاقتوں کو کرنا ہے تو پھر سیاسی نظام کی ساکھ کبھی بھی نہیں بن سکے گی، اورنہ ہی لوگوں کو یہ حق مل سکے گا کہ وہ اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق اپنی حکومت بناسکیں۔ لوگوں کا سیاسی،جمہوری اور انتخابی نظام پر اعتماد بڑھ نہیں بلکہ کمزور ہورہا ہے، اور جو باتیں کل تک پردے کے پیچھے تھیں اب وہ سامنے آگئی ہیں اور تمام ریاستی یا حکومتی ادارے لوگوں میں ننگے ہوگئے ہیں۔

ان انتخابات میں ہمیں اسٹیبلشمنٹ سمیت نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کا کھیل خاصا تنقیدی نظر آتا ہے، اورجو کچھ بھی یہاں ان انتخابات کو بنیاد بناکر کیا جارہا ہے اس کی اصل ذمہ داری بھی ان ہی قوتوں پر عائد ہوتی ہے۔ بالخصوص الیکشن کمیشن کا مجموعی کردار بہت شرمناک ہے اور لگتا ہے کہ اس کی ترجیحات میں شفاف انتخابات ہیں ہی نہیں۔ مثال کے طور پر بلّے کے انتخابی نشان پر الیکشن کمیشن کا عدالت میں جانا اور اس کو چیلنج کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود بھی اس کھیل میں فریق ہے۔ حالانکہ اس فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کو نہیں بلکہ متاثرہ فریق اکبر ایس بابر کو جانا چاہیے تھا، مگر الیکشن کمیشن کا جانا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک جماعت کو خود بھی انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ اسی طرح جو کچھ پی ٹی آئی کی مخالفت میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس پر بھی براہِ راست تنقید اسٹیبلشمنٹ پر ہورہی ہے، اور یہی بیانیہ بنایا جارہا ہے کہ اس کھیل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی مخالف بیانیہ ہے۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن تو کھل کر اب انتخابات ملتوی کرنے کی باتیں کررہے ہیں اور اُن کے بقول سیکورٹی کے حالات ایسے نہیں کہ ملک انتخابات کی طرف بڑھ سکے۔ اسی طرح صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی دو ٹویٹ کیے ہیں جن میں انہوں نے انتخابات کے تناظر میں ہونے والے سلوک کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم آئین و قانون کی حکمرانی کے برعکس نظام کو چلانا چاہتے ہیں۔ ایک تھیوری یہ بھی گردش کررہی ہے کہ جو لوگ ملک میں انتخابات نہیں چاہتے وہ حالات کو اس انداز سے بگاڑ رہے ہیں کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا ٹکرائو ہو، اور دوسری طرف سیاسی قوتوں کے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے ٹکرائو کا ماحول پیدا ہو اور معاملات عدالت میں جائیں، جس کو بنیاد بناکر انتخابات میں مزید تاخیر کی جائے۔ یہ جو سوچ ہے کہ انتخابات میں جانے سے پہلے ہمیں عمران خان اور پی ٹی آئی کا سیاسی بندوبست کرنا ہے اسی کی وجہ سے سارا انتخابی نظام متاثر ہورہا ہے اور ہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ رہے کہ ہمیں کیسے انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہے۔

اس کھیل میں ایک کردار کچھ سیاسی دانشور بھی ادا کررہے ہیں جو اپنے تجزیوں میں یہ نکتہ بار بار اجاگر کررہے ہیں کہ عمران خان ہی مقبول لیڈر ہیں، اور اگر شفاف انتخابات ہوئے تو اُن کی جیت یقینی ہے، لیکن اگر وہ جیت جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ان کا راستہ نہیں روکتی تو وہ آکر اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لیں گے۔ اسی طرح کچھ دانشوروں کی منطق یہ ہے کہ اگر عدلیہ نے عمران خان کا راستہ نہیں روکا تو وہ عدلیہ سمیت ملک کے چیف جسٹس کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ اگرچہ عمران خان ان باتوں کی تردید کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی بدلہ لینا چاہیں گے، لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن)، میڈیا کی مدد سے یہی بیانیہ اجاگر کررہی ہے کہ عمران خان کا راستہ روکنا اسٹیبلشمنٹ سمیت عدلیہ کے فائدے میں ہے۔ اسی طرح یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ عمران خان جب تک اسٹیبلشمنٹ سے معافی نہیں مانگتے اُس وقت تک اُن کا راستہ روکنا ہی قومی مفاد میں ہے۔ بنیادی طور پر یہ لوگ اس بات کے حامی ہیں کہ 9مئی کو بنیاد بناکر ہر صورت پی ٹی آئی کا راستہ روکا جائے اور اسے انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا جائے۔ مسئلہ محض 9 مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں تک محدود نہیں، کیونکہ یہاں تو بات ہی پوری جماعت کو دیوار سے لگانے کی ہورہی ہے، ایسے میں 9مئی پیچھے رہ گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی قیادتیں اپنے موجودہ طرزِعمل کو جاری رکھیں گی؟ اور انہوں نے طے کرلیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے ساتھ ہی آگے بڑھنا ہے؟ ایسا ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ یہ جو کھیل آج عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے اور کل نوازشریف یا پیپلزپارٹی کے ساتھ کھیلا گیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ اگلا کھیل پیپلزپارٹی اور بالخصوص مسلم لیگ (ن) یا شریف خاندان کے ساتھ کھیلا جائے گا۔ اس لیے جو بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ اپنے سیاسی مفاد میں ڈھول نہ بجائیں اور فکر کریں کہ اگلی بار ی اُن کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بھی ہے اوران کاامتحان بھی کہ وہ اس کھیل کے خلاف جو انتخابات کے نام پر سیاسی اورجمہوری بنیاد پر پیش کیا جارہا ہے، بغاو ت کریں۔ عمران خان، نوازشریف اور دیگر سیاست دان ایک دوسرے کی دشمنی میں اندھے نہ ہوں بلکہ سیاسی اور جمہوری نظام کی بنیاد پر خود کو بھی مضبوط کریں اور ملک کو بھی جمہوری بنیادوں پر چلانے کی کوشش کریں، اسی میں قومی مفاد ہے۔