اسرائیل کے جنگی جرائم غزہ میں نسل کشی

  • جنوبی افریقہ اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے گیا

  • صہیونی حکومت عالمی دبائو غزہ سے اسرائیل کے فوجی انخلاء کا آغاز

  • 2024ء اسرائیل کے اندر بڑی تبدیلی کا سال ثابت ہوسکتا ہے جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ پر بھی ہوگا۔

جنوبی افریقہ، اسرائیل کو نسل کُشی کے الزامات کے تحت اب عالمی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ یہ غیر معمولی صورتِ حال ہے جس کا سامنا اسرائیل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار کرنا پڑا۔ اس سے قبل اسرائیل خود انھی الزامات کے تحت دنیا میں یہودی مذہب کے ماننے والوں کے حق میں کئی بار بین الاقوامی قانون سازی کروا چکا ہے کہ جس میں ہٹلر کی جانب سے یہودیوں کی نسل کُشی کے انکار کو بھی جرم قرار قرار دے دیا گیا ہے۔ حالیہ فلسطین اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے ساکنون پر بے دریغ بمباری، اسپتالوں، ایمبولینسوں، مساجد، گرجا گھر، پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانے پر اس وقت پوری دنیا میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی دھوم ہے، تاہم جنوبی افریقہ وہ پہلا ملک ہے جس نے نہ صرف ان اسرائیلی اقدامات کی کھل کر مخالفت کی بلکہ ان جرائم کی وجہ سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بھی منقطع کرلیے۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ انسانیت کے خلاف جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر جائے گا، جو کہ اب اس نے کردکھایا۔ عالمی عدالتِ انصاف نہ صرف ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے بلکہ سنگین جنگی جرائم اور دیگر عالمی جرائم پر بھی باقاعدہ فیصلے دیتی ہے، اور ان فیصلوں کا احترام بین الاقوامی برادری کو چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان سے منسلک دو مقدمات بھی اہم ہیں جن میں عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کی روشنی میں پاکستانی عدالتوں نے اپنی کارروائیوں کو معطل یا تبدیل کردیا تھا۔ مشہورِ زمانہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے حوالے سے عالمی عدالتِ انصاف نے حکومتِ پاکستان سے کہا تھا کہ وہ کلبھوشن کی سزائے موت کو معطل کرے اور اس کو بھارتی قونصلر تک رسائی دی جائے، جس کے بعد سے حکومتِ پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کی ان دونوں ہدایات پر عمل کرنا پڑا تھا۔ دوسرا معاملہ ریکوڈک پروجیکٹ کا تھا کہ جس پر سپریم کورٹ کے حکم پر کام معطل کردیا گیا تھا۔ یہ معاملہ بھی عالمی عدالتِ انصاف میں گیا اور معاہدے کی منسوخی کی مد میں حکومتِ پاکستان کو 10 ارب ڈالر کا ہرجانہ متعلقہ کمپنی کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

لہٰذا عالمی عدالتِ انصاف میں کسی بھی کیس کا جانا ازخود اس ریاست کے لیے ایک سنگین صورتِ حال پیدا کردیتا ہے۔ اب اسی صورتِ حال کا سامنا اسرائیل کو ہے۔ پہلے تو اسرائیل ان الزامات کو اہمیت نہیں دے رہا تھا، لیکن یہ معاملہ عالمی عدالتِ انصاف کے سامنے پیش ہوگیا ہے تو اب اسرائیل کی حکومت شدید پریشانی میں مبتلا ہے اور بجائے اس کے کہ کیس کا دفاع عالمی عدالتِ انصاف میں کرے، اُس نے ازخود جنوبی افریقہ کی حکومت کو حماس کا ہمدرد اور اسرائیل کا دشمن قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ اس پورے کیس میں کہیں بھی حماس کی حمایت کا تذکرہ تک نہیں ہے، بلکہ اس کیس کی اصل بنیاد اہلِ غزہ پر وحشیانہ بمباری اور جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں ہے جن کو اب کیمرے کی آنکھ بھی محفوظ کرچکی ہے۔ اسرائیل اس کا اگر عدالتی بائیکاٹ کرے گا تو اس کا کیس مزید کمزور ہوگا۔ اسرائیل اگر عالمی عدالتِ انصاف کے دائرۂ سماعت کو نہیں مانے گا تب بھی اگر عدالتی فیصلہ اسرائیل کے خلاف آیا تو اسے سنگین معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور اس کا اثر لامحالہ اسرائیل کے بین الاقوامی تعلقات پر بھی ہوگا۔ اس ضمن میں یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور حکومتِ اسرائیل کسی بھی طور پر اس کیس سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے، لہٰذا اس ضمن میں اسرائیل نے چند نمائشی اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ وہ عالمی عدالتِ انصاف میں کہیں نہ کہیں اپنی صفائی میں کچھ پیش کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس ضمن میں سب سے بڑا اقدام سالِ نو 2024ء کے پہلے دن ہی غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کا آغاز ہے، گوکہ پوری طرح ابھی انخلاء نہیں کیا جارہا تاہم بہت سے مقامات سے اسرائیلی افواج کو واپس اسرائیل جانے کا کہہ دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں ایک جانب عالمی عدالتِ انصاف کا خوف ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ کی جانب سے بار بار جاری کیا جانے والا انتباہ ہے جس میں اسرائیل و امریکہ دونوں کو صورتِ حال کی سنگینی کے پیش نظر اس جنگ کو روکنے کا کہا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ میں اب انسانی زندگیاں بچانے کی آخری کوششیں کی جارہی ہیں، اگر اس میں بھی ناکامی ہوئی تو اس کے ذمہ داران کا تعین دنیا خود کرے گی۔ یہ ایک بہت بڑا اعلان ہے، اور اس کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کھل کر اظہار کرتے نظر آئے کہ ان حالات میں اقوام متحدہ کی نمائندہ حیثیت شدید طور پر متاثر ہورہی ہے جس کے بعد عالمی امن کے بارے میں بھی سوالات اٹھیں گے۔ اقوام متحدہ کے لیے غزہ جنگ خود ایک المیے سے کم نہیں کہ جس میں اقوام متحدہ کے اداروں کے 100 سے زائد رضاکار ہلاک کر دیئے گئے، اور یہ ہلاکتیں کسی دوطرفہ تصادم کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ یہ سب کے سب اسرائیل کی بمباری کا نشانہ بنے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کے بعد یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کی کوشش پوری دنیا کررہی ہے جوکہ خود اسرائیل کی جانب سے جاری جنگی جرائم کا ایک بین الاقوامی ثبوت بھی ہے۔ بہرحال اب صورتِ حال اسرائیل کے موافق نہیں۔ ان 86 دنوں میں غزہ پر قیامت توبیت گئی لیکن اسرائیل کو عالمی طور پر جس ہزیمت کا سامنا ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے۔

اسرائیل کے اندر بھی صورتِ حال سیاسی طور پر انتہائی کشیدہ ہے۔ اس کا آغاز ایک سال قبل اُس وقت ہوا تھا جب اسرائیل کی حکومت نے نئی قانون سازی کرتے ہوئے حکومت اور وزراء کے خلاف اسرائیلی سپریم کورٹ کو کسی بھی مقدمے کی سماعت سے روک دیا تھا۔ اس نئی قانون سازی کے بعد اپوزیشن نے شدید ترین احتجاج کیا، اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ اس سے اسرائیلی حکومت کو لامحدود اختیارات حاصل ہوں گے جس کے باعث عملاً قانون کی حکمرانی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کا اظہار خود حکومتی اقدامات میں بھی نظر آیا کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے ٹیکس فراڈ میں سزا یافتہ فرد کو وزیر تعینات کیا تھا جس کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی اقدام قرار دے دیا تھا۔ اس نئی آئینی ترمیم کا معاملہ سپریم کورٹ میں موجود تھا جس کا فیصلہ سالِ نو کے آغاز کے ساتھ ہوگیا، اور اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد 15 ہے جن میں سے 8 ججوں نے حکومتی قانون کو کالعدم قرار دے دیا جبکہ 7 ججوں نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ساتھ پارلیمان کے قانون سازی کے لامحدود اختیارات کو بھی محدود کردیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اراکین کی کُل تعداد 120 ہے جس کے تحت کسی بھی قانون کو پاس کرنے کے لیے کم از کم 61 اراکین کی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اب جبکہ اسرائیل میں حکومت سمیت کسی بھی پارٹی کے پاس 61 اراکین کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں ہے لہٰذا اس کے بعد مزید کسی اور قانون سازی کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ جو اس فیصلے کے خلاف پارلیمان کی جانب سے قرارداد کی صورت میں سامنے آسکے۔

اسرائیلی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے بلکہ اس فیصلے کے ساتھ ہی اسرائیل میں ایک سنگین آئینی و قانونی بحران بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ اور اپوزیشن کے تاحال جاری احتجاج اسرائیل میں شدید تقسیم کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ایک جانب عالمی برادری کا دباؤ، دوسری جانب عالمی عدالتِ انصاف کا خوف، اور اب سنگین آئینی بحران نے اسرائیل کی حکومت کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ اس سال ہوجائے گا، اور اِس سال ہونے والے انتخابات میں عوام شاید حکمران جماعت لیکویڈ پارٹی کو اکثریت نہ دے سکیں، جس کا نتیجہ مزید تقسیم کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک بات واضح ہے کہ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی انتہا پسندانہ پالیسیوں نے نہ صرف اسرائیل کو بین الاقوامی طور پر ہزیمت کا شکار کردیا ہے بلکہ ان پالیسیوں کے باعث اسرائیل بھی شدید انتشار کا شکار ہے۔ یہ دوطرفہ دباؤ شاید کہ اسرائیل کے عوام کو اس جانب توجہ دلادے کہ انتہا پسندانہ پالیسیوں سے جو نقصان اسرائیل اٹھا رہا ہے اس کی قیمت اسرائیل کے عوام کو ہی چکانی ہے۔ سال 2024ء اسرائیل کے اندر بڑی تبدیلی کا سال ثابت ہوسکتا ہے جس کا اثر مشرقِ وسطیٰ پر بھی ہوگا۔